قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ ۚ قُلْ هِيَ لِلَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا خَالِصَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ كَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ [٧:٣٢] ”اے محمدؐ، ان سے کہو کس نے اللہ کی اُس زینت کو حرام کر دیا جسے اللہ نے اپنے بندوں کے لیے نکالا تھا اور کس نے خدا کی بخشی ہوئی پاک چیزیں ممنوع کر دیں؟ کہو، یہ ساری چیزیں دنیا کی زندگی میں بھی ایمان لانے والوں کے لیے ہیں، اور قیامت کے روز تو خالصتاً انہی کے لیے ہوں گی اِس طرح ہم اپنی باتیں صاف صاف بیان کرتے ہیں اُن لوگوں کے لیے جو علم رکھنے والے ہیں “ یعنی لباس توا للہ تعالیٰ نے اتارا ہے،وہ لباس جو شرم کی جگہوں کو چھپاتا ہےاور باعث زینت ہے ، اسے کس نے حرام کیا ہے؟ کوئی بھی کپڑا جس میں انسان اچھا لگے اس کپڑے کا لباس انسان کو حلال ہے، چاہے وہ کپڑا روئی سے بنا ہو یا ریشم سے۔ اسے حرام قرار دینے والوں سے اللہ تعالیٰ سوالیہ انداز میں پوچھ رہا ہے کہ بتاؤ تو سہی کون ہے وہ جس نے انہیں حرام کیا۔ جب میں نے(اللہ تعالیٰ نے ) حلال کر دیا تو دوسرا حرام کرنے والا کون ہے؟ اللہ تعالیٰ تو خود حضرت محمد ﷺ کی زبانی لوگوں سے پوچھ رہے ہیں کہ بتاؤ تو ذرا کون ہے جس نے فلاں لباس حرام کیا ہے؟ مگر اس آیت کے برخلاف الٹا بہت سے لوگ حضرت محمد ﷺ کی طرف منسوب کر کے مختلف لباسوں کومختلف قوموں سے منسوب کر کے حرام قرار دے رہے ہیں۔اسی طرح ریشم کے لباس ، غیر عرب قوموں کے لباس کے حرام ہونے کو بھی نبی کریم ﷺ سے ہی منسوب کیا جاتا ہے۔ یہ آیت اسی بات کی نفی کر رہی ہے۔ اسلامی لباس کی صرف دو خصوصیات بتا دی ہیں یعنی شرم کے حصوں کو چھپانا اور باعث زینت۔ اس کے بر خلاف اگر کوئی شلوار قمیض یا پینٹ شرٹ کو حرام قرار دیتا ہے تو اس کا حرام قرار دینا اپنی خواہش کی وجہ سے ہے۔ عورتوں کا سنگھار کرنا کہیں حرام نہیں ہے، خوبصورت نظر آنے کے لیے خوبصورت لباس اور زیورات پہننا بھی کہیں حرام نہیں ہے، ہاں ان کی سب کچھ حدود ہیں جو آگے آئیں گی۔ فطری طور پر جو سجنے سنورنے کی خواہش ہے وہ بُری نہیں۔