اللہ (کتاب)/معراج کی حقیقت
معراج کے بارے میں قرآن پاک میں دو جگہ سورۃ بنی اسرائیل اور سورۃ النجم میں ذکر آیا ہے۔ ترجمہ از شاہ رفیع الدین محدث دہلوی ”پاکی ہے اس شخص کوکہ لے گیابندے اپنے کورات کو مسجد حرام سے طرف مسجداقصیٰ کی وہ جو برکت دی ہم نے گرد اس کے کو تو کہ دکھلا ویں ہم اس کو نشانیوں اپنی سے تحقیق وہ ہے سننے والا دیکھنے والا“ (سورۃ بنی اسرائیل / 17 : 1) ” قسم ہے تارے کی جب گرے۔1۔نہیں بہک گیا یا ر تمہارا اور نہ راہ سے پھر گیا ۔2۔اور نہیں بولتا خواہش اپنی سے۔3۔ نہیں وہ مگر وحی کہ بھیجی جاتی ہے۔4۔سکھایا اس کوسخت قوتوں والے نے ۔5۔صاحب قوت ہے پس پورا نظر آیا ۔6۔ اور وہ بیچ کنارے بلندکے تھا ۔7۔پھر نزدیک ہوا پس اُتر آیا ۔8۔ پس تھا قد ردو کمان کے یازیادہ نزدیک ۔9۔پس وحی پہنچائی ہم نے طرف بندے اپنے کے جو پہنچائی ۔ 10۔نہیں جھوٹ بولا دل نے جو کچھ دیکھا۔ 11۔کیا پس جھگڑتے ہو تم اس سے اُوپر اس چیز کے کہ دیکھا ہے ۔ 12۔اور البتہ تحقیق دیکھا ہے اس نے اس کو ایک بار اور ۔13۔نزدیک سدرۃ المنتہیٰ کے۔14۔ نزدیک اس کے ہے جنت الماویٰ ۔15۔جس وقت کہ ڈھانکا تھا بیری کو جو کچھ ڈھانک رہا تھا ۔16۔ نہیں کجی کی نظر نے اور نہ زیادہ بڑھ گئی ۔ 17۔تحقیق دیکھا اس نے نشانیوں پروردگار اپنے کی سے بڑی کو ۔18“ (سورۃ النجم / 53 : 1تا 18) سورۃ بنی اسرائیل کی آیت نمبر1 میں ذکر کیا گیا ہے کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کی طرف لے جایا گیا۔ راستے میں کیا کیا ہوا اور پھر مسجد اقصیٰ سے آسمان پر لے جایا گیا اس بارے میں پڑھنے والوں کو بہت مواد اور تفصیل مل جاتی ہے۔یہ بندہ صرف سورۃ النجم کی آیت نمبر1تا 18 کی تشریح اورتفسیر لکھنا چاہتا ہے۔ ان آیات کی تشریح اور تفسیر لکھنے سے پہلے یہ بھی بہت ضروری سمجھتاہے کہ ان آیات کا ترجمہ از شاہ عبدالقادر شاہ صاحب محدث دہلوی بھی ضرور لکھا جائے۔لہٰذا پیش خدمت ہے۔ ”قسم ہے تارے کی جب گرے۔1۔ بہکا نہیں تمہارا رفیق، اور بے راہ نہیں چلا ۔2۔ اور نہیں بولتا اپنی چاؤ سے۔3۔یہ تو حکم ہے جوپہنچتا ہے۔4۔ اس کوسکھایا سخت قوتوں والے نے۔5۔ زور آور نے پھرسیدھا بیٹھا (سیدھا کھڑا ہو گیاتھا)۔ 6۔ اور وہ تھااونچے کنارے آسمان کے۔ 7۔ پھر نزدیک ہوا اور لٹک آیا۔8۔پھر رہ گیا فرق دوکمان کامیانہ یا اس سے بھی نزدیک ۔ 9۔ پھر حکم بھیجا اللہ نے اپنے بندے پر جو بھیجا۔ 10۔جھوٹ نہ دیکھا دل نے جودیکھا۔11۔اب تم کیا اس سے جھگڑتے ہو اس پر جو اس نے دیکھا؟۔ 12۔اور اس کو اس نے دیکھا ہے ایک دوسرے اتارے میں۔13۔پرلی حد کی بیری پاس۔14۔ اس پاس ہے بہشت رہنے کی۔ 15۔جب چھا رہا تھا اس بیری پر جو کچھ چھا رہا تھا۔16۔بہکی نہیں نگاہ اور حد سے نہیں بڑھی۔ 17۔ بے شک دیکھے اپنے رب کے بڑے نمونے۔ 18“ (سورۃ النجم / 53 : 1تا 18)
تشریح ”قسم ہے تارے کی جب گرے۔1“ اللہ تعالیٰ نے ستارے کی قسم کھائی ۔کونسے ستارے کی قسم کھائی یا کسی چیز کو ستارہ کہہ کر قسم کھائی؟ کچھ پتہ نہیں چلتا ۔اللہ کے راز اللہ جانے لیکن یہ صاف معلوم ہوتاہے کہ قسم کھا کر جو بات کی جارہی ہے وہ بات خاص اور وزن والی ہے۔ ایک سمجھنے والے نے ستارے سے مراد قرآن پاک لیامگر مجھے تو قرآن پاک کی تمام آیات ہی ستارے نظر آتے ہیں بلکہ ایک ایک آیت میں بھی کئی کئی ستارے موجود ہیں۔ ”نہیں بہک گیا یا ر تمہارا اور نہ راہ سے پھر گیا ۔2۔اور نہیں بولتا خواہش اپنی سے۔3۔نہیں وہ مگر وحی کہ بھیجی جاتی ہے۔4۔سکھایا اس کوسخت قوتوں والے نے۔5“ قرآن پاک کی آیات کا ترجمہ خود ہی مفہوم تشریح اور تفسیر ہوتا ہے کہ اس کی تشریح یا تفسیر کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ان آیات میں صاف بتلایا جا رہا ہے کہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وحی معراج سے متعلق جو بھی باتیں کر رہے ہیں یا کیں یہ بہکی ہوئی باتیں نہیں حقیقت پر مبنی ہیں۔ اس سخت قوتوں والے سے مرادحضرت جبرائیل امین علیہ السلام ہے۔ ”صاحب قوت ہے پس پورا نظر آیا۔6۔ اور وہ بیچ کنارے بلندکہ تھا۔7۔پھر نزدیک ہوا پس اُتر آیا۔8۔ پس تھا قد ردو کمان کے یازیادہ نزدیک ۔9۔پس وحی پہنچائی ہم نے طرف بندے اپنے کے جو پہنچائی۔ 10۔نہیں جھوٹ بولا دل نے جو کچھ دیکھا۔ 11“ صاحب قو ت ہے حضرت جبرائیل علیہ السلام ۔پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام کے صاحب قوت ہونے کا مظاہرہ دیکھلا یا گیایوں کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کا وجود پورا نظر آیا یعنی اتنا بڑا ہوتا چلا گیاکہ جس سے پورا آسمان حضرت جبرائیل علیہ السلام کے وجود سے بھر گیااور حضرت جبرائیل علیہ السلام بلندی میں اس کنارے تک پہنچ گئے کہ جہاں سے اللہ تعالیٰ سے وحی حاصل کرتے تھے۔ وحی حاصل کرنے کے بعد پھر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک ہونا شروع ہوئے اور واپس ہوتے ہوئے اتر آئے۔ شاہ عبدالقادر شاہ صاحب کے ترجمہ کے مطابق لٹک آئے۔ دونوں ہی ترجمے بہت بہترین لکھے ہوئے ہیں۔ ”پس تھا قد ردو کمان کے یازیادہ نزدیک ۔9“ اس آیت سے متعلق اللہ تعالیٰ نے اس بندہ کو ایک خاص سمجھ عطا فرمائی ہے کہ جو آج تک کسی کو بھی نہ آئی۔ اس آیت سے علماء آج تک جو مطلب لیتے رہے وہ یوں کہ پھر یوں ہوا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کا اور حضور پاک حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا آپس میں پاؤں سے پاؤں کا فاصلہ دو کمان یا اس سے بھی کم رہ گیا ۔یہ مفہوم غلط ہے۔ عالم دنیا میں بھی حضرت جبرائیل علیہ السلام بہت دفعہ وحی لے کر آئے اور کئی بار ایسا ہوا ہو گاکہ حضرت جبرائیل علیہ السلام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا آپس میں زمین سے زمین تک کا فاصلہ دو کمان یاا س سے بھی کم ہو گالیکن قرآن پاک کی معراج والی آیات میں یہ فرمایا کہ ”پس تھا قد ردو کمان کے یازیادہ نزدیک“ اس کا اصل مفہوم یہ کہ پہلے حضرت جبرائیل علیہ السلام وحی حاصل کرنے کے لیے اتنے بڑے وجود کے بن گئے کہ ان کے وجود سے آسمان بھر گیا پھر وحی حاصل کرنے کے بعد حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف اترنا شروع ہو ئے اور لٹک آئے اور اپنا اتنا وجود بنا لیا کہ انکا قد زمین پاؤں سے بلندی کی طرف دو کمان یا اس سے بھی کم رہ گیا مطلب وہ انسانی قد کاٹھ میں آ گئے اور انسانی قد کاٹھ میں آنے کے بعد حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وحی پہنچائی۔ یہ لکھا جانا کہ ”پس تھا قد ردو کمان کے“اس سے مراد زمین سے بلندی کی طرف کا فاصلہ ہے نہ کہ زمین سے زمین کی طرف کا فاصلہ۔ یہ مفہوم جو کہ اس بندہ نے لکھا ہے یہ بندہ انتہائی یقین اور دعوے سے کہتا ہے کہ یہ اس آیت کا مفہوم صحیح اور سچ لکھا ہے جو کہ آج تک کسی نے نہیں لکھا۔ قریب المرگ لوگوں میں سے کچھ لوگوں نے فرشتوں کو اس طرح سے دیکھا ہے کہ ان کے قد آسمان کے برابر تھے اور پھر اتنے چھوٹے ہوئے کہ ایک بالشت یا ایک فٹ کے بن گئے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ معراج میں حضرت جبرائیل امین علیہ السلام نے یہ عمل صرف ایک بار کیا یا کئی بار؟ جیسے کہ مشہور ہے کہ پچاس نمازیں فرض ہوئیں اور کم ہوتے ہوئیں پانچ رہ گئیں۔ اس کامطلب ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے یہ بار بار کیا یعنی حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام اللہ تعالیٰ تک پہنچایا اور اللہ تعالیٰ کی وحی حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچائی۔ ان آیات سے یہ کہنا بھی غلط ہو جاتا ہے کہ معراج پر حضرت جبرائیل علیہ السلام کے پر جلنے لگے اور وہ آگے نہ جا سکے اور حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آگے چلے گئے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ تمام باتیں اور وحی جبرائیل امین علیہ السلام کے ذریعے سے ہوئیں۔ ”کیا پس جھگڑتے ہو تم اس سے اُوپر اس چیز کے کہ دیکھا ہے۔ 12“ معراج کے بارے میں کفاریہ جھگڑا کرتے تھے کہ یہ بہکی ہوئی باتیں ہیں اور جھوٹ باتیں ہیں ایسا ہو نہیں سکتا لیکن یہ بندہ مسلمانوں میں بھی اس معراج کے معاملہ میں جھگڑا سنتا ہے اور ایسے مسلمان کہ جن کے دلوں میں کجی(مرض ٹیڑھا پن)پڑ چکا ہے وہ اِن معراج والی آیات کی غلط تشریح کرنے لگ جاتے ہیں۔وہ یوں کہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معراج کی رات اللہ تعالیٰ سے براہ راست آمنے سامنے باتیں کیں اور اللہ تعالیٰ اور حضر ت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا آپس کا فاصلہ دو کمان کے برابر تھا اور یہ کہ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو اپنی ہی شکل میں دیکھا(نعوز باللہ)اور ان باتوں کو شعرو شاعری میں ڈھال رکھا ہے کہ سننے والوں پر گہرا اثر پڑے۔ اس بندے نے ان باتوں کا لوگوں پر گہرا اثر پڑتے ہوئے دیکھاہے ۔ ”پس وحی پہنچائی ہم نے طرف بندے اپنے کے جو پہنچائی“ (سورۃ النجم / 53 : 10) ترجمہ از شاہ رفیع الدین محدث دہلوی۔ ”پھر حکم بھیجا اللہ نے اپنے بندے پر جو بھیجا“(سورۃ النجم / 53 : 10) ترجمہ از شاہ عبدالقادر شاہ صاحب
لفظ ’’پہنچائی یا بھیجا‘‘واضح ثبوت ہے کہ کسی کے ذریعے پہنچائی یا بھیجی اور ذریعہ حضرت جبرائیل علیہ السلام تھے۔ بھیجی بمطابق قرآن پاک کے
”نہیں پاتیں اس کو نظریں اور وہ پاتا ہے سب نظروں کو“ (سورۃ الانعام / 6 : 103) قرآن پاک کی یہ آیت واضح ثبوت فراہم کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو کسی کی نظریں نہیں دیکھ سکتی۔ یہی سوال ایک دفعہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کیا گیا کہ کیا حضو ر پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معراج میں اللہ تعالیٰ کو دیکھا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے قرآن پاک کی یہی آیت پڑھی اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو کوئی نہیں دیکھ سکتا۔ اللہ تعالیٰ کی ذات تو بہت بڑی ذات ہے۔ بھلا اس ذات کو دو کمان کے فاصلے سے کیسے دیکھا جا سکتا ہے؟ اگر کوئی پہاڑ کو بھی دو کمان کے فاصلے سے دیکھے تو پہاڑ کا ذرا سا حصہ دیکھا جا سکے گا اور کسی کو ہاتھی ایک انچ کے فاصلے سے دیکھا یا جائے تو اسے کالے رنگ کی ایک دیوار کے سوا کچھ نظر نہیں آئے گا۔ یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ کو اپنی شکل میں دیکھا اس کی حقیقت یہ ہے کہ ساتویں آسمان پر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے پنے جد امجد حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا کہ جن کی شکل صورت بالکل حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسی تھی۔ آپ جناب حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضر ت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا نتیجہ ہیں تو اللہ تعالیٰ نے آپ جناب حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شکل میں پیدا کیا۔ ”اور البتہ تحقیق دیکھا ہے اس نے اس کو ایک بار اور۔13۔نزدیک سدرۃ المنتہیٰ کے 14۔ نزدیک اس کے ہے جنت الماویٰ۔15“
مفہوم ان آیات کا یہ ہے کہ دیکھا ہے اس نے اسکو ایک بار جیسا کہ دیکھا ہے۔ نزدیک سدرۃ المنتہیٰ کے جو جنت(بہشت)کے قریب ہے۔اللہ تعالیٰ کا ایک انداز بیاں ہے کہ درمیان میں کہیں ایک لفظ اور کہیں پورے فقرے چھوڑ دددیئے جاتے ہیں۔ اس بندہ نے اس بارے میں ”قرآن پاک کاسمجھنا “کے عنوان سے ایک تحریر لکھی ہے جس میں اس بات کا ثبوت فراہم کیا گیا ہے ۔
معراج کے موقع کی آیات میں کہا جا رہا ہے کہ دیکھا ہے اس کو ایک بار اور اس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ وہ دیکھنا معراج سے پہلے کا ہے۔ وہ کون سا موقع ہے؟ اس بارے میں دیکھتے ہیں۔جب حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سب سے پہلے وحی اتری ”اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّک“تو اس وقت پہلی وحی کے موقع پر حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضر ت جبرائیل علیہ السلام کو پہلی دفعہ دیکھا کہ حضرت جبرائیل امین علیہ السلام کے دجود سے پورا آسمان بھرا ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت غار حرا میں تھے۔ آ پ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خوف زدہ ہو کر گھر کی طرف بھاگے اور گھر جا کر حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو بتایا کہ میں نے ایسا دیکھاکہ ایک شخص کے وجودسے آسمان بھرا ہوا تھا اور اس مجھ سے یوں کہا”اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّک“ سورۃ العلق کی پہلی پانچ آیات بتلائی اور فرمایا کہ شاید میں اب جلد فوت ہو جاؤں او ر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بخار ہو گیا۔ حضر ت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تسلی وغیرہ دی اور پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کوا پنے پھوپھی زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو توریت اور انجیل کا عالم تھا ۔تمام واقعہ اور وحی کے الفاظ بتائے تو ورقہ بن نوفل نے بتایا کہ یہ تو فرشتہ تھا اور یہ کہ آپ جناب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبوت کے لیے چن لیے گئے ہیں اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مخالف ہونگے اور ہجرت بھی کرنی پڑے گی اور جہاد کا حکم بھی ہو گا۔کاش کہ میں اس وقت تک زندہ رہوں۔ ورقہ بن نوفل اس وقت بوڑھا ضیعف تھا۔ اس لیے ورقہ بن فوفل کو پہلا مسلمان کہا جا سکتاہے کہ اس نے سب سے پہلے نبوت کی تصدیق کی کہ جس وقت آپ جناب حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی علم نہیں تھاکہ میں نبی ہوں۔ سدرۃ المنتیٰ وہ حد ہے جہاں تک حضر ت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لے جایا گیاکہ جس کے قریب جنت ہے۔ ”جس وقت کہ ڈھانکا تھا بیری کو جو کچھ ڈھانک رہا تھا۔16۔ نہیں کجی کی نظر نے اور نہ زیادہ بڑھ گئی۔ 17۔تحقیق دیکھا اس نے نشانیوں پروردگار اپنے کی سے بڑی کو ۔18“ اللہ تعالیٰ کو نہ دیکھ سکنے کے بارے میں مزید دلائل:۔ ”توریت:خُروج:باب 33 : 20۔اور یہ بھی کہاتُو میرا چہرہ نہیں دیکھ سکتا کیونکہ انسان مجھے دیکھ کر زندہ نہ رہے گا“ اور حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انسان تھے۔ ”انجیل مقدس:یُوحنا:باب 1 : 18۔خدا کو کسی نے کبھی نہیں دیکھا“ فرشتوں نے بھی۔ القرآن ”اور جب آیا موسیٰ واسطے وعدے ہمارے کے اور کلام کیا اس سے رب اس کے نے کہا اے رب میرے دکھلا دے تو مجھ کو دیکھوں میں طرف تیر ی کہا اللہ نے ہر گز نہ دیکھ سکے گا تومجھ کو“ (سورۃ الاعراف / 7 : 143) تفسیر ابنِ کثیر سورۃ النجم سے اقتباس:۔ ”ایک مرتبہ حضرت مسروق رضی اللہ عنہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے اور پوچھا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟ آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا تُونے ایسی بات کہہ دی کہ جس سے میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے ۔ میں نے کہا مائی صاحبہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کی بڑی نشانیاں دیکھیں ۔ آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہاں جا رہے ہوـ؟ سنو! اس سے مراد جبرائیل علیہ السلام کا دیکھنا ہے‘‘
سوال: جب حضور اکرم حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معراج پر آسمانوں کا سفر کیاتو کیا وہ سفر اپنے بدن سمیت کیا یا وہ خواب میں کیا ؟
جواب: آپ جنا ب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معراج کا سفر خواب میں دیکھا کہ قرآن پاک میں فرمایا گیا
”اور نہیں کیا ہم نے وہ نمود یعنی خواب جو دکھلائی تجھ کو مگر آزمائش واسطے لوگوں کے“ (سورۃ بنی اسرائیل / 17 : 60) قرآن پاک کی اس آیت مبارکہ سے یہ ثابت ہو گیا کہ وہ خواب تھا لیکن یا د رہے کہ نبی کا یہ خوا ب سچا تھا۔ بدن سمیت معراج نہ ہونے کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ بدن کو زندہ رہنے کے لیے آکسیجن کی ضرورت ہے جو اوپر خلامیں نہیں ہے ۔ توجہ: قرآن پاک کی اس آیت کی طرف ”اورنہیں طاقت کسی آدمی کو کہ بات کرے اُ س سے اللہ مگر جی میں ڈالنے کر یا پیچھے پردے کے سے یا بھیجے فرشتہ پیغام لانے والا پس جی میں ڈال دیوے ساتھ حکم اسکے کے جو کچھ چاہتا ہے تحقیق وہ بلند مرتبہ حکمت والا ہے “ (سورۃ الشورا / 42 : 51) اس آیت سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ کو آمنے سامنے سے دیکھنے کی بات کوئی انسان نہیں کر سکتا۔دیکھا نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کوہ طور پر تجلی ڈالی تو 70انسان فوت ہو گئے تھے ۔ توجہ کریں قرآن کی اس آیت کی طرف فرمایا کہ ”نہیں پاتیں اس کو نظریں اور وہ پاتا ہے سب نظروں کو“ (سورۃ الانعام / 6 : 103) مطلب یہ کسی بھی انسان یا حیوان کی نظر اللہ تعالیٰ کو دیکھ نہیں سکتی لہٰذا جس کے دیکھنے کی بات کی گئی وہ جبرائیل علیہ السلام تھے ۔
معراج سابقہ دور میں بھی کسی نبی کو ہواہے کہ انجیل مقدس میں تحریر ملتی ہے کہ ”2۔ کرنتھیوں: باب 12 : 2۔میں مسیح میں ایک شخص کو جانتا ہوں۔چودہ برس ہوئے کہ وہ یکایک تیسرے آسمان تک اْٹھا لیا گیا۔ نہ مجھے یہ معلوم کہ بدن سمیت نہ یہ معلوم کہ بغیر بدن کے۔ یہ خدا کو معلوم ہے۔ 3۔ اورمیں یہ بھی جانتا ہوں کہ اْس شخص نے (بدن سمیت یا بغیر بدن کے یہ مجھے معلوم نہیں۔ خدا کو معلوم ہے۔)۔4۔ یکایک فردوس میں پہنچ کر ایسی باتیں سنِیں جو کہنے کی نہیں اور جن کا کہنا آدمِی کو روا نہیں۔ “
معراج کے بارے میں ایک بات مشہور کر دی گئی کہ پہلے پچاس نمازیں فرض تھیں اور بار بار آنے جانے میں پانچ پانچ کم ہوتی رہیں اور پانچ باقی بچیں ۔یہ واقعہ بائبل کے واقعہ سے متا ثر ہو کر بنایا گیا ہے کہ بائبل میں تحریر ہے جس کا پس منظر یوں ہے کہ جب فرشتے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئے جب گائے کا بچھڑا تل کر اُن کے سامنے رکھا اور خوشخبری دی ۔ جب اُن فرشتوں سے پوچھا کہ تمہاری اور کیا مہم ہے تو انہوں نے بتلایا کہ ہم سدوم حضرت لوط علیہ السلام کی بستی یا شہر تباہ کرنے جا رہے ہیں تو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور اُن فرشتوں میں یوں مکالمہ ہو ا ”پَیدایش:باب 18 : 28۔ شاید پچاس (50)راستباز وں میں پانچ(5) کم ہوں۔ کیا اُن پانچ کی کمی کے سبب سے تُوتمام شہر کو نیست کریگا؟ اُس نے کہا اگر مجھے وہاں پینتالیس(45) ملیں تو میں اُسے نیست نہیں کرونگا ۔29۔پھر اُس نے اُس سے کہا کہ شاید وہاں چالیس(40) ملیں تب اُس نے کہا کہ میں چالیس کی خاطر بھی یہ نہیں کرونگا۔30۔ پھر اُس نے کہا خداوند ناراض نہ ہو تو میں کچھ اور عرض کروں۔ شاید وہاں تیس(30) ملیں۔ اُس نے کہا ۔ اگر مجھے وہاں تیس بھی ملیں تو بھی ایسا نہیں کرونگا۔31۔ پھر اُس نے کہا دیکھئے ! میں نے خداوند سے بات کرنے کی جرات کی۔ شاید وہاں بیس(20) ملیں۔ اُس نے کہا میں بیس کی خاطر بھی اُسے نیست نہیں کرونگا۔32۔ تب اُس نے کہا خداوند ناراض نہ ہو تو میں ایک بار اور کچھ عرض کروں۔ شاید وہاں دس(10) ملیں۔ اُس نے کہا میں دس کی خاطر بھی اُسے نیست نہیں کرونگا۔33۔جب خداوند ابراہام سے باتیں کر چکا تو چلا گیااور ابراہیم اپنے مکان کو لوٹا ۔“
٭٭٭٭٭٭٭٭
یہ ساری اوپر بیان کی گئی باتیں یا کہانیاں بنائی گئی ہیں، یہ تو غیر مقلدین یا ہوابی عقائد ہیں، باقی امت اہل سنت والے کیا ۱۴۰۰ سال سے جھوٹ بولتے آرہے ہیں یا سنتے سناتے آرہے ہیں، تمام دیگر تصانیف اور کتب کیا سب کچھ غلط بیان کرتے رہیں اتنا عرصہ، یا روایات ہی جھوٹی ہوگئیں ان نئے مذاہب بنانے والے ہوابیوں کی وجہ سے؟؟؟