تاریخ ساز لمحوں کی بات
تاریخ سا ز لمحو ں کی با ت
ترمیمچین کے عظیم رہنما ما ئو زے تنگ نے ایک مختصر سی کہا نی لکھی تھی کہ ایک چینی مز دو ر نے اپنے مختصر سے کنبے کے لیے ایک کوٹھا بنایا۔ کو ٹھے کے مغر ب کی طر ف گھنا جنگل تھا ۔ اس لیے اُس نے کو ٹھے کا در وا زہ مشر ق کی طرف کھو لا ۔کو ٹھے کے آگے چھو ٹا سا صحن تھا ۔اب مصیبت یہ پیش آئی کہ مشر ق کی طر ف چٹا ن تھی جو دھو پ رو ک لیتی تھی۔ بیو ی نے کہا اب کیا کر و گے ،چینی مز دو ر نے کہا اس چٹان کو یہاں نہیں ہو نا چا ہیے میں اسے یہاں سے ہٹا دو نگا۔ بیو ی بچے ہنس کر چپ ہو گئے مگر وہ دُھن کا پکا تھا۔ اُس نے چٹا ن کو کھو دنا شر و ع کیا ،دن را ت میں جتنا و قت بھی ملتا بڑی مستعد ی سے پتھر توڑتاپھر اس کام میں بیو ی بچے بھی شر یک ہو نے لگے۔ مشقت ہو تی رہی اور آخر ایک دن ایسا آیا کہ اُسکے کو ٹھے کے در وا زے اور سو ر ج کے درمیان حا ئل ہو نے والی چٹان نیست و نا بو د ہو گئی ۔
یہ تو ایک کہا نی تھی لیکن گر ا ں خو ا ب افیونی چینی قو م کو آزا د ، خو د مختا ر، بیدا ر مغز اور مستحکم قو م بنا نے میں ما ئو اور اُسکے انقلابی سا تھیوں نے بھی طو یل مشقت اور جد و جہد کی اور با لا خر ما ئو نے اپنی بیان کر دہ کہا نی سچ کر دکھا ئی۔ چین کی تا ریخ پڑھنے والا ہر شخص کل اور آج کے چین کو دیکھتا ہے تو حیر ت اور استعجا ب سے تصو یر بن جا تا ہے۔ فی الو ا قع اللہ تعالیٰ نے انسان کو بے پنا ہ قوتوں سے نواز اہے ۔ اُس نے سمند ر پھا ڑے ،پہا ڑوں کے جگر چیر کر نہریں اور سٹر کیں بنائیں،چا ند پر اپنی تسخیر کے پر چم گا ڑ آیا ، فضا ئو ں اور خلا ئو ں کو فتح کیا ،فطر ت کے بے پنا ہ او ر بے اماں مو انعا ت کو اپنی را ہ میں سے ہٹا یااور آج اس قا بل ہو گیا کہ اقبا ل کے الفا ظ میں خد ائے ذو الجلا ل کے سا منے فخر سے سر بلند کر کے کہہ رہا ہے ۔خد ایا فرشتوں کو تونے اِنیِ اَ عْلَمُ ما لاَ تعْلَمُوْن کہہ کر ،تخلیق آدم کے جو معار ف سمجھا دیے تھے ،میں نے اُنکی لا ج رکھ لی ہے۔
تُو شب آفر یدی ، چراغ آفریدم
سفا ل آفر یدی ، ایا غ آفر ید م
تُو صحرا و کہسا ر و را غ آفر یدی
خیا با ن و گلز ا ر وو با غ آفر ید م
من آنم کہ از سنگ آئینہ سا ز م
من آنم کہ از زہر نو شینہ سا زم
﴿تر جمہ :۔تُو نے را ت پیدا کی اور میں نے چرا غ بنا یا ۔ تو نے مٹی بنا ئی میں نے نفیس جا م بنا لیے۔ تو نے پہا ڑ ، راہگز ار اور جنگل بنا ئے میں نے خو بصو ر ت گلز ا ر اور پھلدا ر در ختو ں کے با غ بنا لیے۔ میں وہ ہو ں کہ پتھر سے میں نے آئینے بنا لیے اور زہر سے تر یا ق تیا ر کر لیا ، انسانوں کو لا حق بے شما ر رو حا نی اور جسمانی امرا ض کا علا ج در یا فت کر لیا اور اپنے آپ کو بجا طو ر پر خلافت اِر ضی کا مستحق ثا بت کر دیا ۔ اس نے فطرت کے ہر چیلنج کو قبول کیا اورخدا کی عطا کردہ صلاحیتوں سے کامران وفیروزمند ہوا۔﴾
میں یہ سب کچھ اُن صا حبا ن ِ عِزم و ہمت کے تنا ظر میں لکھ رہا ہوں جو عو ام النا س سے با لکل الگ تھلگ اور نما یا ں ہیں۔ جنہوں نے اچا نک آکر تا ریخ کو عظیم تغیر اور انقلا ب سے دو چا ر کر دیا ۔آسمان حیر تو ں میں ڈو ب گیا اور زمین مسکرااٹھی کہ اسکے باد شا ہ ایسی معجز نما ئیا ں بھی رکھتے ہیں۔ چشم تصو روا کیجئے اور ما ضی کے سینے پر آفتا ب و ما ہتا ب کی نقر ئی اور طلائی کر نو ں سے لکھے ہو ئے ،وہ ابوا ب پڑ ھیے تو لفظ لفظ آ پ کو تحیر خیز سمند ر نظر آئے گا اور حر ف حر ف آپ کی نگا ہ کو زنجیر کر لے گاکہ آگے نہ بڑ ہو ۔میرے اندر ڈو ب جا ئو
’’ کر شمہ دامن دِل می کشد کہ اینجا است ‘‘
ایک طو فا ں خیز دریا اپنی طغیا نیوں اور رو انیوں میں سب کچھ بہا ئے لیے جا تا ہے، اچا نک ایک تنکا گر تا ہے اور دریا کی حشر سا ما نیوں سے الجھنے لگتا ہے ۔وہ اعلا ن کر تا ہے کہ در یا کے تند و تیز د ھا رے کا رُخ مو ڑ دے گا۔اُسے اپنے بہا ئو کو با لکل اُلٹ سمت میں بد لنا ہو گا اُ سے پیچھے کی طر ف چلنا ہو گا اور دنیا حیر ت سے تکنے لگتی ہے ۔
الجھ رہا ہے زما نے سے کو ئی دیو انہ
کشا کشِ خس و دریا ہے دید نی کو ثر
اور پھر تا ریخ یہ معجز ہ دیکھ لیتی ہے کہ دریا کی سا ر ی مو جیں اُس تنکے کے اشا ر وں پر اپنا رُخ بد ل لیتی ہیں ،دھا ر ے پیچھے کی طرف ، اپنی مخالف سمت میں بہنے لگتے ہیں ۔ ایک کو مل کو نپل دُو ر تک دہکتے انگا رو ں اور بھڑ کتے ہو نکتے شعلو ں کے جہنم میں کُو د جا تی ہے۔ اس حیرا ن کُن اعلا ن کے سا تھ کہ ان شعلو ں کو گلزا رِ پرُ بہا ر میں بد لنا ہو گا ۔ یہ انگا رے پُہو ل بن کر رہیں گے۔ ساعتوں کی نبضیںِ دھڑ کنا بند کر دیتی ہیں۔ لمحو ں کی سا نسیں رُک جا تی ہیں، وقت تھم جا تا ہے کہ ان منظرو ں کی ہو شر با ئی سمیٹ کر آ گے بڑ ہے گا اور پھر وہ کچھ ہو جا تا ہے جسے دما غ نا ممکنا ت میں شما ر کر رہے تھے ۔
یہ جو کچھ میں نے لکھا کوئی شا عر ی نہیں ، کو ئی افسا نہ نہیں ، دیو تا ئو ں کی مفر و ضہ وا دیوں کا قصہ نہیں، بھٹکتے خیالوں کے خلائوں کی با ت نہیں ، بد مست اور مد ہو ش آنکھوں میں لٹکا کوئی اند ھا خوا ب نہیں، یہ سب کچھ ہوُا ،اسی دھر تی پر ہوُ ا ، اسی آسما ن کے نیچے ہوُا ،یہی سو ر ج اسکا گوا ہ ہے ، یہی چا ند اسکی شہا د ت ہے، یہی ستا رے ،یہی کہکشا ں اسکے عینی شا ہد ہیں۔ از ل سے در بد ر بھٹکنے والی ہر گھر میں، ہر دشت و در میں ،ہر غا ر میں، ہر خا ر زا ر میں ، ہر با غ میں ، ہر دا غ میں جھانکنے والی اور ہر سمند ر کی مو ج مو ج سے لپٹ لپٹ جا نے والی ہو ا ،جگہ جگہ اسکی تصد یق ثبت کر تی پھر رہی ہے۔ انسان بڑا ہے، انسا ن عظیم ہے ، اسکی رفعتوں کے آگے سب کچھ پست ہے۔بلندیاں اس کے قدموں کے بوسے لیتی ہیں۔اسکی عظمتوں کو ساری کائنات سجدے کرتی ہے۔
وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰئِکَۃِ اسْجَدُ وْ لاٰ دَمَ فَسَجَدُوٓ ا
یہ اشر ف المخلو ق ہے، یہ سب کچھ ہے ،یہ معظم ہے ، محتر م ہے ، مکرّ م ہے ۔
وَ لَقَدْ کَرّ مَنَا بَنیْ اٰدَم
خدا نے اسے مکر م ٹھہرا دیا، اس لیے تما م مخلو ق کو ، تما م کا ئنا تی قو تو ں کواس کا احتر ام کر نا چا ہیے، اسکی تکر یم میں سر فگند ہ ہونا چا ہیے ۔ملا ئکہ نے اس کا سجدہ کیا، یہ مسجو دِ ملا ئک ٹھہرا۔ کا ئنا ت میں اس کا ور و د اپنی سلطنت میں سلطا ن کا و ر ود ہے ۔کائنا ت کو جشن منا نا چاہیے، ذر ے ذر ے کو استقبال کے پھول نچھا و ر کر نے چا ہئیں اور ایسا ہی ہو ا۔ ایسا ہی ہو تا رہا ،زمین اپنے دفینے کھول کر اسکے قد مو ں پر لٹا رہی ہے ،سمند ر اپنے خزا نے اگل رہا ہے ،پہا ڑ اسکی ٹھو کر و ں میں ہیں ۔یہ سب کچھ کر سکتا ہے۔ رو شنی اسکی جیب میں ہے ،تو ا نا ئیاں اسکی مٹھی میں ہیں، اسے کوئی بھی زیر نہیں کر سکتا بشر طیکہ یہ بیدا ر ہو، شعو ر آشنا ہو، خو د کو اپنے پر منکشف کر دے ، اپنے آپ کو پہچان لے ۔
تسخیر ِ کائنات ہے تسخیر ِ ذات سے
ہم لوگ آشنا نہیں اپنی صفات سے
بلا شبہ کا ئنا ت میں ایسے آدمیوں کی کمی نہیں جنہو ں نے اپنی او لوا لعز می سے ایسے ایسے کا ر نا مے کر دکھا ئے جنہیں آج بھی ہمتیں نا ممکنا ت شما ر کر تی ہیں اور جو لا نیا ں محا ل دیکھ کر مُنہ مو ڑ لیتی ہیں۔ کہہ دیا جا تا ہے یہ سب کل کی با ت ہے ،تاریخ کی کہا نی ہے ۔کیا خبر اس میں کتنی صدا قت ہے اور کتنی قلم کی رنگ آمیز ی ، کتنی سچا ئی ہے اور کتنی ،لفظو ں کی صنا عی ، کتنی مو تیوں کی اصلی چمک ہے اور کتنی جھو ٹے نگو ں کی ریز ہ کا ری ، یُوں کو شش کی جا تی ہے کہ اپنی دُو ں ہمتی کا جواز تلاش کیاجا ئے۔ اپنی پستیٔ حوصلہ اور اپنے ضعفِ عز م و عز یمت پر پر دہ ڈا ل دیا جا ئے ۔دن کو رات کہہ کر کچھو ئے کی طرح سر اپنی سنگین کھا ل میں چھپا کر سو لیا جا ئے ،مگر سو ر ج کی شعا عیں بند آنکھوں کو کھلنے پر مجبو ر کر دیں تو آدمی سو ر ج کا انکا ر کیسے کر ے ؟ آج کے رو شن پل کو گزری را ت کا تا ریک لمحہ کیسے کہا جا ئے ۔ آنے والے صفحا ت میں ایک ایسے پُر عزم اور با ہمت مر د مو من کی انتھک جد و جہد کا ذکر آرہا ہے جس نے اپنی زند گی کے ایک ایک پل سے صد یا ں کشید کی ہیں۔ ہر ہر لمحہ کو جا و دا ں کیا ہے اور جس کی جد و جہد اپنی فتح مند یوں کی تا ریخ سے سر شا ر برا بر آگے بڑھ رہی ہے، جس نے اپنے سفر میں گن گن کر قد م اٹھا ئے ہیں اور ہر ہر قد م میں سینکڑ وں میل طو یل منزلیں ما ری ہیں ۔ اُس کا سفر آج بھی جا ری ہے۔، اُس کا بڑھا پا جو ا نی سے زیا دہ جوا ن ہے اور اس سفرِ شوق میں کہیں بھی خستگی اور تھکن اسکے پائوں کی زنجیر نہ بن سکی بلکہ اُس کاہر اگلا قدم پہلے سے زیا دہ تیزی اور طو فا ں بر دو ش جولانی سے اُٹھا ہے اور وہ دعا ئیں ما نگ رہا ہے کہ سفرِ شو ق میں وہ مر حلہ نہ آئے جسے منزل کہہ کر وہ کمر کھو ل دے۔
ہر لمحہ نیا طور ، نئی برقِ تجلیٰ
اللہ کرے مرحلہ ئ شوق نہ ہو طے