تفسیر امین/سورہ 7/آیت 26
يَا بَنِي آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوْآتِكُمْ وَرِيشًا ۖ وَلِبَاسُ التَّقْوَىٰ ذَٰلِكَ خَيْرٌ ۚ ذَٰلِكَ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ [٧:٢٦] ”اے اولاد آدم، ہم نے تم پر لباس نازل کیا ہے کہ تمہارے جسم کے قابل شرم حصوں کو ڈھانکے اور تمہارے لیے جسم کی حفاظت اور زینت کا ذریعہ بھی ہو، اور بہترین لباس تقویٰ کا لباس ہے یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے، شاید کہ لوگ اس سے سبق لیں “ سب سے پہلا لباس جوحضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہ السلام نے ستر ڈھانپنے کے لیے استعمال کیا وہ پتوں کی شکل میں تھا۔اس کا پس منظر اسی درج بالا آیت کے سیاق و سباق میں ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ شیطان نے حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہ السلام کے کپڑے اتروا دئیے تھے۔ انہی آیات میں اولاد آدم کو تنبیہ کی ہے کہ شیطان اب بھی اولادِ آدم کی گھات میں ہے، وہ طرح طرح کے بہانوں سے فیشن اور جدت کے نام پر انسانوں کے کپڑے اتراوانے کی کوشش میں ہے اس لیے شیطان سے بچ کر رہا جائے، ایسا نہ ہو کہ جس طرح ماضی میں شیطان کی بات ماننے پر حضرت آدم علیہ السلام جنت سے نکلے تھے، اب اولاد آدم شیطان کی بات مان کرمستقبل(آخرت) میں جنت میں داخل ہی نہ ہو سکے۔ تفسیر ابن کثیر کے مطابق اللہ تعالیٰ نے لباس الگ نازل کیا اور ریش کو الگ نازل کیا، اس تفسیر کو پڑھ کر چند دوستوں کا یہ خیال ہے کہ ایسا لباس پہننا فرض ہے جس سے ستر چھپایا جائے، جبکہ ریش ایک الگ اعزازی چیز ہے جو انسان کو عطا کی گئی،لباس ضروریات زندگی ہے اور ریش زیادتی ہے۔میرے خیال میں آیت کا اصل مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لباس نازل کیا، آگے اس لباس کی وضاحت کی کہ لباس میں دو خصوصیات ہونی ضروری ہیں، ستر چھپائے اور باعث زینت ہو۔نہ کہ اس کا مطلب یہ کہ لباس الگ نازل ہوا اور ریش الگ۔اس سے جوگیانہ اور راہبانہ تصور کی نفی ہوتی ہے جو صرف ستر چھپا کر جنگل میں رہتے ہیں اور باعث زینت لباس کے پہننے کو گناہ محسوس کرتے ہیں۔اس آیت میں اللہ تعالیٰ احسان فرما رہا ہے اور بتا رہا ہے کہ لباس وہی ہے جس میں دو خصوصیات ہو ں گی۔ اگر یہ خصوصیات نہیں تو وہ لباس نہیں۔ایسا لباس جو ستر تو چھپائے مگر ایسامیلا کچیلا ہو کہ دیکھنے پر کراہت آئے تو وہ لباس اسلامی لباس نہیں ہو گا۔ ایسا لباس جس میں بے شک سونے اور ہیرے جڑے ہوں مگر ستر نہ چھپائے وہ بھی اسلامی لباس نہیں ہوگا۔ آیت میں جو آگے تقویٰ کے لباس کا ذکر ہے اس مراد کچھ مفسر نے ظاہری لباس کے مقابلے میں باطنی لباس سے لی ہے، مگر میرے خیال میں تقویٰ کے لباس سے مراد یہی ظاہری لباس ہے جو ستر کو چھپائے اور باعث زینت ہو۔ اگر لباس کو پہنتے ہوئے یہ خیال ہو کہ کہیں غلطی سے بھی اللہ تعالیٰ کے فرمان کی نافرمانی نہ ہو جائے تو یہی لباس تقویٰ کا ہو گا۔درج ذیل آیات سے یہ بات مزید واضح ہو جائے گی کہ ذَٰلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِ ﴿الحج: ٣٢﴾ ”یہ ہے اصل معاملہ (اسے سمجھ لو)، اور جو اللہ کے مقرر کردہ شعائر کا احترام کرے تو یہ دلوں کے تقویٰ سے ہے“ (۲۲: ۳۲) لَن يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَٰكِن يَنَالُهُ التَّقْوَىٰ مِنكُمْ كَذَٰلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِينَ ﴿الحج: ٣٧﴾ ”نہ اُن کے گوشت اللہ کو پہنچتے ہیں نہ خون، مگر اُسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے اُس نے ان کو تمہارے لیے اِس طرح مسخّر کیا ہے تاکہ اُس کی بخشی ہوئی ہدایت پر تم اُس کی تکبیر کرو اور اے نبیؐ، بشارت دے دے نیکو کار لوگوں کو“ (۲۲: ۳۷) ان آیات کے مطابق اللہ تعالیٰ کی ہدایت پر عمل کرنا ہی تقویٰ ہے۔