اسلامی حجاب/ چند سوالات
چند سوالات معاشرتی قوانین کا نفاذ بذریعہ قوت؟ سوال: کیا اسلامی حکومت لباس کے حوالے سے طاقت یا جبر کا استعمال کر سکتی ہے کہ کسی مخصوص لباس کو پہننے سے روکنے کے لیے سزا دے؟ جواب:جی ہاں ایسا بالکل کیا جا سکتا ہے۔ سوال: جب اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے کسی کو زبردستی اسلام قبول کرنے کا نہیں کہا تو اسلامی حکومت کیسے کسی کو زبردستی ایک مخصوص لباس پہننے پر مجبور کر سکتی ہے؟ کوئی ایک آیت دکھائیں کہ کوئی مسلمان دوسرے مسلمان کو لباس کے حوالے سے مجبور کر سکتا ہے؟ جواب: اسلامی حکومت کسی کو زبردستی ایک مخصوص لباس یا یونیفارم پہننے پر مجبور نہیں کر سکتی ۔ اللہ تعالیٰ نے لباس کے چند خواص بتا دئیے ہیں یعنی جو شرم کے حصوں کو چھپائے اور باعث زینت ہو۔ اس کے مطابق کوئی بھی لباس چاہے مشرقی ہو یا مغربی پہنا جا سکتا ہے۔ اسلامی حکومت کسی کو ایسا لباس پہننے سے روک سکتی ہے جو معاشرے میں بگاڑ کا موجب بن سکتا ہو۔ ایسا لباس جو شرم کے حصوں کو نہ چھپائے۔اس حوالے سے قرآن کریم کی ایک آیت ہے کہ وَاللَّاتِي يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ مِن نِّسَائِكُمْ فَاسْتَشْهِدُوا عَلَيْهِنَّ أَرْبَعَةً مِّنكُمْ ۖ فَإِن شَهِدُوا فَأَمْسِكُوهُنَّ فِي الْبُيُوتِ حَتَّىٰ يَتَوَفَّاهُنَّ الْمَوْتُ أَوْ يَجْعَلَ اللَّهُ لَهُنَّ سَبِيلًا [٤:١٥] ”تمہاری عورتوں میں سے جو بے حیائی کا کام کریں ان پر اپنے میں سے چار گواه طلب کرو، اگر وه گواہی دیں تو ان عورتوں کو گھروں میں قید رکھو، یہاں تک کہ موت ان کی عمریں پوری کردے، یا اللہ تعالیٰ ان کے لئے کوئی اور راستہ نکالے“ (ترجمہ: محمد جونا گڑھی) فحشاء کی تعریف آیت میں لفظ الْفَاحِشَةَ آیا ہے۔ اس کی عام سی تعریف یوں کی جا سکتی ہے کہ فحشاء: ایسی تمام برائیاں ہیں جو کھلی ہوئی اور صریح ہوں۔ ان کا ارتکاب عوام میں ہو۔ جس کے لیے باآسانی گواہ میسر آ سکیں ۔ اس کے اندر وہ تمام برائیاں آ گئیں، جو قوتِ شہویہ کی زیادتی سے پیدا ہوتی ہیں یا جن سے قوت شہویہ میں اضافہ ہو سکتا ہے۔معاشرے میں بگاڑ کا خدشہ ہو۔ منکرات کی تعریف اس کے ساتھ ساتھ منکرات کی تعریف بھی دیکھ لیں۔ منکر ات: ہر وہ کام جو اسلامی تعلیمات کے منافی ہو، جس کا ضرر دوسروں یعنی معاشرے کو پہنچے(اس لحاظ سے فحشاء بھی منکرات میں شامل ہے) غیر مناسب لباس بھی فحشاء اور منکرات کے زمرے میں آتا ہے۔جہاں تک سوال کا تعلق ہے کہ کسی کو ”اسلامی حکومت“ میں زبردستی غیر مناسب لباس پہنے سے روکا جا سکتا ہے یا نہیں تو اس کے لیے اسی آیت یعنی سورۃ النساء کی آیت 15 میں فحشاء کی سزا گھروں میں روک دینا قرار دی گئی ہے۔ یعنی فحشاء پھیلانے والی کے لیے اس کا گھر ہی سب جیل (Sub Jail) قرار دیا گیا ہے۔ اگر اس کی فحاشی کی نوعیت غیر مناسب لباس ہو گا تو اسلامی حکومت اسے بزور طاقت گھر تک محدود کر سکتی ہے۔ایسی صورت میں یہ گھر تک محدود کرنا غیرمناسب لباس پہننے سےبذریعہ قوت روکنا ہی تو ہوگا ، اس روکنے کا حکم اللہ تعالیٰ دے رہے ہیں ،اسلامی حکومت تو بس فیصلے پر عمل درآمد کرانے کی پابند ہے۔ سوال: ہمارے مطابق قرآن پاک میں حجاب ایک تجویز ہے جو صرف بُرے لوگوں سے بچاؤ کے لیے ہیں۔ ہم کسی کو حجاب پہننے پر مجبور نہیں کر سکتے نہ ہی حجاب پر بین لگا سکتے ہیں۔ جواب: چلیں مان لیا کہ حجاب صرف بُرے لوگوں سے بچاؤ کے لیے صرف ایک تجویز ہے۔ اب اگر کوئی اس تجویز پر عمل نہ کرے اور برے لوگ تنگ کرے تو کیا اللہ تعالیٰ سے گلہ کیا جائے گا کہ کیسا اسلام ہے جس میں برے لوگ تنگ کرتے ہیں؟ ڈاکٹر علاج کے لیے تجاویز دیتا ہے کہ یہ پرہیز نہ کیا تو نقصان ہو گا۔ اب اگر بدپرہیزی کی تو ڈاکٹر کا کیا قصور؟ اللہ تعالیٰ کو تو خواتین کی عزت و ناموس کا اتنا خیال ہے کہ عورتوں کے بارے میں بُری افواہ پھیلانے والوں اور تنگ کرنے والوں کے لیے موت کی سزا تک بھی مقرر کر دی ہے، جیسا کہ درج ذیل آیات میں درج ہے۔ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا [٣٣:٥٩] ”اے نبیؐ، اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے“ لَّئِن لَّمْ يَنتَهِ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ وَالْمُرْجِفُونَ فِي الْمَدِينَةِ لَنُغْرِيَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ لَا يُجَاوِرُونَكَ فِيهَا إِلَّا قَلِيلًا [٣٣:٦٠] ”اگر منافقین، اور وہ لوگ جن کے دلوں میں خرابی ہے، اور وہ جو مدینہ میں ہیجان انگیز افواہیں پھیلانے والے ہیں، اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو ہم ان کے خلاف کاروائی کرنے کے لیے تمہیں اُٹھا کھڑا کریں گے، پھر وہ اس شہر میں مشکل ہی سے تمہارے ساتھ رہ سکیں گے“ مَّلْعُونِينَ ۖ أَيْنَمَا ثُقِفُوا أُخِذُوا وَقُتِّلُوا تَقْتِيلًا [٣٣:٦١] ”ان پر ہر طرف سے لعنت کی بوچھاڑ ہو گی، جہاں کہیں پائے جائیں گے پکڑے جائیں گے اور بُری طرح مارے جائیں گے“ سخت فتنے کے دور میں اسلامی قوانین نافذ کرتے ہوئے جب تک پہلے اقدام(آیت 59) یعنی عورتوں کے چادرلینے پر عمل درآمد نہیں ہو گا کیسے دوسرے حصے پر عمل کیا جائے کہ صرف فتنہ پردازوں ہی سزا دی جائے؟(آیت 61 اور 61)۔اسلام پورے معاشرے کی تربیت کرتا ہے۔ وہ مردوں کو عورتوں سے پہلے نگاہیں نیچے رکھنے کی ہدایت کرتا ہے ، جو مرد اس ہدایت پر عمل نہیں کرے گا وہ جلد ہی دوسرے اقدامات کے ذریعے ،جیسے عورتوں کے چادر لینے کے بعد، سب کے سامنے آ جائے گا اور سخت سزا پائے گا۔ غیر اسلامی ملک میں پردے کے احکام سوال: اگر کوئی ایسا ملک ہو جہاں اسلامی حکومت نہیں توکیا وہاں کوئی کسی پر لباس کے حوالے سے زبردستی کر سکتا ہے؟ جواب: جی نہیں،ایسی صورت میں ایسا نہیں کیا جا سکتا۔مسلمان صرف خود پر ہی انفرادی حیثیت میں کوئی چیز لاگو کر سکتے ہیں مگردوسرے کو صرف نصیحت کی جاسکتی ہے۔ جیسے نبی کریم ﷺ نے مکی دور میں صرف نصیحت کی اور اس دور میں جو آیات وحی ہوئیں ان کا تعلق بھی انہی وعظ و نصیحت سے تھا۔ مدینہ میں جب نبی کریم ﷺ کو حکومت ملی تو انہوں نے اجتماعی قوانین کا نفاذ فرمایا۔ قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَن تُشْرِكُوا بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَأَن تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ ﴿الأعراف: ٣٣﴾ ”اے محمدؐ، اِن سے کہو کہ میرے رب نے جو چیزیں حرام کی ہیں وہ تو یہ ہیں: بے شرمی کے کام خواہ کھلے ہوں یا چھپے اور گناہ اور حق کے خلاف زیادتی اور یہ کہ اللہ کے ساتھ تم کسی کو شریک کرو جس کے لیے اُس نے کوئی سند نازل نہیں کی اور یہ کہ اللہ کے نام پر کوئی ایسی بات کہو جس کے متعلق تمہیں علم نہ ہو کہ وہ حقیقت میں اسی نے فرمائی ہے“ (۷: ۳۳) قُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ أَلَّا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُم مِّنْ إِمْلَاقٍ نَّحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ﴿الأنعام: ١٥١﴾ ”اے محمدؐ! ان سے کہو کہ آؤ میں تمہیں سناؤں تمہارے رب نے تم پر کیا پابندیاں عائد کی ہیں: یہ کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو، اور اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو، ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں اور ا ن کو بھی دیں گے اور بے شرمی کی باتوں کے قریب بھی نہ جاؤ خواہ وہ کھلی ہوں یا چھپی اور کسی جان کو جسے اللہ نے محترم ٹھیرایا ہے ہلاک نہ کرو مگر حق کے ساتھ یہ باتیں ہیں جن کی ہدایت اس نے تمہیں کی ہے، شاید کہ تم سمجھ بوجھ سے کام لو“ (۶: ۱۵۱) یعنی فواحش کو حرام قرار دے دیا گیا ہے۔ اسلامی نظام میں حکومت اس سے روکے گی اور غیر اسلامی نظام میں مسلمان خود ہی خود کو روکے گا۔ اسلامی حکومت کے اختیارات سوال: اسلامی حکومت کو لباس کے حوالے سے زبردستی کا اختیار کس نے دیا؟ جواب: اسلای حکومت کسی بھی غیر مناسب لباس کو بذریعہ طاقت روک کر سزا دے سکتی ہے جیسا کہ اوپر سوال کے جواب میں بھی بتایا گیا ہے۔اب اسے یہ اختیار کس نے دیا اس کے لیے چند آیات دیکھیں۔ إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَن تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ﴿النور: ١٩﴾ ”جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں کے گروہ میں فحش پھیلے وہ دنیا اور آخرت میں دردناک سزا کے مستحق ہیں، اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے “(۲۴: ۱۹)
دنیا میں جو سزا دینی ہے وہ بھی قرآن کریم میں کوڑوں کی صورت میں موجود ہے۔آخرت میں اس کی سزا اللہ تعالیٰ بھی دیں گے۔ دنیا میں وہ لوگ سزا نافذ کریں گے جن کو اللہ زمین کا اقتدار دے اور وہ زمین پر اللہ کے نام کی حکومت قائم کریں گے۔ جیسا کہ اس آیت میں بیان کیا گیا ہے۔ الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ ﴿الحج:٤١﴾ ”یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے منع کریں گے اور تمام معاملات کا انجام کار اللہ کے ہاتھ میں ہے“ (۲۲: ۴۱) یہاں منکرات سے منع کرنا طاقت کے ذریعے ہو گا، نصیحت کے ذریعے نہیں۔ نصیحت کے ذریعے منکرات سے منع کرنا ہر مسلمان نبی غیر نبی کا فرض ہے، چاہے وہ محکوم ہی کیوں نہ ہو۔نبی کریم ﷺ کی مکی زندگی نصیحت کرتے ہی گذری ہے۔ کتنے لوگوں نے شرک سے توبہ کی؟ کتنے لوگوں نے کعبہ کا برہنہ طواف کرنا بند کر دیا؟ صرف ایمان لانے والے ہی منع ہوئے ۔ جو پکے کافر تھے، وہ نہ ایمان لائے اور نہ اسلامی احکامات پر عمل کیا۔ فتح مکہ کے بعد بزور قوت کعبہ کو بتوں سے پاک کیا گیا۔تمام مکے والے تو اس کے بعد ایمان لائے تھے۔ اگر وہ ایمان نہ بھی لاتے تو اللہ تعالیٰ کے گھر کو بتوں سے پاک تو کرنا ہی کرنا تھا۔ سوال: اسلامی حکومت کا کام نہیں کہ کسی کو زبردستی کوئی مخصوص لباس پہنائے، نماز کے لیے مجبور کرے، داڑھی رکھنے پر مجبور کرے۔ حکومت کا کام صرف نصیحت کرنا ہوتا ہے۔ جواب: جی بالکل اسلامی حکومت کا کام نہیں کہ کسی کو زبردستی عبادات کے لیے مجبور کرے، نہ ہی کسی کو ایک مخصوص یونیفارم پہننے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ اسلامی حکومت میں دینی معاملات پر کسی کو مجبور نہیں کیا جا سکتا کہ دین میں جبر نہیں۔مگر دوسرے معاشرتی معاملات کہ جن کی خلاف ورزی چاہے مسلمان کرے یا غیر مسلم خلاف ورزی پر سزا پائے گا، جیسے چوری ڈاکہ وغیرہ۔ لباس کا تعلق بھی معاشرت سے ہے۔اسلامی حکومت کسی کے گھروں میں گھس کر نہیں دیکھ سکتی کہ وہاں کس نے کیا پہنا ہوا ہے۔ باہر کے لیے لباس اللہ تعالیٰ نے بیان کر دیا ہے کہ شرم کے حصوں کو چھپائے اور باعث زینت ہو۔ نیز باہر کے لوگوں کے سامنے خواتین کو کس قسم کا لباس پہننا چاہیے اس کی تفصیل بھی اوپر آ چکی ہے۔مردوں کے لیے بھی یہی شرط ہے کہ شرم کے حصوں کو چھپانے والا اور باعث زینت لباس زیب تن کرے۔ يَا بَنِي آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوْآتِكُمْ وَرِيشًا ۖ وَلِبَاسُ التَّقْوَىٰ ذَٰلِكَ خَيْرٌ ۚ ذَٰلِكَ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ [٧:٢٦] ”اے آدم (علیہ السلام) کی اولادہم نے تمہارے لئے لباس پیدا کیا جو تمہاری شرم گاہوں کو بھی چھپاتا ہے اور موجب زینت بھی ہے اور تقوے کا لباس، یہ اس سے بڑھ کر ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہے تاکہ یہ لوگ یاد رکھیں“ سر پر چادر لینا سوال: کیا سر پر چادر لینا حجاب کا حصہ ہے؟ جواب:اس کے جواب کے لیے یہ آیت دیکھیں يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا [٣٣:٥٩] ”اے نبیؐ، اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے“ جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے جلابیب وہ چادر ہوتی ہے جو ڈوپٹے کے اوپر ڈالی جائے۔اوپر ڈالنے سے مراد سر پر ڈالنا ہی ہے۔ اس طرح کے اقدامات تعزیر کے طور پر اس وقت نافذ کیے جائیں گے جب اسلامی حکومت قائم ہو رہی ہو۔حکم نہ ماننے کی صورت میں مشاورت کے ذریعے اس کی خلاف ورزی پر کوئی بھی سزا تجویز کی جا سکتی ہے۔ اگر اسلامی معاشرہ قائم کیے بہت عرصہ ہو چکا ہو اور خواتین کے حوالے سے کوئی جرائم بھی سامنے نہیں آتے ہوںتو حکومت چاہے تو سر پر چادر لینے کے حکم میں نرمی بھی کر سکتی ہے۔ غیر اسلامی ملک میں خواتین کو کوئی مسلمان چادر لینے پر مجبور نہیں کر سکتا، صرف نصیحت کر سکتا ہے۔ چہرہ کا نقاب سوال: اسلام نے چہرے کے نقاب سے منع نہیں کیا مگر بعض لوگوں کو چہرے سے ہی شہوت محسوس ہوتی ہے۔ قصور مردوں کا ہے، عورتیں چہرہ کیوں ڈھانپیں؟ جواب: وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ ۖ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَىٰ عَوْرَاتِ النِّسَاءِ ۖ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ ۚ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ [٢٤:٣١] ”اور اے نبیؐ، مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، اور اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں بجز اُس کے جو خود ظاہر ہو جائے، اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں وہ اپنا بناؤ سنگھار نہ ظاہر کریں مگر اِن لوگوں کے سامنے: شوہر، باپ، شوہروں کے باپ، اپنے بیٹے، شوہروں کے بیٹے، بھائی، بھائیوں کے بیٹے، بہنوں کے بیٹے، اپنے میل جول کی عورتیں، ا پنے مملوک، وہ زیردست مرد جو کسی اور قسم کی غرض نہ رکھتے ہوں، اور وہ بچے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہ ہوئے ہوں وہ ا پنے پاؤں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ اپنی جو زینت انہوں نے چھپا رکھی ہو اس کا لوگوں کو علم ہو جائے اے مومنو، تم سب مل کر اللہ سے توبہ کرو، توقع ہے کہ فلاح پاؤ گے “۔ اس آیت کے مطابق اگر چہرہ قدرتی طور پر خوبصورت ہو یا اسے مصنوعی طور پر خوبصورت بنایا گیا ہو تو اس کا چھپانا ضروری ہے، کیونکہ زیب و زینت اور سنگھار کو محرمات کے سامنے ظاہر کیا جا سکتا ہے۔ اسلامی معاشرہ میں جیسے حالات ہونگے ویسے ہی احکامات نافذ ہونگے۔ اسلامی حکومت، جو کہ ظاہری بات ہے معاشرے کے حالات سے باخبر ہوگی، کواگر لگے کا کہ چند ایک نہیں بلکہ بہت سے لوگ چہرے سےہی شہوت محسوس کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ پہلے کافی خراب معاشرہ تھا، اسے سنوارنے کے لیے ہنگامی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ان ہنگامی اقدامات میں چہرے کا پردہ یعنی جلابیب (اوپری چادروں) سے سر اور چہرے کو ڈھانپا جائےگا اور پھر خواتین کے خلاف جرائم پر انتہائی سزاؤں کا نفاذ ہو گا۔ اگر اسلامی حکومت کو محسوس ہو معاشرہ بہت حد تک نیک اور صالح ہے اور معاشرے میں اخلاقی جرائم نہیں تو وہ چہرے کے نقاب کے حوالے سے قوانین میں نرمی کر سکتی ہے۔غیر اسلامی ملک میں کوئی کسی کو چہرے ڈھاپنے پر مجبور نہیں کر سکتا، صرف نصیحت کر سکتا ہے۔ کام کے دوران چہرے کا پردہ ہونے کے حوالے سے یہ آیت پیش کی جا سکتی ہے کہ يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاءِ ۚ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوفًا [٣٣:٣٢] ”نبیؐ کی عورتوں (اہل بیت خواتین)، تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر تم اللہ سے ڈرنے والی ہو تو دبی زبان سے بات نہ کیا کرو کہ دل کی خرابی کا مُبتلا کوئی شخص لالچ میں پڑ جائے، بلکہ صاف سیدھی بات کرو “ اس آیت میں مخاطب تو امہات المومنین ہیں مگر تعلیم سب کے لیے یہی ہے کہ اجنبی جن کا پتا نہ ہو کہ دل کا کیسا ہے اُن سے نرم لہجے میں بات نہ کرو، یعنی ٹو دی پوائنٹ بات سیدھے سادھے انداز میں جس سے اگلا کسی قسم کی غلط فہمی کا شکار نہ ہو جائے۔ یعنی ہر کسی کو بھائی کہہ کر مخاطب کرنا وغیرہ۔اس آیت کے مطابق تو کسی کو بھی نہیں پتہ کہ دل کی خرابی میں مبتلا شخص کون ہے، بس حفاظتی اقدامات کے طور پر بتا دیا گیا ہے کہ نرم آواز سے کوئی بھی دل کی خرابی میں مبتلا ہو سکتا ہے۔ دل کی خرابی میں مبتلا کوئی بھی شخص آواز(نرم آواز) تو وہ بعد میں سنے گا پہلے تو چہرے سے ہی مزید دل کی خرابی میں مبتلا ہو گا۔اس لیے چہرہ بھی ڈھانپ لینا چاہیے۔جو شخص آواز سے ہی دل کی خرابی میں مبتلا ہو جائے کیا وہ چہرہ دیکھ کر نہیں ہو سکتا۔اگر مرد نگاہیں نیچے کرنے کے حکم پر عمل نہیں کر رہے تو عورتیں پردے کے احکامات پر عمل کریں، مردوں نے اپنے اعمال کا جواب دینا ہےا ور عورتوں نے اپنے اعمال کا۔
کام کے دوران چہرے کا پردہ نہ ہونے کے حوالے سے ایک دلیل اس آیت سے بھی دی جا سکتی ہے کہ وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَىٰ فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَلَّا تَعُولُوا [٤:٣] ”اور اگر تم یتیم لڑکیوں سے بے انصافی کرنے سے ڈرتے ہوتوجوعورتیں تمہیں پسند آئیں ان میں سے دو دو تین تین چار چار سے نکاح کر لو اگر تمہیں خطرہ ہو کہ انصاف نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی سے نکاح کرو جو لونڈی تمہارے ملک میں ہو وہی سہی یہ طریقہ بے انصافی سے بچنے کے لیے زیادہ قریب ہے “(ترجمہ:احمد علی) اگر سب عورتوں نے چہرہ چھپایا ہو تو عورتوں میں سے اپنی پسند کی عورت سے شادی کیسے ہو، جب تک کہ عورتوں کو دیکھ نہ لیا جائے۔عورت کو پسند کرنے میں چہرے کی پسندیدگی بھی شامل ہے۔ اس لیے اس حوالے سے حالات کو دیکھتے ہوئےاسلامی حکومت اور غیر اسلامی حکومت میں عوام خود ہی فیصلہ کر لیں گے کہ چہرے کا پردہ کرنا چاہیے یا نہیں۔ سکارف نہ پہننے کی سزا کیا ہو سکتی ہے؟ سوال: اسلامی حکومت میں اگر حکومت سکارف پہنے کا کہے اور نہ پہنا جائے تو اس کی سزا کیا ہو گی؟ جواب: کسی بھی حکومت کو ایسے فیصلے کرنے ہی نہیں چاہیے جن پر وہ عمل دراآمد نہ کرا سکے یا اپنی رٹ قائم نہ کر سکے۔ سکارف کے حوالے سے احکامات پر عمل درآمد کے حوالے سے حکومت مشاورت سے کوئی بھی سزا تجویز کر سکتی ہے۔ پہلی دفعہ زبانی تنبیہ اور سب سے آخری حد کے طور پر گھر کو ہی سب جیل یا پھر جیل۔ سوال: غیر مسلم حکومت اگر سکارف نہ پہننے دے تو کیا کریں؟ جواب: آپ ایک غیر اسلامی ملک میں رہتے ہوں اور وہاں آپ کو غیر شرعی احکامات پر عمل کرنے کا کہا جائے تو آپ کو دیکھنا ہو گا کہ اس غیر شرعی احکامات پر کہاں تک عمل کیا جا سکتا ہے۔ایسے معاشرے میں رہنا اگر ضروری ہو تو سکارف نہ لینے کی پابندی برداشت کی جا سکتی ہے لیکن اگر اس سے بڑھ کر آپ کو ایسے احکامات پر عمل کرنے کے لیے کہا جاتا ہے جو فحشاء اور منکرات میں آتے ہیں تو اس پر آپ عمل نہیں کر سکتے۔ إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنفُسِهِمْ قَالُوا فِيمَ كُنتُمْ ۖ قَالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ ۚ قَالُوا أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوا فِيهَا ۚ فَأُولَٰئِكَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا [٤:٩٧] ”جو لوگ اپنے نفس پر ظلم کر رہے تھے اُن کی روحیں جب فرشتوں نے قبض کیں تو ان سے پوچھا کہ یہ تم کس حال میں مبتلا تھے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم زمین میں کمزور و مجبور تھے فرشتوں نے کہا، کیا خدا کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانا جہنم ہے اور بڑا ہی برا ٹھکانا ہے “
سوال : کوئی ایسی مثال دیجیے جس میں تاریخ میں کسی نے کسی عورت کو سکارف نہ پہننے پر سزا دی ہو۔ جواب: مسئلہ تاریخ کے حوالےکا نہیں۔ اسلامی حکومت کے بنائے ہوئے قوانین اور اس کے نفاذ کا ہے۔ اگر حکومت یہ قانون بنا دیتی ہے تو سکارف نہ لینا جرم ہے تو اس کی سزا بھی وہی دے گی۔ معاشرے کے حالات کے مطابق اسلامی حکومت کسی بھی طرح کے قوانین بنا سکتی ہےا ور وہی اسے نافذ کرے گی اور وہی ان پر عمل درآمد کرائے گی۔ جب اسلامی حکومت کہہ دے گی کہ آج سے خواتین سروں پر چادر لیں تو بس لیں۔ اس بارے میں قرآن کی آیت پہلے آ چکی ہے کہ اگر مرد عورتوں کے چادر لینے کے باوجود بھی اُن کو تنگ کریں تو انہیں جلاوطنی سے لیکر موت تک کی سزا دی جا سکتی ہے۔ اس کا دوسرا رخ یہ کہ ایسی عورت جو ان احکامات کے نافذ ہونے کے بعد بھی ان پر عمل نہ کرے تووہ بھی سزا کی حق دار ہو گی۔جب مرد اسلامی حکومت کا فیصلہ نہ مانتے ہوئے سکارف پہننے والی عورتوں کو تنگ کرے تو اسے تو حکومت سزائے موت تک کی سزا دے، اور جو عورت اسلامی حکومت کا کہا نہ مانتے ہوئے سکارف نہ پہنے تو اسے سزا کیوں نہ دی جائے؟ اسلامی حکومت عورت کو سزا سکارف کے پہننے نہ پہننے پر نہیں بلکہ اصل سزا تو قانون کی خلاف ورزی کرنے پر دے گی۔ سزا کا فیصلہ خود حکومت کرے گی۔ سوال: چادر یا ڈوپٹہ نہ لینا کوئی تعزیری جرم نہیں کہ اس کے نہ لینے سے کسی کا نقصان ہو۔ ملاوٹ چوری جرائم ہیں اس لیے اس کی سزا ہیں۔ ڈوپٹہ نہ لینے کی سزا کیوں۔اگر قرآن نے اسے تعزیری جرم نہیں کہا تو آپ کیوں کہہ رہے ہیں؟ جواب: کوئی چیز تعزیری جرم ہے یا نہیں اس کا فیصلہ حکومت مختلف حالات دیکھتے ہوئے کرتی ہے۔ ایک چیز جو آج ایک جرم ہے ہو سکتا ہے کل کو نہ ہو، جیسے جنگ کے زمانے میں راشن محدود تعداد میں مخصوص کارڈ پر فروخت کیا جاتا ہے۔ اس کی خلاف ورزی کرنے والے کو سزا دی جاتی ہے۔ جب جنگ ختم ہو جاتی ہے تو یہ عمل جو جنگ کے زمانے میں جرم تھا اب جرم نہیں رہا۔ یہی حال پردے کے حوالے سے قوانین کا ہو گا، جب حکومت دیکھے کہ حالات اتنے خراب ہیں عورتوں پر حملے زیادہ ہو رہے ہیں تو ایسے حالات میں عورتوں کو سروں پر ڈوپٹہ لینے کا حکم دیا جا سکتا ہے۔ جب حکومت دیکھے کہ معاشرہ اچھے اور نیک لوگوں کا ہے تو حکومت کو ایسی کسی پابندی لگانے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ نیک عورتوں خود ہی پردے کے احکام پر عمل کریں گی، مرد خود نگاہ نیچی رکھیں گے۔ جرم ڈوپٹہ نہ لینا نہیں حکم کی خلاف ورزی ہو گا۔ سوال: اگر کسی عورت نے کپڑے تو پہنے ہوئے ہیں مگر ڈوپٹہ نہیں لیا ہوا ، ایسی عورت کو دیکھ کر اگر کسی کی شہوت بڑھتی ہے تو اس میں قصور اس مرد کا ہے، اس کی سوچ کا ہے نہ کہ اس عورت کا۔قرآن نے تو اسے کہا ہے کہ اپنی نگاہیں نیچے رکھو۔ اس نگاہوں کے نیچے رکھنے میں شہوانی خیالات کا دل میں نہ آنے دینا بھی ہے۔خراب شخص تو سر تاپا کپڑے میں ملبوس عورت کو بھی بری نگاہ سے دیکھتا ہے۔ چادر کا لینا ایک نصیحت ہے جو عورتوں کو پاکستان جیسے ملک میں برے لوگوں سے بچنے کے لیے لینی چاہیے مگر یہ فرض نہیں ہے۔یہ ایسا قدام ہے جو حالات پر منحصر ہے۔ اسلام کسی کو زبردستی چادر لینے پر مجبور نہیں کر تا۔ جواب: اللہ تعالیٰ نے مردوں کے دلوں میں عورتوں کے لیے کشش رکھی ہے۔ اسی طرح عورتوں کے دل میں سجنے سنورنے اور خوبصورت نظر آنے کی خواہش رکھی ہے۔اس فطرت کے بعد اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو حکم دیا کہ اپنی خواہشات کی تکمیل نا جائز ذرائع سے نہیں کرنی۔ آپ نے درست کہا کہ خراب شخص تو سرتا پا کپڑے میں ملبوس عورت کو بھی بری نظر سے ہی دیکھے گا، مگر ایسے خراب شخص کو سامنے بھی تو لانا ہے، تاکہ اسے سزا دے کر معاشرے کو اس سے پاک کریں۔ اسے سامنے لانے کا طریقہ قرآن کریم نے بتا دیا ہے کہ مومن عورتوں چادریں لے کر نکلا کریں، خراب شخص جلدی سے باز نہیں آئے گا، اس لیے جلد ہی پکڑا جائے گا۔پکڑنے کے بعد اس کی سزا بھی تو دیکھیں کتنی سخت ہے، علاقہ بدر سے لےکر قتل تک۔کسی بھی عام بندے کو پکڑ کر یہ سزا نہیں دی جا سکتی۔ مجرم کو ہی دی جائے گی نا۔یہ Cause اور Effect والی ہے۔ اسلام پہلے کاز پر توجہ دیتا ہے، اسی لیے تو عورتوں کو پردے میں باہر نکلنے کا حکم دیا، تاکہ بے پردگی کے ایفکٹس ظاہر نہ ہوں۔ اگر اس کے باوجود ایفکٹس سامنے آئیں تو وہ معاشرے میں فساد ہو گا جس کی سزا بھی سخت رکھی گئی ہے۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قحظ کے زمانے میں چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا منسوخ کر دی تھی،جب قحط ختم تو سزائیں بحال۔ مرد کا نگاہیں نیچی رکھنے کے احکامات پر عمل نہ کرنا اس بات کی دلیل نہیں بن سکتا کہ عورتیں بھی اپنے پردہ کے احکام پر عمل نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ نے تو دونوں کو حکم دیا ہے، دونوں سےا لگ الگ حساب کتاب ہو گا۔ کیا اللہ تعالیٰ کے ہاں عورتوں کا یہ عذر قابل قبول ہو گا کہ مردوں کو پہلے حکم تھا، انہیں عمل کرنا چاہیے تھا؟ قرآن کریم میں جہاں جہاں مردوں اور عورتوں کو مخاطب کیا گیا ہے وہاں پہلے مردوں کا نام ہے اور پھر عورتوں کا،جیسے مومن، مومنہ، اچھائی کرنے والے مرد، اچھائی کرنے والی عورتیں وغیرہ۔ کہیں پر بھی کوئی حکم اس وجہ سے ساقط نہیں کہ پہلے ایک کرے گا تو دوسرا کرے گا۔ یہ سی ٹی بی ٹی کا معاہدہ تو ہے نہیں کہ پہلے بھارت دستخط کرے پھر پاکستان کرے گا۔
فحاشی؟ سوال: فحاشی کیا ہے؟ کیا زنا فحاشی ہے؟ کیا بغیر سکارف کے گھومنا فحاشی ہے؟ جواب: فحاشی کیا ہے سے متعلق عرض ہے کہ ایسی تمام برائیاں ہیں جو کھلی ہوئی اور صریح ہوں۔ ان کا ارتکاب عوام میں ہو۔ جس کے لیے باآسانی گواہ میسر آ سکیں ۔ اس کے اندر وہ تمام برائیاں آ گئیں، جو قوتِ شہویہ کی زیادتی سے پیدا ہوتی ہیں یا جن سے قوت شہویہ میں اضافہ ہو سکتا ہے۔معاشرے میں بگاڑ کا خدشہ ہو۔ اس کی شروعات ہر قسم کی غیر اخلاقی حرکتوں سے شروع ہو جاتی ہے۔سر منہ ڈھانپ کر کسی کو غیر اخلاقی اشارے کرنا بھی فحاشی ہے۔کھلی بدکاری بھی فحاشی ہے۔فحاشی کے لیے یہ ضروری نہیں کہ کم کپڑے پہنے ہوں بلہ سرتاپا جسم ڈھانپ کر غیر اخلاقی گفتگو وحرکات بھی فحاشی میں شامل ہونگی۔ زنا باقاعدہ الگ اصطلاح ہے جو قرآن میں بیان ہوئی ہے۔ فواحش کی اگلی منزل زنا ہوتا ہے۔زنا میں فحاشی بھی شامل ہوتی ہے۔ اس کی سزا فحاشی کی سزا سے بڑھ کر ہے۔ بغیر سکارف کے گھومنا فحاشی ہے یا نہیں ، اس کا فیصلہ معاشرے کے حالات دیکھ کر کیا جائے گا۔اصل سوال یوں ہونا چاہیے کہ بغیر سکارف کے گھومنا جرم ہے یا نہیں؟ اگر حکومت اسلامی ہے تو اس کا فیصلہ حکومت کرے گی، اگر غیر اسلامی حکومت ہے تو معاشرے کےحالات دیکھتے ہوئے، لوگ خود بھی اندازہ کر سکتےہیں کہ سکارف نہ لینے سے معاشرے میں فحاشی میں اضافہ ہوتا ہے یا نہیں، اگر ہوتا ہے تو اس حوالے سے سکارف نہ لینے والیوں کو صرف نصیحت کی جا سکتی ہے اور بس۔ فحاشی کی سزا؟ جن لوگوں کے پاس اقتدار ہو گا وہ جیسے چاہیں فحاشی سے منع کریں، چاہیں تو کوئی قانون بنا لیں۔ فرانس اور بہت سے مغربی ممالک نے پردے کے خلاف قانون بنا لیے ہیں، ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں، اللہ کے لوگوں کو جب اقتدار ملے گا تو اُن کی مرضی ہے کہ سکارف پہننا ضروری قرار دیں یا نہیں، جیسے معاشرے کے حالات ویسے ہی معاشرتی قوانین۔اللہ سے محبت کرنے والے زنا کی جو سزا ہے وہ دیں گے اور فواحش سے روکنے کے لیے جو مناسب ہو اقدامات کریں گے۔ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ فواحش کا تعلق صرف سکارف پہننے یا نہ پہننے سے نہیں۔ فواحش کی حد میں تو سر تا پا پردے میں لپٹی ہوئی یا داڑھی رکھے ہوئے بندے بھی اپنے اعمال کی وجہ سے آ جائیں گے۔اس کی سزا پر عمل درآمد کے لیے چار گواہ ضروری ہیں ۔ فواحش کی سزا قرآن مجید میں اس طرح سے ہے۔ وَاللَّاتِي يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ مِن نِّسَائِكُمْ فَاسْتَشْهِدُوا عَلَيْهِنَّ أَرْبَعَةً مِّنكُمْ ۖ فَإِن شَهِدُوا فَأَمْسِكُوهُنَّ فِي الْبُيُوتِ حَتَّىٰ يَتَوَفَّاهُنَّ الْمَوْتُ أَوْ يَجْعَلَ اللَّهُ لَهُنَّ سَبِيلًا [٤:١٥] ”تمہاری عورتوں میں سے جو بے حیائی کا کام کریں ان پر اپنے میں سے چار گواه طلب کرو، اگر وه گواہی دیں تو ان عورتوں کو گھروں میں قید رکھو، یہاں تک کہ موت ان کی عمریں پوری کردے، یا اللہ تعالیٰ ان کے لئے کوئی اور راستہ نکالے “ یعنی غیر اخلاقی حرکتوں کی سزا ساری زندگی گھروں میں قید ہو سکتی ہے۔ یعنی کوئی چہرہ ہی نہ دیکھ سکے۔
سوال: کیا سکارف نہ پہننے والی عورتیں فحاشی کی مرتکب ہوتی ہیں؟قرآن میں سکارف کا ذکر کہاں کیا گیا ہے؟ جواب: سکارف نہ پہنے والی عورتیں قرآن کی درج ذیل آیت کے مطابق حکم خداوندی کی خلاف ورزی کی مرتکب ہوتیں ہے۔ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا [٣٣:٥٩] ”اے نبیؐ، اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے “ لَّئِن لَّمْ يَنتَهِ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ وَالْمُرْجِفُونَ فِي الْمَدِينَةِ لَنُغْرِيَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ لَا يُجَاوِرُونَكَ فِيهَا إِلَّا قَلِيلًا [٣٣:٦٠] ”اگر منافقین، اور وہ لوگ جن کے دلوں میں خرابی ہے، اور وہ جو مدینہ میں ہیجان انگیز افواہیں پھیلانے والے ہیں، اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو ہم ان کے خلاف کاروائی کرنے کے لیے تمہیں اُٹھا کھڑا کریں گے، پھر وہ اس شہر میں مشکل ہی سے تمہارے ساتھ رہ سکیں گے “ مَّلْعُونِينَ ۖ أَيْنَمَا ثُقِفُوا أُخِذُوا وَقُتِّلُوا تَقْتِيلًا [٣٣:٦١] ”ان پر ہر طرف سے لعنت کی بوچھاڑ ہو گی، جہاں کہیں پائے جائیں گے پکڑے جائیں گے اور بُری طرح مارے جائیں گے ۔“ سورۃ احزاب آیت 59 میں ہی سکارف کا ذکر ہے۔ سوال: فحاشی (vulgarity)کا تعلق ظاہری لباس سے نہیں۔ اس کا تعلق دل سے ہے۔اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو دیکھتا ہے نہ کہ ظاہری لباس کو۔ اگر فحاشی کا تعلق لباس سے ہے تو کیا برصغیر کی عورتیں جو صدیوں سے ساڑھی پہنتی ہیں جس میں پیٹ نظر آتا ہے ، تو کیا وہ فحاشائیں ہیں؟ جواب: فحاشی یا vulgarity کا تعلق دل سے ہی نہیں بلکہ اس میں ظاہری لباس، غیر اخلاقی حرکات اور بھی بہت کچھ شامل ہیں۔ اگر اس کا تعلق صرف دل سے ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس کے مرتکب کے لیے چار گواہوں کا ہونا شرط کیوں رکھتے۔چار گواہوں کا ہونا یہ بیان کر رہا ہے کہ یہ ایسا فعل ہے جس کے لیے چار گواہ ملنا ممکن ہیں۔ اگر اس کا تعلق ”صرف“ دل سے ہے تو دل کے بھید اور غیب کا علم تو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے، پھر سزا کس بات کی؟ پھر تو فحاشی پر دنیاوی سزا کا تو تعلق ہی ختم ہو جاتا ہے۔ ۔ جہاں تک بات ہے ساڑھی کی تو اسلام نے کسی بھی لباس کا نام لے کر اسے جائز اور ناجائز نہیں کہا۔ اسلام نے لباس کی خصوصیات بتا دی ہے۔ ان کے مطابق جو بھی لباس ہو گا وہ جائز ہو گا چاہے اس کا جو بھی نام ہو، قسم ہو۔ چاہے شلوار قمیض ہو یا ساڑھی یا کسی اور تہذیب یا کلچر کا لباس ہو۔ وہ خصوصیات ہیں شرم کے حصوں کو چھپانے والا اور باعث زینت۔جو ساڑھی آپ کے شرم کے حصوں کو چھپائے اور باعث زینت بھی ہو اس کے پہننے میں کوئی حرج نہیں۔اب ساڑھی پہننے کے بعد اپنی زینت کس کس کے سامنے ظاہر کرنی ہے وہ بھی قرآن نے بیان کر دیا ہے۔قرآن کریم کی شریعت برصغیر پاک وہند کی عورتوں اور مردوں کے لباس کے مطابق نہیں ہو گی بلکہ برصغیر پاک و ہند کی عورتوں اور مردوں کو اپنا لباس قرآن کریم کی شریعت کے مطابق بنانا ہوگا۔
نامحرم لوگوں سے بات کرنا سوال: کیا خواتین پبلک مقامات پر کسی سے بات کر سکتی ہیں؟ جواب:قرآن کریم کی آیت مبارکہ ہے کہ يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاءِ ۚ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوفًا [٣٣:٣٢] ”نبیؐ کی عورتوں (یعنی بیویاں، بیٹیاں اور گھر کی دیگر خواتین)، تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر تم اللہ سے ڈرنے والی ہو تو دبی زبان سے بات نہ کیا کرو کہ دل کی خرابی کا مُبتلا کوئی شخص لالچ میں پڑ جائے، بلکہ صاف سیدھی بات کرو“ اس آیت میں نبی کریم ﷺ کے گھر کی خواتین کو بتایا جا رہا ہے کہ آپ لوگوں کا مقام عام مومن عورتوں کے مقابلے میں دوگنا ہے۔ لیڈر اور رہنما کا گھرانہ عام عوام کی نظروں میں ہوتا ہے، اس لیے اس بات کا حکم دیا جا رہاہے کہ تمہاری حیثیت ، دیگر کے مقابلے میں زیادہ احساس ذمہ داری کی متقاضی ہے ۔ معاشرے کے عام فرد کی غلطی اس کی اپنی ذات تک ہی محدود رہتی ہے ۔ مگر لیڈراور رہنما کی غلطی کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتا پڑتا ہے ۔اس لیے نبی ﷺ کے گھرانے کی خواتین کی ذمہ داری بھی دوگُنا ہے ۔ اسی وجہ سے کسی غلطی کی صورت میں سزا بھی دو گُنا ہے، اور اچھائی کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعام بھی دوگنا ہے۔ اس آیت سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ عام عورت تو کیا ، نبیﷺ کی گھرانے کی عورت بھی ، گھر سے باہر جا سکتی ہے ، غیر محروموں سے بات کر سکتی ہے ۔ آیت مبارکہ کا آخری جملہ ” وَقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوفًا” [٣٣:٣٢] ۔معروف اسے کہتے ہیں جو معاشرے میں اچھے معنوں میں تسلیم شدہ ہو ۔ یہ حکم خواتین کو بدتمیزی یاسختی سے بات کرنے کی ترغیب نہیں دے رہا بلکہ معروف طریقے سے بات کرنے کا کہہ رہاہے ۔یعنی فارمل انداز سے بات چیت ۔ بات کرتے ہوئے سامنے والے کو بھائی جان وغیرہ کہہ کر مخاطب کرنا، ناز نخرے یا بے جا قہقہہ وغیرہ سے اجتناب کرتے ہوئے بس ٹو دی پوانئنٹ بات کرنا۔
کیا حجاب صرف ایک تجویز ہے ؟ سوال: قرآن میں حجاب صرف ایک نصیحت ہے جس سے برے لوگوں سے بچا جا سکے۔ اس کے نہ پہننے پر سزا نہیں دی جا سکتی۔یہ صرف ایک نصیحت ہے اور بس۔ جامعہ الازہر نے فتویٰ دیا ہے کہ حجاب اسلامی لباس کا حصہ نہیں۔ جواب:جس وقت پردے سے متعلق اسلامی قانون کا نفاذ مدینہ میں ہوا اس سے پہلے مدینہ میں حجاب وغیرہ کا کوئی رواج نہ تھا۔معاشرہ اسلامی نہ تھا، اسے اسلامی بنایا جا رہا تھا۔ ایسے حالات میں عورتوں کو مردوں سے بچانے کے لیے ایک ہنگامی فیصلہ کیا گیا۔ یہ فیصلہ کرنے والی ذات اللہ تعالیٰ کی تھی۔فیصلہ یہ ہوا کہ ایمان والی اور شریف عورتیں جب گھر سے باہر جایا کریں تو ایک بیرونی چادر جسے اس وقت جلابیب کہا جاتا تھا لیا کریں(سورۃ احزاب آیت 59)۔اس کے بعد ایک اور حکم اگلی آیات میں دیا گیا ہے کہ اس کے باوجود جو لوگ عورتوں کو آوازیں لگا کر اذیت دیں انہیں علاقہ بدر سے لے کر سزائے موت دی جائے(سورۃ احزاب آیت 60 ، 61)۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے پہلے Pre Requisite بتا دی ہیں جو اُن سزاؤں پر عمل کے لیے ضروری ہیں۔ اب اگر عورتوں کو صرف نصیحت ہو اور وہ سکارف کے حکم پر عمل نہ کریں تو کیا شیطان صفت لوگوں کو سزا دینا انصاف ہو گا؟ اللہ تعالیٰ کی نصیحت اسلامی نظام میں حکم کے درجہ پر ہو گی۔ یہ انصاف نہیں کہ حکومت عورتوں کے پیچھے تو ہاتھ جوڑے اور منتیں کرتی پھرے کہ آپ سکارف لیا کریں اور شیطان صفت لوگوں کے پیچھے ڈنڈا لے کر پڑی رہے۔ہنگامی حالات میں ، پرُ فتن معاشرے میں جب مردوں کےلیے سزا مقرر کی جا سکتی ہے تو عورتوں کے لیے حکومت سے حکم عدولی کی سزا بھی ہوسکتی ہے۔جہاں تک جامعہ الازہر کے فتوے کی بات ہے تو اس بارے میں یہ عرض ہے کہ بے شک وہ سکارف کو اسلامی لباس کا حصہ نہ سمجھے، اس پر میں کوئی تبصرہ نہیں کروں گا مگر میرے مطابق اسلامی حکومت معاشرے کے حالات کو دیکھتے ہوئے سکارف لینے کی پابندی لگا سکتی ہے، اور عوام کو اس کی پابندی کرنی ہو گی جیسا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت ہے کہ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا [٤:٥٩] ”اے ایمان والو الله کی فرمانبرداری کرو اور رسول کی فرمانبرداری کرو اور ان لوگوں کی جو تم میں سے حاکم ہوں پھر اگر آپس میں کوئی چیز میں جھگڑا کرو تو اسے الله اور اس کے رسول کی طرف پھیرو اگر تم الله اور قیامت کے دن پر یقین رکھتے ہو یہی بات اچھی ہے اور انجام کے لحاظ سے بہت بہتر ہے “ تو اس آیت کے مطابق اگر حاکم ہنگامی حالات کے تحت یا فتنہ کو روکنے کے لیے سکارف یا پردے کی پابندی کو لازم قرار دیتا ہے تو اس کا ماننا فرض ہے۔
پردے کا حکم دائمی یا وقتی؟ سوال: پردے کا حکم ایک عارضی حکم تھا، مدینہ کے یہودی مسلمانوں کے خلاف سازش کرتے تھے، اُن سے بچنے کے لیے عارضی طور پر دیا گیا تھا۔کیا بعد کے زمانوں کا اس حکم سے کوئی تعلق نہیں؟ جواب: میرے نزدیک یہ بہت بڑی غلطی فہمی ہے کہ پردے کا حکم ایک عارضی حکم تھا۔قرآن کریم کے کچھ احکامات ایسے تھے جو مخصوص لوگوں کے لیے تھے، جیسے نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد کوئی ازواج مطہرات سے شادی نہ کرے، اس حکم کا تعلق آخری ام المومنین کی وفات کے بعد ختم ہو گیا۔ اسی طرح قرآن کریم کے بعض احکامات ایسے ہیں جو وقت کے تقاضوں کے مطابق چلتے ہیں، جیسے جنگ کے لیے تیاری کرو گھوڑوں سے۔ یہاں گھوڑوں سے مراد اسلحہ اور ذرائع جنگ ہیں نہ کہ جنس گھوڑا۔ آج کے دور میں ہم ٹینک ، گولہ بارود سے جنگی تیاری کر کے اس حکم کی پیروی کر رہے ہیں۔ قرآن کریم کی ہر آیت کے نزول کا کچھ نہ کچھ دنیاوی پس منظر ضرور ہے۔ ایسا صرف اس لیے ہے تاکہ لوگوں کو احکامات یاد ہو جائے، اُن کو پتہ چل جائے کہ اس کا نفاذ کس طرح ہو گا۔ جیسے ایک آیت ہے قَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّتِي تُجَادِلُكَ فِي زَوْجِهَا وَتَشْتَكِي إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ يَسْمَعُ تَحَاوُرَكُمَا ۚ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ [٥٨:١] ”یقیناً اللہ تعالیٰ نے اس عورت کی بات سنی جو تجھ سے اپنے شوہر کے بارے میں تکرار کر رہی تھی اور اللہ کے آگے شکایت کر رہی تھی، اللہ تعالیٰ تم دونوں کے سوال وجواب سن رہا تھا، بیشک اللہ تعالیٰ سننے دیکھنے والا ہے“
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس حکم کا پس منظر یا شان نزول بیان کیا ہے جو اس سے اگلی آیت میں درج ہے۔ اس حکم کے بارے میں ہم یوں نہیں کہہ سکتے کہ اگر کوئی عورت اس طرح کی بات پر اعتراض کرے تو ہی نافذ ہو گا۔ یا وہ حکم وقتی حکم تھا کہ قرآن کے مطابق کوئی عورت نبی کریم ﷺ کے پاس گئی، اعتراض کیا اور پھر نبی کریم ﷺ نے حکم صادر فرمایا۔ اب نبی کریم ﷺ تو ہیں نہیں لہٰذا یہ حکم کالعدم ہوا۔ ایسی بات بالکل نہیں۔ یہ حکم بھی تاقیامت لاگو رہے گا۔ اسی طرح پردے کے حوالے سے حکم ہے۔ اس کا پس منظر بے شک یہود کی سازشیں تھیں مگر اس کا اطلاق تا قیامت رہے گا۔ اگر موجودہ دور کے حالات دیکھے جائیں تو یہ بھی اسی طرح کے حالات ہیں جیسے نبی کریم ﷺ کے دور میں اس حکم کے نزول کے وقت تھے، آج بھی یہودی میڈیا اور اس کے حامی میڈیا کی کوشش ہے کہ مسلمانوں میں فحاشی پھیلے تو اس پس منظر میں بھی پردے کے حکم کا اطلاق ضروری ہے۔
قرآن کریم کی ایک اور آیت مبارکہ دیکھیں يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاءِ ۚ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوفًا [٣٣:٣٢] ”نبیؐ کی عورتوں (یعنی بیویاں، بیٹیاں اور گھر کی دیگر خواتین)، تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر تم اللہ سے ڈرنے والی ہو تو دبی زبان سے بات نہ کیا کرو کہ دل کی خرابی کا مُبتلا کوئی شخص لالچ میں پڑ جائے، بلکہ صاف سیدھی بات کرو“ اگر وقتی حکم کا فتویٰ لگانا ہے تو اس آیت پر بھی لگا دیں جس کی مخاطب صرف نبی کریم ﷺ سے متعلق عورتیں ہیں، اب وہ سب وفات پا چکی ہیں اس لیے شاید آپ آج یہ سوال کر دیں کہ آج کے دور میں خواتین نرم لہجے میں بھی بات کر سکتی ہیں۔ اس طرح تو قرآن کریم کی اکثر محکم آیات وقتی قرار پا جائیں گی۔ مولانا امین احسن اصلاحی پردے کی اس آیت کے حوالے سے اپنی تفسیر تدبر القرآن میں فرماتے ہیں کہ: ”اس ٹکڑے}ذَٰلِكَ أَدْنَىٰٓ أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ{سے کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ یہ ایک وقتی تدبیر تھی جو اَشرار کے شر سے مسلمان خواتین کومحفوظ رکھنے کے لئے اختیار کی گئی اور اب اس کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ اوّل تو احکام جتنے بھی نازل ہوئے ہیں ، سب محرکات کے تحت ہی نازل ہوئے ہیں لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ محرکات نہ ہوں تو وہ احکام کالعدم ہوجائیں ۔ دوسرے یہ کہ جن حالات میں یہ حکم دیا گیا تھا، کیا کوئی ذی ہوش یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ اس زمانے میں حالات کل کی نسبت ہزار درجہ زیادہ خراب ہیں ،البتہ حیا اور عفت کے وہ تصورات معدوم ہوگئے جن کی تعلیم قرآن نے دی تھی۔“
پینٹ شرٹ اور عیسائیت سے مشابہت سوال: کیا پینٹ شرٹ پہننا جائز ہے؟ ایک حدیث ہے کہ جس نے کسی قوم سے مشابہت کی وہ اُن میں سے ہو گا۔ پینٹ شرٹ پہن کر کیا ہم عیسائیت سے مشابہت اختیار نہیں کر رہے؟ جواب: پینٹ شرٹ صرف ایک لباس ہے، استعمال کی چیز ہے اور بس۔یہ بذات خود نہ ہندو ہے نہ مسلمان اور نہ عیسائی۔بات صرف اتنی سی ہے کہ اسلام نے اس لباس کے پہننے کی اجازت دی ہے جس میں دو خصوصیات ہوں، ایک یہ کہ وہ ستر کو چھپائے اور دوسرا وہ باعث زینت بھی ہو۔اب اگر کوئی اتنی چست پینٹ اور شرٹ پہنے کہ شرم کے حصوں کو ظاہر کے تو اس کی اجازت اسلام میں نہیں، ہاں بیگی طرز کی کھلی ڈلی پینٹ پہنی جا سکتی ہیں۔ اب جہاں تک عیسائیت سے مشابہت کی بات ہے تو یہ مشابہت اعمال میں ہے نہ کہ لباس میں۔اسلام صرف عرب کا دین نہیں، یہ ساری دنیا کے لیے آیا ہے۔ پوری دنیا میں طرح طرح کے خطے ہیں، ہر خطے کی لباس کے حوالے سے اپنی ضروریات ہیں۔ مثال کے طور پر شلوار قمیض ہندوستان کا لباس ہے، یہاں کا علاقائی لباس ہے، اس کا عرب سے کوئی تعلق نہیں۔ سیاچن میں فرائض سرانجام دینے والے فوجی ایک مخصوص طرز کا لباس پہنے ہیں جو مشابہت میں کسی طرح عرب سے نہیں ملتا۔ اگر لباس میں مشابہت کی وجہ سے کوئی مسلمان نہ ہو سکے تو اس سے بڑی بد بختی کی کیا بات ہو گی۔ اسلام اگر انٹارکٹکا کی مشرک قوم کے پاس پہنچے تو کیا لباس کے معاملے میں وہ صرف اس وجہ سے وہاں کا اپنا آبائی لباس پہننا چھوڑ دیں کہ مشرک قوم سے مشابہت ہو جائے گی۔ اس کو اسلام لانے کا کیا فائدہ ہو گا؟ وہ دو سرے دن ہی سردی سے مر جائےگا۔سیاچن کے محاذ پر کیا کوئی فوجی جا سکے گا؟ اگر سعودی لباس پہن کر جائے گا تو سردی سے اس کی تو قلفی جم جائے گی ۔اللہ تعالیٰ نے تو ہمارے لیے لباس نازل کیا ہے جو ہمیں موسموں سے بچاتا ہے۔ وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُم مِّن بُيُوتِكُمْ سَكَنًا وَجَعَلَ لَكُم مِّن جُلُودِ الْأَنْعَامِ بُيُوتًا تَسْتَخِفُّونَهَا يَوْمَ ظَعْنِكُمْ وَيَوْمَ إِقَامَتِكُمْ ۙ وَمِنْ أَصْوَافِهَا وَأَوْبَارِهَا وَأَشْعَارِهَا أَثَاثًا وَمَتَاعًا إِلَىٰ حِينٍ [١٦:٨٠] ”اللہ نے تمہارے لیے تمہارے گھروں کو جائے سکون بنایا اس نے جانوروں کی کھالوں سے تمہارے لیے ایسے مکان پیدا کیے جنہیں تم سفر اور قیام، دونوں حالتوں میں ہلکا پاتے ہو اُس نے جانوروں کے صوف اور اون اور بالوں سے تمہارے لیے پہننے اور برتنے کی بہت سی چیزیں پیدا کر دیں جو زندگی کی مدت مقررہ تک تمہارے کام آتی ہیں“ وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُم مِّمَّا خَلَقَ ظِلَالًا وَجَعَلَ لَكُم مِّنَ الْجِبَالِ أَكْنَانًا وَجَعَلَ لَكُمْ سَرَابِيلَ تَقِيكُمُ الْحَرَّ وَسَرَابِيلَ تَقِيكُم بَأْسَكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ يُتِمُّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تُسْلِمُونَ [١٦:٨١] ”اس نے اپنی پیدا کی ہوئی بہت سی چیزوں سے تمہارے لیے سائے کا انتظام کیا، پہاڑوں میں تمہارے لیے پناہ گاہیں بنائیں، اور تمہیں ایسی پوشاکیں بخشیں جو تمہیں گرمی سے بچاتی ہیں اور کچھ دوسری پوشاکیں جو آپس کی جنگ میں تمہاری حفاظت کرتی ہیں اس طرح وہ تم پر اپنی نعمتوں کی تکمیل کرتا ہے شاید کہ تم فرماں بردار بنو“ اسلام میں برتری تقویٰ کی بنیاد پر ہے ، نہ کہ مخصوص قوم کے لباس کی۔ اور ہم ظاہری لباس سے برتری ظاہر کرنے لگے۔شلوار قمیض ہندوستان کا علاقائی لباس ہے۔ پینٹ شرٹ یورپ کا لباس ہے۔ ٹائی چینوں کی ایجاد ہے کہ شرٹ کا سب سے اوپری بٹن کو بند کیے بغیر ٹائی کی مددسے گریبان بند کرنا۔ ان لباسوں کا کسی مذہب سےکوئی تعلق نہیں۔یہ الگ بات ہے کہ ہم لوگ ایک خاص پہچان بنانے کے چکر میں اسلام سے زیادہ کسی مخصوص فرقے کی یونیفارم بنانے کے چکر میں لگے ہوئے ہیں کہ فلاں رنگ کی پگڑی ہو اور اس طرح کا کرتا اور پاجامہ۔