ہم چودہ لڑکے لڑکیاں جن کی عمریں آٹھ سے اٹھارہ کے درمیان میں تھیں، لکڑی سے بنے پل کی دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے جو کالا ڈھنگی میں دریائے بور پر بنایا گیا تھا اور ہم پوری توجہ سے ڈینسی کی بھوت پریت کی کہانیاں سن رہے تھے۔ سڑک کے درمیان میں آگ جل رہی تھی جو آس پاس موجود لکڑیاں جمع کر کے جلائی گئی تھی اور اب آگ میں محض دہکتے کوئلے ہی باقی بچے تھے۔ تاریکی چھا رہی تھی اور ڈینسی نے اپنی خوفناک کہانیاں سنانے کے لیے بہترین وقت چنا تھا۔ ایک لڑکی اپنی سہیلی سے کہہ رہی تھی "بار بار پیچھے مڑ کر مت دیکھو۔ مجھے ڈر لگتا ہے"۔

ڈینسی آئرش النسل تھا اور جن بھوتوں پر پوری طرح اعتقاد رکھتا تھا۔ اس لیے جب وہ ایسی کہانیاں سناتا تو سماں باندھ دیتا تھا۔ اس رات کی کہانیاں بگڑے چہروں، کڑکڑاتی ہڈیوں، دروازوں کا پراسرار طور پر کھلنا بند ہونا اور پرانی عمارتوں میں سے سیڑھیوں سے خودبخود آوازیں آنا شامل تھیں۔ چونکہ میں نے کبھی آسیب زدہ پرانی عمارتیں نہیں دیکھی تھیں، اس لیے مجھے ڈینسی کی کہانیوں سے کوئی ڈر نہیں لگ رہا تھا۔ جب ڈینسی نے رگوں میں خون جما دینے والی ایک کہانی پوری کی ہی تھی کہ ہمارے سروں کے اوپر سے ایک بوڑھا اُلو ہو ہو کرتا ہوا شکار کی تلاش میں نکلا۔ یہ الو سارا دن بیلوں سے گھرے درخت پر اونگھتا رہتا تھا جہاں اسے کوے اور دیگر پرندے تنگ نہیں کر سکتے تھے۔ یہ درخت ہلدو کا تھا جو برسوں پہلے آسمانی بجلی گرنے سے جل گیا تھا اور ہم سب جو تتلیاں پکڑنے یا غلیل سے شکار کھیلنے آتے تھے، اسے بخوبی پہچانتے تھے۔ اُلو کی آواز کو بعض ناواقف افراد شیر کی دھاڑ سمجھ بیٹھتے ہیں۔ اُلو کی آواز کا جواب نہر کے دوسرے کنارے پر موجود اس کی مادہ نے دیا۔ افزائش نسل کے علاوہ دونوں اُلو الگ الگ رہتے تھے۔ اُلو کی آواز سنتے ہی ڈینسی نے جن بھوتوں کی کہانیاں ختم کر دیں اور بنشی کی کہانیاں شروع کر دیں۔ ڈینسی کو جن بھوت سے بھی زیادہ اعتقاد بنشی پر تھا۔ ڈینسی کے مطابق بنشی ایک عورت کی بدروح ہے جو گھنے جنگلوں میں رہتی ہے اور اتنی خطرناک ہوتی ہے کہ محض اس کی آواز سُننے سے سُننے والے اور اس کے پورے خاندان پر مصیبت نازل ہو جاتی ہے۔ اگر بنشی پر نظر پڑ جائے تو پھر اس بدقسمت فرد کی موت لازمی ہو جاتی ہے۔ بنشی سے مجھے بہت ڈر لگتا تھا کیونکہ وہ جنگلوں میں پائی جاتی تھی اور تتلیوں اور پرندوں کے انڈوں کی تلاش میں میں جنگلوں میں مٹرگشت کرتا تھا۔ مجھے یہ تو علم نہیں کہ آئرلینڈ میں پائی جانی والی بنشیاں کیسی ہوتی ہیں لیکن مجھے یہ پتہ تھا کہ وہ دو کیسی بنشیاں ہیں جن کی آواز اس نے کالاڈھنگی کے جنگلوں میں سنی تھی۔ ایک بنشی کے بارے بعد میں بات کرتے ہیں۔ دوسری بنشی کو ہمالیہ کے دامن اور ہندوستان کے دیگر حصوں میں رہنے والے چڑیل کے نام سے جانتے ہیں۔ بد ارواح میں چڑیل کو سب سے برا سمجھا جاتا ہے اور یہ عورت کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے۔ الٹے پیروں والی یہ چڑیل کسی انسان کو اپنا شکار چن لیتی ہے اور پھر سانپ کی طرح اسے مسمرائز کر کے اس کا شکار کرتی ہے۔ اس سے بچاؤ کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ہاتھ سے آنکھوں کو ڈھک کر اور اگر گھر کے اندر ہوں تو کمبل کو سر تک تان لیا جائے۔

غار میں رہنے والے انسان چاہے جیسے بھی ہوں، موجودہ دور کا انسان دن کی مخلوق ہے۔ دن کی روشنی میں ہمیں آسانی رہتی ہے اور ہم میں سے اکثر لوگ کسی بھی مشکل کا سامنا کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ دن کی روشنی میں چند گھنٹے قبل والی تاریکی کی باتوں پر ہمیں ہنسی آتی ہے۔ جب دن کی روشنی ختم ہوتی ہے اور رات کا اندھیرا ہر طرف چھا جاتا ہے اور ہمیں کچھ دکھائی نہیں دیتا تو ہمارا تخیل عجب تماشے دکھانے لگ جاتا ہے۔ جب تخیل کے ساتھ مافوق الفطرت عناصر پر اندھا اعتقاد بھی ساتھ شامل ہو تو عجب نہیں کہ گھنے جنگلوں سے گھرے دیہاتوں میں رات کے وقت لوگوں کا خون خشک ہونے لگ جاتا ہے کہ ان کے پاس سواری کے نام پر اپنی ٹانگیں اور روشنی کے نام پر محض مشعلیں ہوتی ہیں۔

کئی کئی ماہ ان لوگوں کے ساتھ رہنے اور ان کی زبان بولنے کے سبب ڈینسی کے اپنے توہمات پر مقامی پہاڑی لوگوں کے توہمات کا گہرا غلاف بھی چڑھ چکا تھا۔ ہمارے دیہاتی ہوں یا کہ ڈینسی، ان کی بہادری میں کوئی شک نہیں لیکن مافوق الفطرت پر ان کا اعتقاد انہیں چڑیل یا بنشی کے بارے تحقیق کرنے سے روکتا ہے۔ برسوں میں کماؤں میں رہا اور جنگل میں سینکڑوں راتیں گذاریں، مجھے چڑیل کی آواز تین بار سنائی دی ہے جو ہمیشہ رات کو آتی تھی اور ایک بار اسے دیکھا بھی ہے۔

مارچ کا مہینہ تھا۔ سرسوں کی بہترین فصل کٹ چکی تھی اور ہماری جھونپڑی کے آس پاس پورا گاؤں خوش تھا۔ سارے مرد، عورتیں اور بچے گا بجا رہے تھے۔ چاند کی گیارہویں یا بارہویں تاریخ تھی اور رات کو بھی دن جیسا سماں تھا۔ رات کے آٹھ بج رہے تھے، میگی اور میں رات کا کھانا کھانے ہی لگے تھے پرسکون رات میں اچانک چڑیل کی آواز آئی اور اسے سنتے ہی دیگر تمام آوازیں تھم گئیں۔ صحن کے دائیں کونے پر، ہماری جھونپڑی سے پچاس گز دور ہلدو کا درخت ہے۔ نسل در نسل گدھوں، عقابوں، بازوں، چیلوں، کوؤں اور دیگر پرندوں کی آمد و رفت کی وجہ سے اوپری شاخوں کی کھال اتر گئی ہے اور اوپری شاخیں مر چکی ہیں۔ ہمارا بیرونی دروازہ جو شمالی سرد ہوا سے بچاؤ کی خاطر بند تھا، کو کھول کر میں اور میگی برآمدے میں نکلے اور عین اسی وقت چڑیل پھر بولی۔ یہ آواز ہلدو کے درخت سے آئی تھی اور اس کی سب سے بلند شاخ پر چڑیل بیٹھی تھی۔

مختلف آوازوں کو آپ لکھ کر ظاہر کر سکتے ہیں جیسے کووئی، ٹیپ ٹیپ کی آواز جو ہُدہُد پیدا کرتا ہے، لیکن چڑیل کی آواز کو بیان کرنے کے لیے میرے پاس کوئی الفاظ نہیں۔ اگر میں ایسا کہوں کہ انتہائی اذیت کا شکار انسان چیخ رہا ہو یا کوئی روح انتہائی تکلیف میں ہو تو اس سے بات واضح نہیں ہو سکتی کیونکہ ہم نے یہ آوازیں کبھی سنی ہی نہیں۔ نہ ہی یہ آواز جنگل کی کسی آواز سے ملتی جلتی تھی کیونکہ یہ آواز ہماری دنیا کی لگتی ہی نہیں تھی اور اسے سنتے ہی رگوں میں خون جمنے اور دل کی دھڑکن رکنے لگ جاتی تھی۔ یہ آواز میں نے پہلے بھی کئی بار سنی تھی اور میرا اندازا تھا کہ یہ کوئی مہاجر الو ہے کیونکہ ہمارے مقامی الوؤں کی آوازیں میرے لیے اجنبی نہیں تھیں اور میں انہیں بخوبی پہچانتا ہوں۔ کمرے میں گھس کر میں نے وہ دوربین اٹھائی جو پہلی جنگ عظیم میں میں دشمن کے توپ خانے کو تلاش کرنے کے لیے استعمال کرتا رہا تھا اور بہترین قسم کی دوربین تھی۔ اس دوربین کی مدد سے میں نے اس پرندے کا بغور جائزہ لیا۔ آپ کو اس نیت سے بتا رہا ہوں کہ شاید آپ اس پرندے کو مجھ سے بہتر جانتے ہوں:

  • اس پرندے کی جسامت سنہرے عقاب سے تھوڑی سی چھوٹی تھی
  • نسبتاً لمبی ٹانگوں پر سیدھا کھڑا تھا
  • دم نسبتاً چھوٹی لیکن الو سے بڑی تھی
  • الو جیسا گول سر نہیں تھا اور نہ ہی الو جیسی چھوٹی گردن
  • سر پر کوئی تاج یا سینگ نہیں تھے
  • جب یہ بولا، جیسا کہ ہر نصف منٹ بعد بولتا تھا، سر کو آسمان کی جانب بلند کر کے اور پوری چونچ کھول کر بولتا تھا
  • پورا جسم کالے رنگ کا تھا لیکن عین ممکن ہے کہ گہرا بھورا ہو جو چاندنی میں مجھے سیاہ دکھائی دیا

میرے پاس 28 بور کی شاٹ گن رکھی تھی لیکن یہ پرندہ اس کی مار سے دور بیٹھا تھا اور رائفل استعمال کرنے سے مجھے جھجھک ہو رہی تھی کہ چاندنی رات میں رائفل کا نشانہ اس طرح کے پرندے پر لینا بہت مشکل ہوتا ہے اور اگر نشانہ خطا جاتا تو جہاں تک رائفل کی آواز جاتی، لوگوں کو یقین ہو جاتا کہ چڑیل پر رائفل کی گولیاں بھی اثر نہیں کرتیں۔ بیس بار بولنے کے بعد اس پرندے نے پر کھولے او راڑ کر اندھیرے میں نظروں سے غائب ہو گیا۔

ساری رات گاؤں پر خاموشی رہی اور اگلے دن کسی نے بھی چڑیل کا ذکر نہیں کیا۔ جیسا کہ مجھے بچپن میں کنور سنگھ نے سمجھایا تھا کہ جنگل میں شیر کا نام کبھی مت لینا، ورنہ شیر سے لازمی ٹاکرا ہوگا۔ اسی وجہ سے پہاڑی علاقے کے لوگ چڑیل کا ذکر نہیں کرتے۔

کالا ڈھنگی میں سردیاں بسر کرنے والے دونوں خاندانوں کے بچوں کی کل تعداد 14 تھی۔ میرا چھوٹا بھائی اتنا چھوٹا تھا کہ وہ ہمارے ساتھ گھر سے باہر رات کو بون فائر یا تالاب میں نہانے کے لیے نہیں آ سکتا تھا، اس لیے اسے شمار کرنا فضول ہے۔ میں ان 14 بچوں میں سب سے چھوٹا تھا۔ سب سے چھوٹا لڑکا ہونے کی وجہ سے مجھے ہر وہ کام کرنا پڑتا تھا جو مجھے سخت ناپسند تھے۔ مثلاً ہمارے بچپن میں لڑکیاں جب ہماری جاگیر کے کنارے والی نہر پر نہانے جاتیں تو کسی لڑکے کو ساتھ لازمی جانا پڑتا تھا۔ لڑکیاں اتوار چھوڑ ہر روز نہانے جاتی تھیں۔ اس بات کی مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ اتوار کو کیوں نہ نہایا جائے۔ لڑکیوں کے شب خوابی کے لباس اور تولیے اٹھانا بھی میری ذمہ داری ہوتی تھی کیونکہ اُن دنوں تیراکی کے لباس نہیں ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ جب لڑکیاں نہا رہی ہوں تو نزدیکی پگڈنڈی سے گذرتے ہوئے مردوں سے انہیں خبردار کرنا بھی میری ذمہ داری ہوتی تھی۔ نہر پختہ تھی اور دس فٹ چوڑی اور تین فٹ گہری تھی۔ جہاں اس نہر سے ہماری جاگیر کو آبپاشی کا پانی جاتا، اس جگہ سر ہنری ریمزے کے حکم پر نہر کو کھود کر چند گز کے لیے چھ فٹ گہرا کر دیا گیا تھا۔ ہر روز جب لڑکیاں نہانے کو جاتیں تو مجھے حکم ملتا کہ کسی لڑکی اس گہری جگہ ڈوبنے نہ دوں۔ کاٹن کے پتلے شب خوابی کے لباس پہن کر جب تین فٹ گہرے پانی میں پیر پھسلے یا اچانک بیٹھنا ہو تو سارا لباس ہوا بھرنے کے بعد سطح پر تیرنے لگ جاتا تھا اور ہر لڑکی پانی میں پہنچتے ہی یہی کچھ کرتی تھی۔ جب بھی ایسا ہوتا، اور یہ بار بار ہوتا تھا، مجھے سخت حکم تھا کہ دوسری جانب دیکھنے لگ جاؤں۔

جب میں لڑکیوں کی نگرانی کر رہا ہوتا اور بوقتِ ضرورت دوسری جانب دیکھتا تو اس وقت دوسرے لڑکے نہر کے ایک سرے پر موجود گہرے تالاب میں نہا رہے ہوتے اور غلیل سے درختوں سے پھول گراتے یا پرندوں کا شکار کرنے کی کوشش کرتے۔ سیمل کے درختوں پر پرندے اور گلہریاں کھانے سے زیادہ پھول نیچے گراتے جو بعد میں جنگلی سور اور ہرن کھانتے۔ پیپل کے درخت پر بیٹھا الو ہمیشہ اتنا محتاط رہتا کہ کبھی بھی اس پر غلیل سے حملہ نہیں کیا جا سکتا تھا پھر بھی لڑکے اس پر غلہ چلا دیتے۔ بڑے تالاب پر پہنچتے ہی مقابلہ شروع ہو جاتا کہ کون سب سے زیادہ مچھلیاں پکڑتا ہے۔ اس مقصد کے لیے گھر میں بنی دستی بنسیاں اور دھاگوں کی ریلیں استعمال ہوتی تھیں۔ جب مچھلی پکڑنے والی پیسٹ ساری ختم ہو جاتی یا پانی میں گر جاتی اور چند ہی مچھلیاں پکڑی گئی ہوتیں تو پھر کپڑے اتار کر سارے ہی تالاب میں نہانے کے لیے چھلانگیں مارتے اور مقابلہ ہوتا کہ دوسرے کنارے کو پہلے کون پہنچے گا۔ جب سارے لڑکے ان دلچسپ مشغلوں میں مصروف ہوتے، میں ان سے ایک میل دور بیٹھا لڑکیوں کی جھڑکیان سن رہا ہوتا کہ اپنے خیالات میں مگن ہونے کی وجہ سے میں لڑکیوں کو پاس سے گذرتے ہوئے کسی دیہاتی کا بتانا بھول جاتا تھا۔ تاہم اس بیگار کا ایک مثبت پہلو یہ بھی تھا کہ مجھے لڑکیوں کے سارے خفیہ منصوبے پہلے سے پتہ چل جاتے جو وہ لڑکوں کے خلاف بالعموم اور ڈینسی اور نیل فلیمنگ کے خلاف بالخصوص بناتیں۔

ڈینسی اور نیل دونوں ہی آئرش النسل تھے اور یہی ان کی واحد مشترکہ خاصیت تھی۔ ڈینسی پستہ قد، بالوں سے بھرا اور کسی ریچھ کی مانند طاقتور تھا تو نیل بید مجنون کی مانند نازک اور پھول کی مانند کمزور تھا۔ ڈینسی رائفل ہاتھ میں لیے جنگل میں پیدل شیروں کا تعاقب کر کے شکار کرتا تھا تو نیل کو جنگل کے نام سے ہی بخار چڑھ جاتا تھا اور اس نے کبھی بندوق بھی نہیں چلائی تھی۔ ان میں ایک اور مشترکہ بات بھی تھی کہ دونوں ہی ایک دوسرے سے پوری طرح نفرت کرتے تھے کہ دونوں ہی بیک وقت ساری لڑکیوں پر عاشق تھے۔ ڈینسی کا باپ ایک جنرل تھا جس کی خواہش تھی کہ ڈینسی فوج میں جائے اور ڈینسی کے انکار پر اسے عاق کر دیا تھا۔ ڈینسی میرے بڑے بھائیوں کے ساتھ سرکاریاسکول میں پڑھتا تھا اور ابھی اس کی محکمہ جنگلات کی ملازمت کی چھٹیاں چل رہی تھیں اور اسے توقع تھی کہ جلد ہی پولیٹکل سروس میں اسے جگہ مل جائے گی۔ نیل میرے بڑے بھائی ٹام کے ماتحت ڈاکخانے میں کام کرتا تھا۔ اگرچہ دونوں ہی کسی لڑکی سے شادی کے قابل نہیں تھے لیکن پھر بھی ان کی باہمی نفرت اور لڑکیوں سے محبت عروج پر تھیں۔

نہر کنارے بیٹھ کر لڑکیوں کی باتوں سے پتہ چلا کہ نیل پچھلی بار جب کالاڈھنگی آیا تو بہت مغرور ہو گیا تھا اور اس نے خوامخواہ فرض کرنا شروع کر دیا تھا جبکہ ڈینسی بہت شرمیلا اور جھجھک رہا تھا۔ اس صورتحال کو ٹھیک کرنے کے لیے نیل کو بے عزت کرنا اور ڈینسی کو آگے لانا ضروری تھا لیکن تھوڑا سا۔ اگر زیادہ حوصلہ افزائی کی گئی تو ڈینسی بھی فرض کرنے لگ جائے گا۔ اب فرض کرنے سے کیا مراد تھی، مجھے نہ تو پتہ تھا اور نہ ہی مجھے اچھا لگا کہ پوچھتا۔ ایک ہی تیر سے دو شکار کرنے کی نیت سے انہوں نے سوچا کہ دونوں کےساتھ کوئی حرکت کی جائے۔ کئی منصوبے بنے لیکن آخر جس منصوبے پر اتفاق ہوا، اس میں میرے بڑے بھائی ٹام کی مدد درکار تھی۔ سردیوں میں نینی تال کے ڈاکخانے میں کام بہت ہلکا ہوتا تھا اور ٹام کی عادت تھی کہ وہ نیل کو ہر دوسرے ہفتے ہفتے کی شام سے پیر کی صبح تک کی چھٹی دے دیا کرتا تھا۔ یہ چھٹی وہ کالاڈھنگی میں موجود دونوں میں سے کسی ایک خاندان کے ساتھ گذارتا تھا اور اپنی طبعیت اور اچھی آواز کی وجہ سے ہمیشہ اسے خوش آمدید کہا جاتا تھا۔ اسی وجہ سے ٹام کو بذریعہ خط یہ کہا گیا کہ نیل کو ہفتے کی شام کو کسی نہ کسی بہانے سے دیر تک روک کر بھیجا جائے تاکہ پندرہ میل کا سفر طے کر کے جب وہ کالاڈھنگی پہنچے تو رات ہو رہی ہو۔ مزید ٹام نیل کو یہ بھی بتائے کہ اس کی آمد میں تاخیر کی وجہ سے وہ اسے بتا دے کہ عین ممکن ہے کہ لڑکیاں اس کی تاخیر سے پریشان ہو کر شاید اس کی تلاش میں نکل کھڑی ہوں۔ مزید یہ بھی طے کیا گیا کہ ڈینسی اپنے شکار کردہ ریچھوں میں سے ایک کی کھال پہن کر لڑکیوں کے ساتھ نینی تال کی طرف دو میل جا کر سڑک کے ایک تنگ موڑ کے پیچھے جا کر چھپ جائے۔ جب نیل پہنچے تو ڈینسی اس پر کسی ریچھ کی طرح حملہ کرے گا اور ریچھ کو دیکھتے ہی نیل بھاگ کر سیدھا لڑکیوں کی بانہوں میں جا سمائے گا جو اس کی کہانی سن کر اس کی بزدلی پر ہنسیں گی اور جب ڈینسی بھی اپنی کھال اتار کر آن پہنچے گا تو خوب لطف رہے گا۔ ڈینسی نے اس منصوبے پر اعتراض کیا تو اسے بتایا گیا کہ اس کے سینڈوچ میں دو ہفتے قبل جو لال رنگ کی دھجی نکلی تھی اور جس کی وجہ سے اسےپکنک پر سخت شرمندگی ہوئی تھی، وہ نیل نے تجویز کی تھی۔

کالاڈھنگی سے نینی تال کی سڑک پر آمد و رفت سورج غروب ہوتے ہی رک جاتی تھی اور مطلوبہ دن ڈینسی ایک ریچھ کی کھال پہن کر لڑکیوں کے ساتھ مطلوبہ مقام کو چل دیا۔ راستے میں کبھی وہ دو پیروں تو کبھی چاروں پر چلتا۔ چونکہ شام کافی گرم تھی اور ڈینسی نے اپنے کپڑوں کے اوپر کھال پہنی تھی اس لیے بے چارہ پسینے میں شرابور تھا۔ دوسری طرف نینی تال میں نیل کو ایک کے بعد دوسرا کام دیا جا رہا تھا حتیٰ کہ اس کے عام طور پر روانگی کا وقت بھی گزر گیا۔ کافی دیر بعد جب ٹام نے اسے اجازت دی تو جانے سے قبل ٹام نے اس کے ہاتھ میں ایک دو نالی بندوق اور دو کارتوس بھی پکڑا دیے اور بتایا کہ کسی بھی ہنگامی صورتحال میں کام آئیں گے۔ نینی تال سے کالاڈھنگی کا راستہ سارا بالعموم اترائی ہے اور ابتدائی آٹھ میل مزروعہ زمینوں سے ہو کر گذرتے ہیں اور پھر اس سے آگے عین کالاڈھنگی تک سارا راستہ گھنے جنگل سے گذرتا ہے۔ ڈینسی اور لڑکیاں اپنی اپنی جگہوں پر پہنچ گئیں اور جب روشنی کم ہونے لگی تھی کہ سڑک سے نیل کے گانے کی آواز آئی۔ شاید اپنا حوصلہ بڑھانے کے لیے وہ گا رہا تھا۔ آواز قریب سے قریب ہوتی چلی آئی اور لڑکیوں نے بعد میں بتایا کہ انہوں نے نیل کو کبھی اتنا اچھا گاتے نہیں سنا تھا۔ جب نیل اس موڑ پر پہنچا جس کے پیچھے ڈینسی اس کا منتظر تھا، ڈینسی نے پیروں پر کھڑا ہو کر ریچھ کی طرح آواز نکالی۔ عین اسی وقت نیل نے بندوق چھتیائی اور سیدھا ڈینسی پر دو فائر کر دیے۔ دھوئیں کے بادل نے نیل کے سامنے پردہ سا تان دیا اور جب وہ بھاگا تو اسے "ریچھ" کے نیچے کھائی میں لڑھکنے کی آواز آنے لگی تھی۔ عین اسی وقت لڑکیاں بھاگ پر اس جگہ پہنچیں۔ لڑکیوں کو دیکھتے ہی نیل نے اپنی بندوق لہرائی اور بتایا کہ ابھی ابھی اس نے ایک بہت بڑے ریچھ کو مار ڈالا ہے جس نے اس پر حملہ کیا تھا۔ جب لڑکیوں نے پوچھا کہ ریچھ کہاں گیا تو نیل نے بے پروائی سے نیچے کھائی کی طرف بندوق سے اشارہ کیا کہ ادھر ہے۔ پھر اپنے شکار کو دیکھنے کے لیے نیل نے نیچے اترنے کا سوچا اور لڑکیوں سے بھی کہا کہ وہ بھی اس کے ساتھ چلیں کہ ریچھ تو کب کا مرچکا ہے۔ تاہم لڑکیوں نے سختی سے انکار کیا اور کہا کہ اسے اکیلے ہی جانا ہوگا۔ لڑکیوں کے بہتے آنسوؤں سے نیل کو بہت خوشی ہوئی کہ لڑکیاں اس کے بچ نکلنے پر کتنی خوش ہو رہی ہیں۔ خیر وہ نیچے اترا۔ ڈینسی نے نیل سے اور نیل نے ڈینسی سے کیا کہا اور کیا نہیں، اس بارے کوئی معلومات نہیں لیکن جب کافی دیر بعد دونوں اوپر پہنچے تو ڈینسی نے بندوق جبکہ نیل نے ریچھ کی کھال اٹھائی ہوئی تھی۔ ڈینسی بے چارہ سینے پر دو گولیاں کھا کر سیدھا نیچے گرا لیکن ریچھ کی کھال نے اسے چوٹوں سے بچا لیا۔ جب نیل سے پوچھا گیا کہ بھئی تمہارے پاس بندوق کیسے آئی کہ جس سے ایک مہلک حادثہ ہوتے ہوتے بچا۔ اس نے بتایا کہ یہ بندوق اور کارتوس اسے ٹام نے دیے تھے۔ ساری ذمہ داری ٹام کی غائب دماغی پر ڈال دی گئی۔

چونکہ سوموار کو سرکاری تعطیل تھی اس لیے ٹام اتوار کی رات کو آن پہنچا تاکہ چھٹی گھر پر گزار سکے۔ فوراً ہی اسے ناراض لڑکیوں نے گھیر لیا کہ اس نے نیل کو بندوق اور کارتوس کیوں دیے تھے جس سے ڈینسی کی زندگی خطرے میں پڑی۔ ٹام نے آرام سے ساری باتیں سنیں۔ جب لڑکیاں اس جگہ پہنچیں جب نیل کے فائر سے ڈینسی کھائی میں جا گرا تو لڑکیاں اس کی بے وقت موت پر رونے لگیں تھیں کہ ٹام قہقہے لگانے لگا اور پھر اس نے بتایا کہ جب اسے خط ملا تو اسے احساس ہوا کہ شرارت ہونے لگی ہے۔ اس لیے اس نے کارتوسوں سے گولیاں نکال کر آٹا بھر دیا تھا۔ اس سارے مذاق کا نتیجہ یہ نکلا کہ ڈینسی مزید شرمیلا ہو گیا جبکہ نیل کے حوصلے مزید بلند ہو گئے۔