کنور سنگھ کے بارے میں "مائی انڈیا" میں بتا چکا ہوں کہ کالاڈھنگی اور اس کے آس پاس کے جنگلوں میں شکار سے انتہائی حد تک گریز کرتا تھا اور کہتا تھا کہ یہاں اتنی زیادہ بیلیں ہوتی ہیں کہ اگر فارسٹ گارڈ کا سامنا ہو تو فرار ہونا ناممکن ہو جاتا ہے۔ اس لیے چوری شکار کھیلنے کا سارا شغل اس نے گروپو کے جنگل تک محدود کر رکھا تھا۔ اچھا شکاری اور اچھا نشانے باز ہونے کی وجہ سے میں اس کی عزت کرتا تھا لیکن اس میں عمدہ شکاری ہونے کی کمی تھی۔ اسے جنگل کے ہر قطعے، کھلے میدان اور ہر مقام کا بخوبی علم تھا کہ ہرن کہاں ملتے ہیں۔ اس لیے وہ بغیر کسی احتیاط یا خاموشی کے سیدھا آگے بڑھتا اور اگر ہرن اس کی آہٹ سن کر بھاگ جاتے تو کہتا کہ کوئی بات نہیں، ابھی اگلے میدان میں اور ہرن مل جائیں گے۔ اس کے باوجود میں نے کنور سنگھ سے بہت کچھ سیکھا اور ہمیشہ اس کا شکر گزار رہا ہوں۔ اسی نے میرے دل کی تہہ میں چھپے نامعلوم چیزوں سے متعلق بعض خوف نکالے ہیں۔ مجھے جنگل کی آگ سے ہمیشہ ہی ڈر لگتا تھا۔ اس کے بارے بہت کچھ سنا اور اس سے ہوئی تباہی جنگلوں میں بہت بار دیکھی تھی۔ ہمیشہ میرے ذہن میں اس کا خوف رہتا تھا کہ کسی دن میں اس آگ کی لپیٹ میں آ کر زندہ جل جاؤں گا۔ کنور سنگھ سے یہ خوف دور کیا۔

کماؤں کی وادی کے دیہاتی ہمیشہ اپنے ہمسائیوں کے بارے باخبر رہتے ہیں۔ چونکہ انہیں اخبار وغیرہ بھی نہیں ملتے، اس لیے ایک دوسرے کے بارے زیادہ سے زیادہ معلومات جمع کرنے اور بعینہٖ آگے منتقل کرنے میں خصوصی دلچسپی لیتے ہیں۔ اس لیے ابھی میرا شکار کردہ تیندوا ٹھنڈا بھی نہیں پڑا تھا کہ کنور سنگھ کو اطلاع مل گئی اور اچھا شکاری ہونے کے ناطے مبارکباد دینے فوراً آن پہنچا۔ اسے سارجنٹ میجر کی دی ہوئی رائفل کا تو علم تھا لیکن شاید اسے میرے رائفل چلانے پر اعتبار نہیں تھا۔ اب تیندوے کی لاش کو سامنے دیکھ کر اس کے سارے شکوک ختم ہو گئے اور اس نے پوری توجہ سے میری بات سنی اور رائفل کا بغور جائزہ لیا اور جانے سے قبل وعدہ لیتا گیا کہ اگلے دن صبح کو پانچ بجے ہم گروپو کی سڑک کے پانچویں سنگ میل پر ملیں گے۔

ابھی اندھیرا گہرا تھا جب میگی نے مجھے چائے بنا کر دی۔ چائے پی کر چار بجے میں گھر سے نکلا۔ چونکہ اس سڑک پر میں بے شمار مرتبہ سفر کر چکا تھا اس لیے مجھے کوئی ڈر نہیں تھا۔ جب میں منزل پر پہنچا تو وہاں کنور سنگھ مجھ سے پہلے پہنچ کر آگ جلائے بیٹھا تھا۔ جب میں ہاتھ تاپنے بیٹھا تو اس نے کہا کہ "دیکھو، کتنی جلدی میں آئے ہو کہ پائجامہ پہننا بھی بھول گئے"۔ اسے یہ بات سمجھنا دشوار ہو گئی کہ میں پائجامہ بھولا نہیں بلکہ پہلی بار میں نے نیکر پہنی تھی۔ اگرچہ اس نے منہ سے اتنا کہا کہ جانگیہ جنگل کے لیے مناسب نہیں لیکن اس کی نظروں سے واضح تھا کہ یہ لباس مناسب نہیں اور اگر کسی نے مجھے اس کے ساتھ دیکھ لیا تو اس کی بہت بے عزتی ہوگی۔ اس بدمزگی کے بعد ساتھ والے درخت سے ایک جنگلی مرغ بولا تو کنور سنگھ اٹھا اور آگ بجھانے کے بعد ہم چل پڑے۔

جب ہم روانہ ہوئے تو جنگل بیدار ہونے لگ گیا تھا۔ پہلے مرغ نے ہمارے پاس کے درخت سے جو آواز لگائی تو آوازوں کا تسلسل اب پورے جنگل میں پھیل گیا تھا۔ چھوٹا بڑا ہر قسم کا پرندہ نیند سے بیدار ہو کر حمد و ثناء میں مصروف تھا۔ اگرچہ جنگلی مرغ سب سے پہلے بیدار ہوتا ہے لیکن نیچے اترنے اور اولین کیڑے پکڑنے کا کام سب سے پہلے ایک اور پرندہ کرتا ہے جسے انگریزی میں Himalayan whistling-thrush یا whistling-schoolboy کہا جاتا ہے۔ دن ہو یا رات، یہ پرندے اڑتے ہوئے خوبصورت دھنیں گاتا جاتا ہے جسے سننے کے بعد بھولنا ممکن نہیں۔ اس کے بعد Racket-tailed drongo اور پھر مور کی باری آتی ہے۔ مور کی چبھتی ہوئی آواز کے بعد کسی جاندار کے لیے سونا ممکن نہیں اور پورے جنگل میں پھر مختلف اقسام کے پرندوں کی آواز بھر جاتی ہے۔

پرندوں کے علاوہ جانور بھی موجود ہوتے ہیں۔ ہمارے سامنے چیتل کا ایک چھوٹا غول سڑک کو پار کر گیا اور پھر تھوڑا آگے ایک مادہ سانبھر اپنے بچے کے ساتھ چر رہی تھی۔ اب مشرق سے شیر کے بولنے کی آواز آئی اور جس جس مور کو بھی یہ آواز سنائی دی، اس نے شور مچانا شروع کر دیا۔ کنور سنگھ کا خیال تھا کہ شیر ہم سے چار گولیوں کے فاصلے پر ریتلے نالے میں ہے جہاں ہار سنگھ کے ساتھ حادثہ پیش آیا تھا اور وہ مرتے مرتے بچا تھا۔ شیر شاید پیٹ بھرنے کے بعد واپس لوٹ رہا تھا اور اسے اس بات کی پروا نہیں تھی کہ جنگلی جانور اسے دیکھ یا سن کر بھاگ جائیں گے۔ پہلے کاکڑ، پھر دو سانبھر اور پھر چیتلوں کے غول کی آوازیں آئیں جو جنگل کے جانوروں کو شیر کی آمد کے بارے بتا رہے تھے۔ جب ہم گروپو پہنچے تو سورج اب درختوں کی چوٹیوں تک بلند ہو گیا تھا۔ چوبی پُل عبور کر تے ہوئے پچاس سے زیادہ جنگلی مرغیاں ہمیں دیکھ کر اڑ گئیں۔ پھر ہم نے وہ پگڈنڈی پکڑی جو ریتلے نالے سے ہو کر گذرتی تھی۔ یہ نالہ اسی پل کے نیچے سے گذرتا ہے جو ہم نے ابھی عبور کیا تھا۔ یہ نالہ برسات میں ہی بھرتا ہے اور جنگل کے سارے جانور اسی نالے میں تین میل دور نکلنے والے شفاف پانی کے چشمے سے اپنی پیاس بجھاتے ہیں۔ بعد ازاں رائفل اور کیمرے، دونوں کے استعمال کے وقت یہ نالہ میری پسندیدہ ترین جگہوں میں سے ایک بن گیا۔ نالہ جس جنگل سے گذرتا تھا، وہاں جنگلی جانور بے شمار تھے اورانسانی مداخلت نہ ہونے کے برابر۔

نصف میل تک نالہ گھنی جھاڑیوں سے گذرتا ہوا پھر ایک قسم کی گھاس سے گذرتا ہے۔ اس گھاس کو نال کہتے ہیں اور یہ گھاس چوتھائی میل چوڑائی اور کئی میل لمبائی میں پھیلی ہوئی ہے۔ یہ گھاس کھوکھلے تنے والی ہوتی ہے اور بانس کی طرح گرہیں پڑی ہوتی ہیں۔ اس کی اونچائی 14 فٹ تک ہوتی ہے اور دیہاتوں میں اس کی مدد سے جھونپڑے بنائے جاتے ہیں۔ جب بھی گروپو کے گرد و نواح میں مویشیوں کے چارے کے لیے جنگل کو آگ لگائی جاتی ہے تو سارے جانور اسی گھاس کے قطعے میں پناہ لیتے ہیں۔ چونکہ یہ گھاس نمدار جگہ پر اگتی ہے اس لیے سارا سال ہی سبز رہتی ہے اور اسے آگ نہیں لگتی۔ تاہم انتہائی خشک سالی کے دوران یہ گھاس بھی سوکھ جاتی ہے اور جب اسے آگ لگے تو یہ آگ بہت پھیل جاتی ہے۔ اس گھاس میں بیلیں بکثرت ہوتی ہیں اور جب اس کے جوڑ آگ سے پھٹتے ہیں تو ایسی آواز نکلتی ہے جیسے کسی نے پستول چلایا ہو۔ اندازا کیجئے کہ جب لاکھوں کی تعداد میں ایسے جوڑ پھٹنے لگیں تو میل بھر سے ہی شور سنائی دے جاتا ہے۔

جب کنور سنگھ اور میں نالے میں اترے تو دور سے اٹھتے دھوئیں کے کالے بادل آسمان کو جاتے دکھائی دیے اور دور سے آگ سے گھاس چٹخنے کی آوازیں بھی آنے لگ گئیں۔ نالے کا رخ جنوب کی طرف تھا اور آگ اس کے مشرقی یا بائیں کنارے پر لگی تھی جسے تیز ہوا پھیلا رہی تھی۔ میرے آگے چلتے کنور سنگھ نے سر موڑ کر صرف اتنا کہا کہ "دس سال بعد نال گھاس کو آگ لگی ہے" اور چلتا گیا۔ ایک موڑ مڑتے ہی ہمارے سامنے آگ دکھائی دی جو نالے سے 100 گز دور رہی ہوگی۔ بڑے بڑے شعلے اٹھتے ہوئے دھوئیں کی شکل اختیار کر رہے تھے اور اس کے سرے پر سینکڑوں پرندے جمع تھے جو آگ سے بچ نکلنے والے کیڑے مکوڑے اور پتنگوں کو کھا رہے تھے۔ یہ پتنگے اور کیڑے مکوڑے گرم ہوا میں پھنس کر بلند ہو رہے تھے۔ جو پتنگے بچ کر نالے کی تہہ میں اترتے، انہیں کھانے کے لیے مور، جنگلی مرغ اور کالے تیتر جمع تھے۔ اس کے علاوہ 20 چیتل بھی سیمل کے درخت کے سرخ سرخ پھول کھانے کو جمع تھے۔

اس جگہ میں نے پہلی بار جنگل کی آگ دیکھی تھی اور میرے خوف کی وجہ یہی ہے کہ انسان عموماً نامعلوم سے ڈرتا ہے۔ موڑ مڑنے کے بعد جب ہم سیدھا آگ کے سامنے پہنچے تو دیکھا کہ بہت بڑی تعداد میں پرندے آگ کے پاس سے ہی پتنگوں کو پکڑ پکڑ کر کھا رہے تھے۔ اس سے مجھے اندازا ہوا کہ صرف میں ہی اس آگ سے ڈرتا ہوں اور وہ بھی بغیر کسی وجہ کے۔ نالے کے ساتھ چل کر یہاں آنے تک میں نے بہت بار واپس مڑ کر بھاگنے کا سوچا تھا لیکن ہر بار یہ سوچ کر رک جاتا کہ کنور سنگھ مجھے بزدل سمجھے گا۔ پچاس گز چوڑے نالے کے دوسرے کنارے پر کھڑے ہو کر جب ہم نال گھاس سے نکلنے والے کسی جانور کا انتظار کرنے رکے تو سامنے آگ کی چادر بڑھتی ہوئی نظر آئی اور دھوئیں کے بادل سر پر چھا رہے تھے۔ اس جگہ رکنے کے بعد میرا ڈر ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا۔ آگ کے قریب آنے پر تپش کی وجہ سے سارے جانور اور پرندے دوسرے کنارے پر چڑھ کر جنگل میں گم ہو گئے اور ہم نے بھی گروپو کی راہ لی۔ بعد کے برسوں میں گھاس کو لگنے والی آگ سے مجھے بہت اچھے شکاری تجربات حاصل ہوئے۔ تاہم ایک واقعہ کا ذکر کرنے سے قبل بتاتا چلوں کہ ہم میں سے وہ افراد جو ہمالیہ کے دامن میں زمین کاشت کرتے ہیں، کو حکومت کی طرف سے اجازت ہے کہ غیر محفوظ جنگلوں میں موجود گھاس کو آگ لگا سکتے ہیں تاکہ ہمارے مویشیوں کے لیے چارہ میسر ہو سکے۔ ان جنگلات میں گھاس کی بہت ساری اقسام پائی جاتی ہیں اور چونکہ ہر قسم کی گھاس الگ وقت پر خشک ہوتی ہے، اس لیے آگ لگانے کا عمل فروری سے جون تک چلتا رہتا ہے۔ اس دوران میں جب بھی کوئی بندہ کسی گھاس کے خشک قطعے سے گذرے تو اسے آگ لگاتا جاتا ہے۔

ترائی میں بندوکھیڑا کے مقام پر میں ونڈہم کے ساتھ کالے تیتر کے شکار پر نکلا ہوا تھا اور ایک صبح میرا دوست بہادر اور میں 25 میل کے گھر کے سفر پر کالاڈھنگی روانہ ہوئے۔ بہادر 30 سال سے اپنے گاؤں کے پٹیل کی ذمہ داریاں نبھا رہا تھا۔ ابھی ہم دس میل ہی چلے ہوں گے کہ ہمارے سامنے جلی ہوئی گھاس کا قطعہ آیا جس میں جگہ جگہ گھاس ابھی سبز تھی۔

ایک قطعے کے پاس سے گذرتے ہوئے دیکھا کہ ایک جانور نکل کر ہماری پگڈنڈی پر آڑا آن کھڑا ہوا۔ سورج اس کے مخالف سمت سے چمک رہا تھا اور اس کے رنگ اور حجم سے میں نے اندازا لگایا کہ یہ شیر ہے۔ تاہم جب یہ جانور پگڈنڈی عبور کر کے دوسری جانب کی گھاس میں داخل ہوا تو اس کی دم کی لمبائی سے مجھے پتہ چلا کہ یہ تیندوا ہے۔ تیندوے کو دیکھتے ہی بہادر بولا "افسوس کی بات ہے کہ کمشنر صاحب اور ان کے ہاتھی دس میل دور ہیں۔ یہ تیندوا ترائی کا سب سے بڑا تیندوا ہے اور اس کا شکار ہونا چاہیے"۔ تیندوے کے حجم کے بارے کوئی شک نہیں تھا اور اگرچہ ونڈہم اور ہاتھی دس میل دور تھے، پھر بھی میں نے قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا کہ تیندوا ایک مویشی خانے کی سمت سے آ رہا تھا اور دن دیہاڑے اس کا اس طرح حرکت کرنا صاف بتا رہا تھا کہ اس نے رات مویشی خانے سے شکار کیا ہوگا۔ میں نے بہادر کو بتایا کہ میں آگ لگا کر اس تیندوے کو گھاس سے نکالتا ہوں تو اس نے میری مدد کی حامی تو بھری لیکن منصوبے کی کامیابی کے بارے کافی مشکوک لگ رہا تھا۔ پہلا کام تو یہ کرنا تھا کہ گھاس کے قطعے کی وسعت کا اندازا لگایا جائے۔ اس لیے ہم پگڈنڈی سے اتر کر اس کے گرد چکر لگایا تو پتہ چلا کہ دس ایکڑ چوڑا قطعہ ہے اور کون نما شکل میں ہے۔ پگڈنڈی اس کے نچلے سرے سے گذرتی تھی۔

ہوا موافق تھی اور 200 گز دور دوسرے سرے پر جا کر میں نے گھاس کے دو مٹھے توڑے اور انہیں آگ لگا کر بہادر کو دائیں جانب بھیجا جبکہ خود بائیں جانب آگ لگاتا چلا۔ یہ گھاس ایلیفنٹ گھاس کے نام سے موسوم ہے اور اس کی اونچائی بارہ فٹ اور انتہائی خشک تھی۔ شعلہ دکھاتے ہی اس نے آگ پکڑی اور دھڑادھڑ جلنے لگ گئی۔ دوڑتے ہوئے پگڈنڈی پر پہنچ کر میں اپنی اعشاریہ 275 بور کی رگبی رائفل کے ساتھ نیچے لیٹ گیا اور رائفل کو شانے سے لگا کر راستے کے دوسرے سرے کا نشانہ لے لیا۔ جونہی تیندوا پگڈنڈی عبور کرتا، میں گولی چلا دیتا۔ میں گھاس سے دس گز دور لیٹا تھا اور جہاں تیندوا گھاس میں گھسا تھا، وہ یہاں سے 50 گز دور تھی۔ اس جگہ راستہ 10 فٹ چوڑا تھا اور میری کامیابی اسی میں ہوتی کہ تیندوے کو دیکھتے ہی گولی چلا دیتا۔ مجھے یقین تھا کہ تیندوا راستے کو آخری وقت پر اور انتہائی تیزی سے عبور کرے گا۔ بہادر میرے نشانے کی سیدھ سے بہت دور اور ایک اونچے درخت پر چڑھا ہوا تھا، اس لیے گولی سے اسے کوئی خطرہ نہیں تھا

گھاس آدھی جل چکی تھی اور اب اس کے شور سے ایسا لگتا تھا کہ جیسے ایکسپریس ٹرین کسی پُل سے گزر رہی ہو کہ میرے پاس ایک انسانی پیر دکھائی دیا۔ سر اٹھا کر دیکھا تو حلیے سے پتہ چلا کہ ایک مسلمان گاڑی بان شاید اپنے گمشدہ بیل کی تلاش میں نکلا ہوا ہے۔ فوراً اس کو نیچے لٹا کر میں نے اس کے کان میں کہا کہ آرام سے لیٹے رہو، اور اپنی ٹانگ اس کے اوپر رکھ دی تاکہ وہ اٹھ نہ سکے۔ آگ بڑھتے بڑھتے ہم سے محض 25 گز تک آن پہنچی کہ اچانک تیندوے نے جست لگا کر راستہ عبور کیا۔ اس کی جھلک دیکھتے ہی میں نے گولی چلا دی۔ گولی چلتے ہی تیندوے کی دم اوپر کو اٹھی۔ بائیں جانب کے قطعے کو کچھ دن قبل آگ لگائی گئی تھی اور ادھ جلے گھاس کے ٹانڈوں کی وجہ سے پتہ نہ چلا کہ میری گولی کا کیا اثر ہوا ہے۔ تاہم تیندوے کی دم جس طرح اوپر اٹھی، اس سے مجھے یقین تھا کہ تیندوے کو مہلک زخم پہنچا ہے۔ فوراً ہی اٹھتے ہوئے میں نے اپنے ساتھی کو بھی اٹھایا اور اس کا ہاتھ پکڑے سیدھا راستے پر بھاگا۔ آگ کے شعلے اب ہمارے سروں کے اوپر سے گزر رہے تھے اور جب ہم بالکل قریب پہنچے تو تیندوا دکھائی دیا۔ شدید تپش کی وجہ سے تاخیر ممکن نہ تھی اور اپنے ساتھی کا ہاتھ تیندوے کی دم پر رکھ کر اسے پکڑا اور تیندوے کو گھسیٹا تو اندازا کیجئے کہ تیندوے نے منہ کھول کر غرانا شروع کر دیا۔ خوش قسمتی سے گولی کی وجہ سے اس کی گردن ٹوٹ چکی تھی اور فوری خطرہ نہیں تھا۔ جب ہم آگ سے 50 گز دور پہنچے تو تیندوا مر چکا تھا۔ جونہی میں نے اپنے ساتھی کا ہاتھ چھوڑا تو اس نے ایسے دوڑ لگائی جیسے میں نے اسے کاٹ کھایا ہو۔ کھلی ہوئی پگڑی اس کے پیچھے زمین سے رگڑتی جا رہی تھی۔

افسوس کہ میں وہاں نہیں پہنچ سکا جہاں یہ بندہ بھاگ کر پہنچا ہوگا، کیونکہ ہندوستانی لوگ بہت اچھے داستان گو ہوتے ہیں اور اس نے تو خوب مرچ مسالا لگا کر بتایا ہوگا کہ کیسے وہ ایک پاگل انگریز کے ہاتھ سے بچ کر نکلا ہے۔ بہادر نے یہ سب اپنے درخت سے دیکھا اور جب وہ میرے پاس پہنچا تو اس نے کہا کہ "یہ بندہ اب کئی سال تک مشہور داستان گو رہے گا، اگرچہ لوگ اس کی بات پر یقین نہیں کریں گے۔"

جب کسی خطرناک درندے کے شکار پر پیدل جانا ممکن نہ ہو تو عام طور پر ہاتھیوں، انسانوں یا ان دونوں کی مدد سے ہانکا کرا کے درندے کا شکار کیا جاتا ہے۔ میری یاداشت میں تین ایسے ہانکے ہیں جن میں سے دو کے لیے انتہائی کم افراد تھے جبکہ تیسرے کے بارے سوچنے پر ہر بار میرا دل رُک سا جاتا ہے۔

پہلا ہانکا

روبن ہمارے کتے کا نام تھا اور ایک بار جب اس کے ساتھ میں صبح کی سیر کو نکلا تو میرا رخ آدھا میل دور دریائے بور پر بنے پل والے فائر ٹریک کی جانب تھا۔ حسبِ معمول روبن آگے اور میں پیچھے تھا۔ جب راستے پر ایک جگہ چھدری گھاس آئی تو روبن رکا اور گھاس سونگھ کر اس نے میری جانب دیکھا۔ میں آگے بڑھا تو پگ دکھائی نہ دیے، اس لیے میں نے اسے تعاقب جاری رکھنے کا اشارہ کیا۔ فوراً ہی وہ بائیں جانب مڑا اور کنارے پر موجود گھاس کے ایک پتے کو بغور سونگھا اور پھر میری طرف مڑ کر اشارہ کیا کہ اسے کوئی غلط فہمی نہیں ہوئی۔ پھر وہ اسی جانب کی گھاس میں داخل ہو گیا جو ڈیڑھ فٹ اونچی تھی۔ سو گز تک محتاط انداز میں چلتے ہوئے ہم ایک چھوٹے سے گڑھے تک پہنچے جہاں کی نرم مٹی پر شیر کے پگ دکھائی دیے۔ گڑھے کے دوسرے سرے پر روبن نے گھاس کے ایک پتے کو بغور سونگھا۔ میں آگے بڑھا تو خون کا ایک دھبہ دکھائی دیا۔ جنگل میں دوسروں کے زخمی کیے درندوں سے میں بہت محتاط رہتا ہوں اور شیر کے پگ کے ساتھ جب خون دکھائی دے تو فطری طور پر مزید محتاط ہو جاتا ہوں۔ تاہم خون کا یہ نشان بالکل تازہ تھا اور صبح سے اس علاقے میں کوئی فائر نہیں ہوا تھا۔ اس لیے مجھے یقین تھا کہ شیر نے چیتل یا شاید ایک بڑا سور مارا ہے اور اسے لے کر جا رہا تھا۔ چند گز آگے چل کر 50 مربع گز پر پھیلی ہوئی ایک گھنی جھاڑی کے پاس جا کر روبن رک کر میری جانب دیکھنے لگ گیا۔

پگوں کے مشاہدے سے مجھے پتہ چل چکا تھا کہ یہ وہی بڑا شیر ہے جس نے دریائے بور کے دوسرے کنارے پر گھنے جنگل میں رہائش رکھی ہوئی ہے اور تین ماہ سے، جب سے ہم پہاڑ سے نیچے اترے تھے، یہ شیر میرے لیے سر درد بنا ہوا تھا۔ دو سڑکوں اور ایک فائر ٹریک جہاں میں اور میگی صبح اور شام کی سیر کے لیے گھنے جنگل سے گذرتے تھے اور کئی بار جب میں گھر نہیں تھا تو میگی اور روبن کی سیر کے دوران میں اس شیر نے ان کا راستہ روکا تھا۔ اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ میگی اور روبن کے لیے یہ راستے محفوظ نہیں رہے تھے اور پل عبور کرنے کے بعد روبن اکیلے میگی کے ساتھ جانے سے انکار کر دیتا تھا۔ کسی ناگہانی حادثے سے بچنے کے لیے میں نے پہلا موقع ملتے ہی اس شیر کو مار دینے کا منصوبہ بنا لیا تھا۔ اب اگر شیر اس جھاڑی میں اپنے شکار کے ساتھ لیٹا ہوتا تو میرے لیے یہ عمدہ موقع تھا۔ چونکہ ہم نے ہوا کے رخ پر شیر کا پیچھا کیا تھا، اس لیے لمبا چکر کاٹ کر ہم دوسری جانب جا پہنچے اور روبن نے سونگھ کر تسلی کی کہ شیر اسی جھاڑی میں موجود ہے۔ پھر ہم فائر ٹریک کے راستے گھر کو روانہ ہو گئے۔ ناشتے کے بعد میں نے بہادر کو بلایا اور اسے شیر کے بارے بتاتے ہوئے ہدایت کی کہ وہ دھنبن اور دھرمانند کو لے آئے۔ دونوں افراد میری ہدایات پر من و عن عمل کرتے اور ہم چاروں افراد درختوں پر چڑھنے کے ماہر تھے۔ دوپہر کو تینوں افراد کھانا کھا کر ہمارے گھر پہنچ گئے۔ ان کی جیبوں سے آواز پیدا کرنے والی تمام چیزیں نکال کر میں نے ان کے جوتے اتروائے اور اعشاریہ 450/400 بور کی رائفل کے ساتھ چل پڑے۔ راستے میں میں نے ساتھیوں کو منصوبہ بتایا کہ ہانکا کیسے کرنا ہے۔ ہم سب اس جنگل سے بخوبی واقف تھے اور میں نے انہیں بتایا کہ شیر کس جگہ موجود ہے اور ہانکا کس طرح کرنا ہے تو ان کا جوش دیدنی تھا۔ میرا منصوبہ یہ تھا کہ یہ تین افراد تین جانب سے جھاڑی کے کنارے درختوں پر چڑھ کر شیر کو نکالتے اور میں چوتھی جانب شیر کا منتظر ہوتا۔ بہادر درمیان میں ہوتا اور تیندوے کی آواز کا میرا اشارہ پاتے ہی بہادر درخت کی شاخ پر لکڑی مارتا۔ اگر شیر کسی جانب سے نکلنے کی کوشش کرتا تو اس جانب والا بندہ تالی بجا کر شیر کا رخ موڑ دیتا۔ اس سارے منصوبے کی کامیابی کا راز خاموشی میں مضمر تھا کہ درخت کو جاتے، درخت پر چڑھتے یا میرے اشارے کے انتظار میں بیٹھے ہوتے اگر ذرا سی بھی آواز پیدا ہوتی تو شیر فرار ہو جاتا کہ ہمارا فاصلہ شیر سے 30 سے 40 گز تھا۔

جہاں روبن نے شیر کی بو سونگھی تھی، اس جگہ پہنچ کر میں نے بہادر کو ساتھ لیا اور باقی دو ساتھی وہیں بٹھا دیے۔ جھاڑی سے بیس گز دور میں نے بہادر کو ایک درخت پر چڑھا دیا۔ پھر باری باری باقی دونوں افراد کو مطلوبہ درختوں پر چڑھا دیا۔ تینوں ایک دوسرے کو دیکھ سکتے تھے اور گھاس کے اندر بھی۔ تاہم میں بہادر کے عین مخالف سمت جا کر بیٹھتا اور یہ تینوں افراد درختوں کی وجہ سے میری نظر سے اوجھل ہوتے۔ ساتھیوں کو بٹھا کر واپس اسی جگہ لوٹ کر میں نے فائر ٹریک پکڑا اور سو گز دور پہنچا جہاں ایک اور فائر ٹریک گذرتا تھا۔ یہ راستہ جھاڑی کی چوتھی جانب تھا۔ بہادر کے درخت کے مخالف سمت ایک کھائی پہاڑی کے پہلو کی جانب جاتی تھی اور اس میں جانوروں کی عام گذرگاہ تھی۔ مجھے پورا یقین تھا کہ شیر مداخلت کی بو سونگھتے ہی اسی کھائی کے راستے فرار ہوگا۔ کھائی کے دائیں جانب دس گز دور جامن کا ایک بڑا درخت تھا۔ ہانکے کا منصوبہ بناتے وقت میرا خیال تھا کہ میں اسی درخت پر بیٹھوں گا اور جونہی شیر نیچے کھائی سے گذرے گا تو اسے شکار کر لوں گا۔ تاہم پاس پہنچا تو دیکھا کہ بھاری رائفل کے ساتھ اس درخت پر چڑھنا ممکن نہیں تھا۔ چونکہ آس پاس کوئی اور درخت نہیں تھا، اس لیے میں نے زمین پر بیٹھنے کا فیصلہ کیا۔ درخت کے نیچے خشک پتے ہٹا کر تنے سے پیٹھ لگا کر بیٹھ گیا۔

تیندوے کی آواز والے اشارے کے دو فائدے تھے۔ پہلا یہ کہ بہادر اس اشارے کو سمجھ کر درخت پر لکڑی مار کر آواز پیدا کرتا اور دوسرا یہ کہ شیر کو احساس ہوتا کہ اس طرف جانا محفوظ ہے۔ اسے یہ احساس نہ ہوتا کہ اسے خطرناک جگہ بھیجا جا رہا ہے۔ آرام سے بیٹھ کر میں نے رائفل کا سیفٹی کیچ ہٹایا اور رائفل شانے سے لگا کر میں نے تیندوے کی آواز نکالی۔ چند لمحے بعد بہادر نے درخت پر لکڑی مار کر آواز پیدا کرنا شروع کی۔ چند ہی سیکنڈ بعد فائر ٹریک کے کنارے کی جھاڑیوں سے شیر نکلا اور وہیں رک گیا۔ دس سال سے میں شیر کی اس حالت میں وڈیو بنانے کی کوشش کر رہا تھا اور ہر بار ناکام رہا۔ اب یہ شیر میرے سامنے عین اسی پوز میں کھڑا تھا۔ مجھ سے بیس گز دور بالکل سامنے شیر کھڑا تھا اور سورج کی روشنی میں اس کی سرمائی کھال چمک رہی تھی۔ اس شیر کی تصویر کی خاطر میں دنیا کے کسی بھی کنارے جانے اور کوئی بھی قیمت ادا کرنے کو تیار تھا۔ بہت بار میں نے کسی درندے کا پیچھا کر کے اس کے پاس پہنچ کر احتیاط سے نشانہ لے کر رائفل جھکائی اور پھر ہیٹ لہرا کر اس جانور کو اپنی موجودگی سے آگاہ کیا۔ جب وہ زندہ سلامت بھاگ جاتے تو مجھے بہت خوشی ہوتی۔ اس شیر کے ساتھ بھی ایسا کر کے مجھے بہت خوشی ہوتی لیکن ایسا ممکن نہیں تھا۔ محض میگی ہی نہیں بلکہ شیر سنگھ اور دیگر لڑکے بالے اور عورتیں جنگل سے لکڑیاں جمع کرنے جاتی تھیں۔ اگرچہ اس شیر نے ابھی تک کوئی نقصان نہیں پہنچایا تھا لیکن اس کا رویہ بہت خوفناک تھا اور عین ممکن تھا کہ کسی دن کوئی حادثہ ہو جاتا۔

فائر ٹریک پر پہنچ کر شیر ایک یا دو منٹ رک کر اپنے دائیں، بائیں اور بہادر کی سمت دیکھتا رہا اور پھر آرام سے فائر ٹریک عبور کر کے کھائی کی بائیں جانب پہاڑی کے اوپر چڑھنے لگا۔ جونہی شیر جھاڑیوں سے نکلا، میں نے اس کا نشانہ لے لیا تھا اور جب وہ میری سیدھ پر پہنچا تو میں نے گولی چلا دی۔ گولی لگتے ہی اس کی ٹانگیں مڑیں اور شیر پھسلتا ہوا سیدھا میرے قدموں میں آن رکا۔ مرنے سے قبل اس نے شاید اس گولی کی آواز تک نہ سنی ہوگی۔

دوسرا ہانکا

جب مہاراجہ جند کا انتقال ہوا تو ان کی عمر کافی ہو چکی تھی۔ ان کے انتقال سے ہندوستان کے ایک بہترین شکاری کا دور ختم ہوا۔ ان کی سلطنت کل 1299 مربع کلومیٹر پر پھیلی ہوئی تھی اور آبادی 3٫24٫700 پر مشتمل تھی۔ ان سے ملاقات میری خوش قسمتی تھی۔ ان کے مشاغل میں شکاری کتوں کو تربیت دینا اور شیروں کا شکار کرنا شامل تھے اور ان دونوں میں ان کا ثانی دور دور تک کوئی نہیں تھا۔ جب پہلی بار ملاقات ہوئی تو ان کے پاس 400 کتے تھے اور کتوں کو تربیت دیےئ اور پھر شکار کے دوران میں عملی تربیت صبر اور نرمی کا عمدہ نمونہ تھی۔ صرف ایک بار میں نے انہیں چلاتے یا چابک استعمال کرتے دیکھا۔ اس رات مہارانی نے کھانے کے دوران میں پوچھا کہ کتوں کی تربیت کیسی رہی تو مہاراجہ نے بتایا کہ سینڈی بہت بدتمیز ہے اور اسی وجہ سے اس نے خوب مار کھائی ہے۔

"خوب مار" کی وضاحت کرتا چلوں۔ مہاراجہ اور میں اس روز پرندوں کے شکار پر نکلے ہوئے تھے۔ جنگل اور گھاس کی لمبی پٹی کا ہانکا کیا جا رہا تھا اور ہانکے میں آدمی اور ہاتھی، دونوں شامل تھے۔ دوسرے سرے پر 50 گز چوڑا ایک کھلا قطعہ تھا جہاں مہاراجہ اور میں ایک دوسرے سے چند گز دور کھڑے تھے۔ مہاراجہ کے بائیں جانب قطار میں تین لیبریڈور نسل کے کتے تھے۔ سینڈی سنہرا جبکہ دیگر دو کالے تھے۔ ایک کالا تیتر اڑا تو مہاراجہ نے اسے شکار کر کے ایک کالے کتے کو بھیجا تاکہ وہ تیتر اٹھا لائے۔ پھر ایک جنگلی مرغ نکلا جسے میں نے شکار کیا تو مہاراجہ نے دوسرے کالے کتے کو اسے اٹھانے بھیجا۔ کئی مور بھی اڑے لیکن سامنے فائر ہوتے دیکھ کر وہ مڑ کر اونچے ہو گئے۔ اچانک ہمارے سامنے ایک خرگوش نکلا اور مہاراجہ کی طرف دوڑا۔ مہاراجہ اس وقت مڑ کر اپنے ملازم سے کوئی بات کر رہے تھے۔ پھر خرگوش نے رخ بدلا اور میرے سامنے سے گذرا۔ جب وہ مجھ سے کافی دور ہوا تو میں نے اس پر گولی چلائی اور خرگوش مڑ کر دوڑا اور مہاراجہ سے تیس گز دور پہنچ کر گر گیا۔ جونہی خرگوش گرا تو سینڈی اس کے پیچھے لپکا۔ مہاراجہ چلائے "سینڈی۔ سینڈی" لیکن سینڈی نے سنی ان سنی کر دی۔ دوسرے دونوں کتے اپنا اپنا شکار لا چکے تھے اور اب اس کی باری تھی اور اسے کون روک سکتا تھا۔ اس نے خرگوش اٹھایا اور میرے پاس لا کر رکھ دیا۔ جب سینڈی اپنی جگہ واپس جا کر بیٹھ گیا تو مہاراجہ نے اسے خرگوش لانے کا حکم دیا۔ جب سینڈی نے خرگوش کو اٹھایا تو مہاراجہ نے ہاتھ ہلا کر سینڈی کو دور جانے کو کہا۔ ہوتے ہوتے جب سینڈی اس جگہ پہنچا جہاں اس نے خرگوش کو پہلی بار اٹھایا تھا، مہاراجہ نے اسے وہیں ڈال کر واپس آنے کا حکم دیا۔ لٹکی دم اور جھکے کانوں کے ساتھ سینڈی واپس مہاراجہ کے پاس جا پہنچا۔ پھر انہوں نے ایک اور کتے کو خرگوش لانے کو بھیجا۔ پھر مہاراجہ نے اپنی بندوق ملازم کو دے کر اس سے چابک لیا اور سینڈی کو گردن کے پاس سے پکڑ کر "خوب مارا"۔ تاہم چابک سینڈی پر نہیں بلکہ اس کے دائیں اور بائیں زمین پر پڑتے رہے۔ جب مہاراجہ نے مہارانی کو اس بارے بتایا تو میں نے ایک ملازم سے پرچی لی کہ مہاراجہ کی قوتِ سماعت سے محروم تھے، اور اس پر لکھا کہ "اگرچہ سینڈی بہادر نے آج غلطی کی تھی لیکن وہ پورے ہندوستان کا بہترین کتا ہے اور اگلے سالانہ مقابلے میں جیتے گا۔" بعد میں اس سال مجھے ایک دن مہاراجہ کا تار ملا کہ "آپ نے درست کہا تھا۔ سینڈی نے مقابلہ جیت لیا ہے۔"

دن لمبے اور گرم ہو رہے تھے، اس لیے میں علی الصبح دس میل دور موہن میں مہاراجہ کے کیمپ جانے کو نکلا اور ناشتے کے وقت جا پہنچا۔ جونہی میں ناشتے کی میز پر بیٹھا، مہاراجہ بولے کہ "آپ بروقت پہنچے ہیں۔ ہم آج اس بوڑھے شیر کے پیچھے جانے والے ہیں جو تین سال سے مسلسل بچ رہا ہے۔" اس شیر کا تذکرہ میں بہت بار سن چکا تھا اور یہ بھی جانتا تھا کہ مہاراجہ اسے شکار کرنے کو کتنے بے چین ہیں۔ اس لیے جب مہاراجہ نے بہترین مچان اور رائفل دینے کی پیشکش کی تو میں نے بہت نرمی سے انکار کر دیا کہ میں محض تماشائی رہوں گا۔ دس بجے مہاراجہ اور مہارانی اپنی دو بیٹیوں، ایک خاتون دوست اور میں کاروں پر سوار ہو کر اس جگہ روانہ ہوئے جہاں ہانکے والے ہمارے منتطر تھے۔

ہانکے کی جگہ وادی پہاڑ کے دامن تک چلی جاتی تھی اور اس میں ایک بل کھاتی ندی گذرتی تھی اور دو اطراف پر 300 فٹ اونچی پہاڑیاں تھیں۔ اس کے نچلے سرے پر جہاں سے سڑک گذرتی ہے، وادی کی چوڑائی 50 گز تھی اور نصف میل اوپر جا کر پھر اتنی ہی رہ جاتی تھی۔ درمیان میں وادی کی چوڑائی 300 سے 400 گز تھی اور ایک جگہ کئی سو ایکڑ پر محیط گھنی جھاڑیوں کے قطعہ تھا جہاں شکاریوں کے خیال میں شیر پچھلے دن کے شکار کردہ بھینسے کے ساتھ لیٹا ہوا تھا۔ وادی کے اوپری سرے پر ایک چھجا سا تھا جس پر موجود درخت پر مچان بنی تھی۔ اس جگہ سے پوری وادی کا مشاہدہ کیا جا سکتا تھا۔ چھجے کے پیچھے جہاں ندی زاویہ قائمہ پر مڑتی تھی، دو اور مچانیں تیس تیس گز کے فاصلے پر بنی تھیں۔

سڑک پر کاروں سے نکل کر ہم میرِ شکار اور سیکریٹری کے ساتھ شیر کی کمین گاہ کے بائیں جانب سے ہو کر آگے بڑھے۔ جب مہاراجہ اور ان کے بندوق بردار نے مچان پر اپنی جگہ سنبھال لی تو چاروں خواتین اور میں دوسری مچانوں پر جا کر بیٹھ گئے۔ پھر میرِ شکار اور سیکریٹری سڑک کو واپس لوٹے تاکہ ہانکا شروع کیا جا سکے۔

میرے ساتھ مچان پر دو شہزادیاں بھی بیٹھی تھیں اور انتہائی مضبوط مچان پر موٹا قالین اور ریشمی گدے بچھے تھے۔ مجھے درخت کی سخت شاخوں پر بیٹھے کی عادت تھی، اس لیے صبح جلدی اٹھنے اور پھر لمبا پیدل سفر کرنے کے بعد مجھے اب اس آرام دہ مچان پر اونگھنے لگا کہ دور سے بگل کی آواز سنائی دی اور ہانکا شروع ہو گیا۔ ہانکے میں میرِ شکار، سیکریٹری، مہاراجہ کے گھریلو ملازمین، مہاراجہ کے نائبین، اے ڈی سیز، اور نزدیکی دیہاتوں سے دو سو افراد کے علاوہ 10 ہاتھی بھی شامل تھے۔ نیچے موجود گھنی جھاڑیوں کے ہانکے کے واسطے ہاتھی تھے جن پر مہاراجہ کے عملے کے افراد سوار تھے جبکہ باقی ہانکا دو سو دیہاتی کر رہے تھے۔ ان میں سے کچھ افراد دونوں اطراف قطار بنا کر ہانکے سے آگے چل رہے تھے تاکہ شیر ادھر سے فرار نہ ہو سکے۔

ہانکے کے نظام اور ہانکے کا مشاہدہ کرنا میرے لیے بہت دلچسپی کا باعث تھا کیونکہ ابھی تک میں ہانکے کے دوران میں شکار کے لیے بیٹھتا رہا تھا اور اب تماشائی بن کر دیکھ رہا تھا۔ ہانکے کے بندوبست یا ہانکے میں کوئی کمی یا خامی نہیں تھی۔ دن کا بہترین وقت چنا گیا تھا اور ہم لوگ انتہائی خاموشی سے مچانوں پر جا بیٹھے تھے اور ہانکے سے نکلنے والے جانوروں اور پرندوں کی تعداد سے اس کی کامیابی کا بخوبی اندازا لگایا جا سکتا تھا۔ ہانکا ہمیشہ پُر تجسس ہوتا ہے کہ انسانوں کی آواز سنتے ہی شیر چل پڑتا ہے۔ مہاراجہ کی وقتِ سماعت تو کام نہیں کر رہی تھی لیکن ان کے پاس ایک بندہ اسی لیے موجود تھا۔ اچانک میں نے دیکھا کہ اس بندے سے دائیں جانب اشارہ کیا۔ مہاراجہ اس جانب ایک یا دو لمحے دیکھتے رہے اور پھر سر ہلایا۔ فوراً ہی ایک سانبھر اسی جانب سے نکلا اور ندی عبور کر کے مہاراجہ کے پاس سے گزر کر غائب ہو گیا۔

بائیں پہاڑی پر ہانکے والوں کی قطار دکھائی دے رہی تھی اور شیر کسی وقت بھی سامنے آ سکتا تھا۔ ہر بندہ شور مچاتا اور تالیاں بجاتا ہوا بڑھتا آیا اور ہر قدم پر شیر کے نکلنے کی توقعات کم ہوتی گئیں کیونکہ کسی جانور یا پرندے سے شیر کی موجودگی کی اطلاع نہیں آئی تھی۔ میری مچان پر موجود شہزادیاں چوکنی ہو گئی تھیں اور مہاراجہ رائفل تانے گولی چلانے کو تیار بیٹھے تھے۔ تاہم شیر اس جگہ موجود نہیں تھا۔ سیڑھیاں آئیں اور ہم سب انتہائی مایوس ہو کر نیچے اتر آئے۔ کسی کو بھی شیر دکھائی نہ دیا تھا اور کوئی بھی یہ نہ بتا سکا کہ غلطی کہاں ہوئی ہے۔ ظاہر ہے کہ کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی غلطی تو ہوئی تھی کیونکہ ہماری آمد سے ذرا دیر قبل شیر اسی وادی میں دھاڑا تھا۔ مجھے شک تھا کہ شاید میں اس ناکامی کا سبب جانتا ہوں، مگر تماشائی ہونے کی وجہ سے میں خاموش ہی رہا۔ دوپہر کا کھانا کھا کر ہم لوگ کیمپ لوٹے اور بقیہ وقت دریائے کوسی پر مچھلیاں پکڑتے اور آرام کرتے گذارا۔ اپریل کا اختتام چل رہا تھا اور مچھلی کے شکار کا بہترین وقت تھا۔

رات کو کھانا کھاتے وقت انتہائی باریک بینی کے ساتھ اس ہانکے اور سابقہ تمام ہانکوں اور ان کی ناکامیوں اور ممکنہ وجوہات پر تفصیلی بحث کی گئی۔ پہلی بار اس وادی میں ہانکے پر شیر مہاراجہ کی مچان کو گیا تھا اور مشکل زاویے سے چلائی گئی گولی خطا گئی تھی۔ تین سال کے دیگر ہانکوں پر شیر کبھی بھی دکھائی نہ دیا، اگرچہ ہانکا شروع ہونے سے قبل وہ وادی میں موجود ہوتا تھا۔ جتنی دیر دیگر افراد یہ بحث کرتے رہے، میرے ذہن میں ایک منصوبہ تیار ہوتا رہا۔ میں نے اس شیر کے شکار میں مہاراجہ کی مدد کرنےکا فیصلہ کر لیا۔ جب ہم شیر کی ممکنہ کمین گاہ سے ہو کر مچان کو گئے تو ایک غلطی سرزد ہوئی تھی۔ لیکن ہانکے کی ناکامی کی وجہ یہ غلطی نہیں تھی کیونکہ جس وقت ہم لوگ وادی میں داخل ہوئے تھے، عین اسی وقت شیر وادی سے نکل گیا تھا۔ کاروں سے اترنے کے کچھ دیر بعد وادی کے دوسرے سرے سے کاکڑ کی آواز میرے تجربے کے مطابق شیر کی روانگی کو ظاہر کرتی تھی۔ ہانکے کی ناکامی کے بعد میں نے وادی پر طائرانہ نگاہ ڈالی کہ مچان سے بچ نکلنے کا کوئی اور راستہ تو نہیں۔ مچان کے پیچھے پہاڑی پر ایک لینڈ سلائیڈ شروع ہوتی تھی۔ کاکڑ اسی لینڈ سلائیڈ کے اوپری سرے پر بولا تھا۔ اگر اس جگہ سے جانوروں کی کوئی گذرگاہ نیچے اس جگہ جاتی ہو جہاں شیر اپنے شکار سمیت موجود تھا، تو ظاہر ہے کہ شیر ہر بار اسی راستے سے ہی بچ نکلتا ہوگا۔

جتنی دیر دیگر لوگ بحث کرتے رہے، میں نے یہ منصوبہ بنایا کہ مہاراجہ کو پہاڑی پر لینڈ سلائیڈ کے اوپری سرے پر اسی جگہ بٹھا دوں جہاں کاکڑ بولا تھا اور پھر ہانکا کروں۔ سارے ہی شرکاء اگلے دن ہانکے کے خلاف تھے کہ جب شیر تازہ شکار پر موجود نہیں تھا تو اگلے دن ہانکے کی کیا تُک۔ اگر میرا منصوبہ ناکام بھی رہتا تو بھی کوئی فرق نہیں پڑنا تھا کہ کسی قسم کا انتظام نہیں کرنا تھا۔ سیکریٹری سے ایک پرچی لے کر اس پر میں نے لکھا کہ "اگر آپ کل صبح 5 تیار ہوں تو میں اکیلا ہانکا کر کے دکھاؤں گا کہ آج والا ہانکا کیوں کر ناکام رہا۔" میری امید کے عین مطابق سارے عملے نے اس کی شدید مخالفت کی۔ تاہم مہاراجہ نے میرے منصوبے پر عمل کی حامی بھر لی اور طے پایا کہ صبح وہ دو بندوق برداروں کے ساتھ تیار ہوں گے۔

ٹھیک 5 بجے مہاراجہ، ان کے دو ملازمین اور میں کار پر بیٹھ کر تین میل دور اس جگہ پہنچے جہاں ایک ہاتھی پر ایک چھوٹی مچان لگی ہوئی تھی۔ مہاراجہ اور ان کے ملازمین کو ہاتھی پر سوار کر کے میں انہیں کئی میل کے ایسے سفر پر لے کر نکل پڑا جس کے راستے کے بارے مجھے کچھ بھی علم نہیں تھا۔ خوش قسمتی سے مجھے اندھیرے میں بھی سمتوں اور فاصلوں کے تعین میں مشکل نہیں ہوتی۔ اسی لیے اگرچہ ہم اندھیرے میں ہی روانہ ہوئے لیکن سورج طلوع ہونے تک ہم لینڈ سلائیڈ تک پہنچ گئے تھے۔ اس جگہ مجھے جنگلی جانوروں کی پگڈنڈی دکھائی دی جو سیدھا لینڈ سلائیڈ سے ہوتی ہوئی نیچے جنگل کو جا رہی تھی۔ اس راستے کے پاس میں نے ایک درخت پر مچان باندھی۔ مہاراجہ اور ان کے ایک بندوق بردار کو مچان پر بٹھا کر میں نے ہاتھی کو واپس بھیج دیا اور دوسرے ملازم کو دوسرے کنارے کے درخت پر چڑھا دیا۔ جب یہ کام پورا ہو گیا تو میں اکیلا ہانکے کو نکلا۔

وادی میں نیچے اترنے کا راستہ انتہائی ڈھلوان اور مشکل تھا لیکن چونکہ میں خالی ہاتھ تھا، اس لیے بحفاظت نیچے پہنچ گیا۔ پچھلے روز والی مچانوں کے پاس سے گزر کر میں انتہائی خاموشی سے وادی میں اترا۔ اس جگہ سے 200 گز آگے جا کر کہ جہاں میرے اندازے کے مطابق شیر لیٹا ہوگا، میں نے واپسی کا رخ کیا اور ہلکی آواز میں خود کلامی شروع کر دی۔ جہاں شیر نے بھینسے کو گھسیٹ کر گھنی جھاڑیوں میں چھپایا تھا، اس جگہ ایک درخت گرا ہوا تھا۔ اس درخت پر بیٹھ کر میں نے سگریٹ سلگائی اور بغور جنگل کی طرف کان لگا دیے۔ ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ چند بار کھانس کر میں نے کھوکھلے درخت کے تنے سے ایڑیاں بجائیں اور پھر آگے بڑھا تاکہ دیکھ سکوں کہ آیا شیر واپس لوٹا تھا یا نہیں۔ گھنی جھاڑیوں میں چھپی بھینسے کی لاش سے شیر چند منٹ قبل ہی گوشت کھا رہا تھا۔ جس جگہ وہ لیٹا تھا، وہ جگہ ابھی تک گرم تھی۔ واپس گرے ہوئے درخت کو لوٹ کر میں نے پتھر سے تنے کو زور زور سے بجایا اور چیخ کر مہاراجہ کے ملازم کو اطلاع دی کہ شیر آ رہا ہے۔ ایک یا دو منٹ بعد ہی اوپر سے گولی کی آواز سنائی دی۔ جب میں واپس اوپر پہنچا تو دیکھا کہ مہاراجہ شیر کی لاش کے پاس کھڑے تھے۔

جند کے محل میں، جس پر اب مہارجہ کے بیٹے کی حکومت ہے، میں ایک شیر کی کھال لٹکی ہے جس پر لکھا ہے "جم کا شیر"۔ مہاراجہ کی شکار کی ڈائری میں اس شیر کے شکار کی تاریخ مقام اور حالات کا تفصیلی ذکر ہے۔

تیسرا ہانکا

یادگار شکار کا آخری دن تھا۔ یادگار صرف ان کے لیے نہیں جنہوں نے اس میں حصہ لیا تھا بلکہ یہ ملکی انتظامیہ کے لیے بھی یادگار رہا کہ پہلی بار وائسرائے نے معمول سے انحراف کر کے چند دن کالاڈھنگی میں گذارے تھے۔

ہندوستان کے وائسرائے سے زیادہ کسی اور انسان کی حرکات و سکنات اصولوں کی پابند نہیں ہوتیں۔ اس سے انحراف کے بارے کبھی سوچا بھی نہیں گیا۔ اسی لیے جب لارڈ لن لتھ گو نے جب وائسرائے کا عہدہ سنبھالا تو کچھ عرصے بعد انہوں نے اپنے پیشروؤں کے راستے سے ہٹنے کا فیصلہ کیا تو پوری انتظامیہ میں کھلبل مچ گئی۔ لارڈ لن لتھ گو نے فیصلہ کیا کہ دہلی کے دفتر کے بند ہونے اورشملہ کے دفتر کے کھلنے کے درمیان میں دس دن حسبِ روایت جنوبی اضلاع میں نہیں گذاریں گے، تو ان کا فیصلہ کسی کو بھی اچھا نہیں لگا۔

ایک عام انسان کے طور پر مجھے حکومتی اداروں کے اندر کام کا طریقہ نہیں معلوم۔ مارچ کے اختتام پر ایک دن کالاڈھنگی اپنے گھر سے میں مچھلی پکڑنے کے لیے نکل ہی رہا تھا کہ رام سنگھ تار لیے آن پہنچا۔ رام سنگھ کی ذمہ داری تھی کہ روزانہ دو میل دور ڈاکخانے سے ہماری ڈاک لے آئے۔ اس نے بتایا کہ پوسٹ ماسٹر نے اسے تاکید کی ہے کہ یہ بہت اہم تار ہے۔ وائسرائے کے ملٹری سیکریٹری ہف سٹیبل کا یہ تار نینی تال سے ہو کر ادھر آیا تھا۔ تار میں درج تھا کہ وائسرائے کا جنوبی ہند کا دورہ منسوخ ہو گیا ہے اور کیا میں وائسرائے کے دس روزہ قیام اور ہلکے پھلکے شکار کے لیے کوئی تجویز دے سکتا ہوں؟ آخر میں یہ بھی درج تھا کہ وقت کم ہے اور فوری جواب درکار ہے۔ اگرچہ رام سنگھ انگریزی نہیں بول سکتا لیکن 30 سال سے ہمارا ملازم ہے اور اچھی خاصی انگریزی سمجھ لیتا ہے۔ جب میں نے تار میگی کو سنایا، رام سنگھ بولا کہ وہ اپنا کھانا کھا کر چند منٹ میں میرا جواب ہلدوانی کو لے جانے کو تیار ہو جائے گا۔ ہلدوانی کا تار گھر یہاں سے 14 میل دور تھا۔ اگر رام سنگھ میرا جواب لے جاتا تو مجھے ڈاک کے ہرکارے سے بھیجنے کی ضرورت نہ پڑتی اور 24 گھنٹے بچ جاتے۔ میں نے تار لکھا کہ "کل صبح گیارہ بجے ہلدوانی کے فون پر رابطہ کریں"۔ جب رام سنگھ چلا گیا تو میں نے پھر اپنا راڈ اٹھایا اور مچھلی کے شکار کو روانہ ہو گیا۔ مچھلی کے شکار کے دوران میں سوچنے کا عمدہ موقع ملتا ہے اور ویسے بھی رات کے کھانے کے لیے مچھلی بھی پکڑنی تھی۔ ہف کا تار ہنگامی امداد کی درخواست لیے ہوئے تھا اور یہ مجھ پر منحصر تھا کہ میں کیسے مدد کرتا ہوں۔

کوٹا روڈ پر دو میل دور پہنچ کر میں نے فارم یارڈ کے نچلے سرے کا رخ کیا جہاں میں نے اپنا پہلا تیندوا مارا تھا اور دریا پر بنے ایک تالاب پر جا پہنچا جہاں تین پاؤنڈ وزنی مہاشیر مچھلیاں عام مل جاتی تھیں۔ پہنچتے ہی میں نے ریت پر صبح کو گذرنے والے ایک شیر کے پگوں کے نشانات دیکھے۔ تالاب کے سرے پر جہاں پانی گہرا اور تیز ہو جاتا تھا، پر تین بڑی چٹانیں ہیں اور پانی سے اڑتی جھاگ ان پر مسلسل پڑتی رہتی ہے اور یہ چٹانیں شیشے کی طرح پھسلوان ہیں۔ دریا عبور کرنے کے لیے تیندوے ان چٹانوں سے کودتے ہوئے گذرتے ہیں۔ ایک دن ایک شیر کو بھی میں نے اسی طرح دریا عبور کرنے کی کوشش کرتے دیکھا۔ میں اس شیر کے پیچھے تقریباً ایک میل سے لگا ہوا تھا اور دو بار اس کے اتنے قریب پہنچ گیا کہ گولی چلا سکتا تھا لیکن اس وجہ سے گولی نہیں چلائی کہ مجھے اس کی فوری موت کا یقین نہیں تھا۔ شیر کو میرے تعاقب کا علم نہیں ہو سکا۔ جب مجھے یقین ہو گیا کہ شیر کا رخ دریا کی جانب ہے تو مجھے اطمینان ہوا کہ دریا عبور کرتے شیر پر گولی چلانا آسان ہو جائے گا۔ دریا پر پہنچتے ہی واضح ہو گیا کہ شیر تیرنے کی بجائے ان پتھریلی چٹانوں کی مدد سے دریا کو عبور کرنا چاہتا ہے۔ یہ بات میرے منصوبے کے مطابق تھی کہ میری جانب دریا تک جانے کے لیے 20 فٹ کی کٹائی تھی۔ جب شیر اس سے نیچے اترنے لگا تو میں دوڑ کر اونچے کنارے پر لیٹ گیا۔

پانی میں تین چٹانیں اتنے فاصلے پر موجود تھیں کہ تیز دوڑنے والا بندہ کچھ فاصلے سے دوڑے تو اسے چھلانگ لگا کر عبور کر سکتا تھا۔ ایک بار میں نے تیندوے کو آرام سے چھلانگیں لگا کر انہیں عبور کرتے دیکھا تھا۔ جب میں نے کنارے سے سر ابھار کر دیکھا کہ شیر نے بھی پہلی چٹان آرام سے عبور کی اور دوسری پر پہنچتے ہی اس کے پیر پھسلے اور شیر سیدھا دریا میں جا گرا۔ پانی کے بہاؤ کی وجہ سے مجھے یہ تو سنائی نہ دیا کہ شیر نے کیا تبصرہ کیا ہوگا لیکن میں خود عین اسی پتھر پر ایک دفعہ پھسل چکا تھا۔ اس لیے مجھے شیر کے احساسات کا علم تھا۔ دوسرے کنارے پر مختصر سا ریتلا ساحل تھا۔ وہاں پہنچ کر شیر نے جھرجھری لی اور پھر ریت میں لوٹنے لگا تاکہ اس کی خوبصورت کھال گرم ریت میں خشک ہو جائے۔ فارغ ہو کر اس نے ایک اور جھرجھری لی اور پھر اپنی منزل کو روانہ ہو گیا کہ اسے مجھ سے اب کوئی خطرہ نہیں تھا۔ جنگل میں آپ کو محظوظ کرنے والے جانور کو نقصان پہنچانا شرافت نہیں۔ اس بار پگ خشک تھے جس کا مطلب یہ تھا کہ شیر نے ان چٹانوں پر بحفاظت دریا عبور کر لیا ہے۔

ان پتھروں کے نیچے ایک چٹان دوسرے کنارے سے نکلی ہوئی تھی جس کے نیچے پانی میں زیادہ تر مہاشیر مچھلیاں ہوتی تھیں۔ دو بار قبل بھی میں یہاں تین پاؤنڈ وزنی مچھلیاں پکڑ چکا تھا۔ تاہم درخت کی جھکی ہوئی ٹہنی اور مہاشیر کی احتیاط پسند طبعیت کی وجہ سے یہ کام قدرے مشکل ہو جاتا ہے۔ خیر، ریتلے کنارے سے آگے جا کر میں نے ڈوری پانی میں ڈالی اور اپنا پائپ نکال کر پینے لگ گیا۔ فوراً ہی مچھلی نے کانٹا نگل لیا۔ ہلکی بنسی کا یہ نقصان ہوتا ہے کہ جب مچھلی کانٹا نگل کر بھاگتی ہے تو اسے روکا نہیں جا سکتا۔ تاہم انتہائی احتیاط سے زور لگاتے ہوئے آپ مچھلی کو اس کی مطلوبہ پناہ گاہ تک جانے سے روک سکتے ہیں۔ تاہم یہ ضروری ہے کہ پناہ گاہ آپ کے مخالف کنارے پر ہو۔ جہاں مچھلی نے کانٹا نگلا تھا، اس سے 30 گز نیچے درخت کی ایک جڑ نکلی ہوئی ہے۔ دو بار پہلے بھی عین اسی جگہ مچھلیاں کانٹا توڑ کر نکل گئی تھیں۔ تاہم اس بار چند انچ کی دوری سے میں مچھلی کا رخ موڑنے میں کامیاب ہو گیا۔ ایک بار تالاب میں پہنچنے کے بعد مچھلی محفوظ ہو گئی تھی اور کچھ دیر اسے تھکانے کے بعد میں اسے ہاتھ سے پکڑ کر کنارے پر لے آیا۔ تین پاؤنڈ کی بجائے ساڑھے تین پاؤنڈ کی یہ مچھلی نہ صرف گھر بھر کے لیے کافی رہتی بلکہ میگی جس بیمار لڑکے کی نگہداشت کر رہی تھی، اس کے لیے بھی یخنی بن جاتی۔

بچپن میں رائفل کے حوالے سے مجھے جو مشورہ دیا گیا تھا کہ کسی بھی اہم فیصلے کے وقت عجلت نہیں کرنی چاہئے، اس لیے میں نے ہف سٹیبل کو گول مول سا پیغام بھیجنے کے بعد خوب سوچ بچار کرنے کے بعد فیصلہ کر لیا کہ کالاڈھنگی ہی وائسرائے کی چھٹیوں کا بہترین مقام ہو سکتا ہے۔ برآمدے میں میگی کی بنائی چائے پینے کے دوران میں ابھی ہم اس فیصلے پر گفتگو کر رہے تھے کہ بہادر آن پہنچا۔ بہادر پیٹ کا ہلکا نہیں اس لیے میں نے اسے بتایا کہ تار میں کیا لکھا تھا۔ جب بہادر خوش ہوتا ہے تو اس کے چہرے سے صاف دکھائی دیتا ہے لیکن اس بار خوشی اس کے انگ انگ سے پھوٹ رہی تھی۔ کالاڈھنگی جیسے مقام پر وائسرائے کی آمد؟ کبھی سنا بھی نہیں تھا۔ اس بارے عظیم بندوبست کرنا تھا اور خوش قسمتی سے سال کا بہترین وقت تھا جب انتظامات کرنا آسان تھے۔ فصلیں کٹ چکی تھیں اور پورے کا پورا گاؤں مدد کے لیے فارغ ہوتا۔ بعد میں جب یہ خبر پھیلی تو نہ صرف ہمارے مزارع بلکہ پورے گاؤں کے مرد ہر ممکن مدد کے لیے تیار تھے اور ان کی خوشی بہادر کی خوشی سے کم نہیں تھی۔ اس سے انہیں کوئی مالی فائدہ تو نہیں ملنا تھا لیکن ان کی محبت تھی کہ وہ اس دورے کو ہر ممکن طور پر کامیاب بنانے میں اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہتے تھے۔

اگلی صبح ہلدوانی کے لیے جب میں نکلا تو ابھی اندھیرا تھا۔ میرا ارادہ تھا کہ میں فتح پور میں جیف ہاپکنز سے ملتا اور ہف سٹیبل سے بات کرنے سے قبل ان سے بھی مشورہ لیتا۔ سات میل تک سڑک جنگل سے ہی گذرتی ہے اور اس وقت اس سڑک پر میں اور جنگلی جانور ہی تھے۔ کالاڈھنگی بازار سے ایک میل دوری پر جب روشنی ہونے لگی تو میں نے گرد میں ایک نر تیندوے کے تازہ پگ دیکھے جو اسی سمت جا رہا تھا۔ ایک موڑ پر دیکھا کہ تیندوا مجھ سے دو سو گز دور تھا۔ اسے میری موجودگی کا فوراً علم ہو گیا اور میرے موڑ مڑتے ہی تیندوے نے گردن گھما کر میری جانب دیکھا۔ تاہم سڑک پر چلتے ہوئے اور وقتاً فوقتاً مڑ کر دیکھتے ہوئے تیندوا اسی طرح چلتا رہا۔ جب ہمارا درمیانی فاصلہ گھٹ کر پچاس گز رہ گیا تو تیندوے نے چھلانگ لگائی اور سڑک کنارے ایک جھاڑی میں چھپ گیا۔ سیدھا چلتے اور سر کو سامنے رکھتے ہوئے میں نے کنکھیوں سے دیکھا کہ تیندوا سڑک سے محض چند گز دور دبکا بیٹھا تھا۔ سو گز دور جا کر جب میں نے سر گھما کر دیکھا تو تیندوا اب میرے پیچھے چل رہا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس کے لیے میں محض ایک مسافر تھا اور چند سو گز آگے جا کر تیندوا ایک کھائی میں گھس گیا۔ میل بھر تک اکیلے چلنے کے بعد جنگل کے دائیں جانب سے پانچ سرخ جنگلی کتے بھاگتے ہوئے نکلے۔ سبک رفتار اور نڈر یہ جانور جنگل میں بہ آسانی گھومتے ہیں اور جب بھوک لگے تو بہترین جانور شکار کرتے ہیں۔ میرے خیال میں ہندوستانی سرخ جنگلی کتوں سے بہتر زندگی اور کوئی جانور نہیں گذارتا۔

جیف اور زلا ہاپکنز ناشتا کرنے بیٹھ ہی رہے تھے کہ میں جا پہنچا۔ جب میں نے اپنے منصوبے کے بارے انہیں بتایا تو وہ بہت خوش اور پرجوش ہو گئے۔ جیف ان دنوں ترائی اور بھابھر کی ریاستوں کے جنگلات کے خصوصی افسر تھے اور ان کی مدد اور مشورے کے بغیر میں ہف کو کوئی مشورہ نہیں دے سکتا تھا۔ شکار کی نیت سے مجھے جنگل کے دو بلاک درکار تھے اور دونوں ہی اس وقت فارغ تھے اور جیف نے وعدہ کر لیا کہ وہ اس شکار کے لیے مختص ہوں گے۔ اس کے علاوہ انہوں نے ہمسائیہ جنگل کے داچوری بلاک کی بھی پیشکش کی جو انہوں نے اپنے شکار کے لیے الگ کیا ہوا تھا۔ شیر کے پگ دیکھنے، مہاشیر پکڑنے سے لے کر اب تک ہر چیز بہترین طریقے سے جا رہی تھی۔ جیف سے ہو کر میں سیدھا ہلدوانی کو روانہ ہو گیا۔

ہف نے ٹھیک گیارہ بجے مجھے فون کیا اور 300 میل طویل فون لائن پر کسی مداخلت کے بغیر اگلے ایک گھنٹے تک ہم گفتگو کرتے رہے۔ اس دوران میں نے ہف کو بتایا کہ ہمالیہ کے دامن میں کالاڈھنگی نامی ایک چھوٹا سا دیہات ہے جس کے جنگلات ہر قسم کی جنگلی حیات سے بھرے ہوئے ہیں اور میرے خیال میں پورے ہندوستان میں وائسرائے کی تعطیلات کے لیے اس سے بہتر جگہ تلاش کرنا ممکن نہیں۔ ہف نے مجھے بتایا کہ وائسرائے کی پارٹی میں وائسرائے اور ان کی بیوی، ان کی تین بیٹیاں این، جون اور ڈورین بھی شامل ہوں گی۔ اس کے علاوہ وائسرائے کا ذاتی عملہ بھی ساتھ آئے گا کیونکہ چھٹی پر ہونے کے باوجود وائسرائے ہند کو روزمرہ کے دفتری امور بھی سرانجام دینے ہوتے ہیں۔ آخری بات یہ پتہ چلی کہ مجھے تمام تر انتظامات کرنے کے لیے پندرہ دن کا وقت ہے۔ وائسرائے کے گھریلو عملے کا سربراہ ماؤس میکسوئل دہلی سے کالاڈھنگی اپنی کار پر اگلے روز آن پہنچا۔ اس کے بعد پولیس کا سربراہ، خفیہ پولیس کا سربراہ، سول انتظامیہ کا سربراہ، محکمہ جنگلات کا سربراہ اور پتہ نہیں کون کون سے سربراہ بھی آن پہنچے۔ سب سے خوفناک وہ فوجی افسر تھا جو وائسرائے کی حفاظت کے لیے فوجی دستہ ہمراہ لانے پر تیار تھا۔

بہادر نے ٹھیک ہی کہا تھا کہ وائسرائے کے لیے ہمیں عظیم بندوبست کرنا ہوگا۔ تاہم کتنا عظیم، یہ ہمارے خواب و خیال میں بھی نہ تھا۔ خیر، سارا گاؤں ہی پوری طرح مدد کے لیے تیار اور آمادہ تھا، اس لیے بغیر کسی مشکل کے ہر کام پورا ہوتا چلا گیا۔ چار ہانکے ہوئے اور چار گولیوں پر چار شیر شکار ہوئے اور ان کے شکاری وہ افراد تھے جنہوں نے پہلی بار جنگل میں شیر دیکھے تھے۔ اس دورے کے آخری دن اب وائسرائے کی سب سے چھوٹی بیٹی کی باری تھی جو ابھی تک خالی ہاتھ تھی۔ اس بار ہانکا نیم دائرے کی شکل میں ہونا تھا جہاں کبھی دریائے بور گذرتا تھا۔ اس وقت یہاں کافی گھنی جھاڑیاں اور درخت موجود تھے اور جگہ جگہ نال گھاس بھی پائی جاتی تھی اور اکا دکا نارنگیوں کے جھنڈ بھی تھے۔ پرانے دریا کے کنارے درختوں پر پانچ مچان باندھے گئے تھے اور ارادہ تھا کہ شیر کو ہانک کر انہی مچانوں کی طرف بھیجا جائے۔

لمبا چکر کاٹ کر ہم لوگ مچانوں تک پہنچے اور میں نے باری باری تمام افراد کو مچان پر بٹھایا۔ چکر کاٹنے کی وجہ یہ تھی کہ بہت سارے ہانکے اسی وجہ سے خالی جاتے ہیں کہ شکاری اسی جنگل سے گزر کر مچان کو جاتے ہیں جہاں شیر پہلے سے چھپا ہوتا ہے۔ ہانکے کے سٹاپ بھی ہمارے ساتھ تھے۔ جتنی دیر وہ پہلے سے مختص کردہ درختوں پر بیٹھتے، میں نے بہادر اور وائسرائے کے ایک اے ڈی سی پیٹر بوروک کے ساتھ شکاری پارٹی کو مچانوں پر بٹھانا شروع کر دیا۔ پہلی مچان پر میں نے این، دوسری پر وائسرائے، تیسری مچان ایک ٹنڈ منڈ جنگلی آلو بخارے کے درخت پر تھی اور میرا ارادہ تھا کہ بہادر اس پر بیٹھ کر سٹاپ کے فرائض سر انجام دے گا کیونکہ میرے خیال میں یہاں روکے جانے پر شیر بائیں جانب کا رخ کرتا اور وہاں موجود چوتھی مچان پر بنٹی ہوتی اور اس طرح وہ بھی شیر مار لیتی۔

جس جگہ شیر چھپا ہوا تھا، وہاں سے ایک پگڈنڈی سیدھی کنارے پر چڑھ کر مچان نمبر تین کے نیچے سے گذرتی تھی۔ مجھے یقین تھا کہ شیر اسی راستے پر چلتا ہوا سیدھا اس مچان تک پہنچے گا جو محض چھ فٹ بلندی پر تھی، اس لیے میں نے فیصلہ کیا کہ تجربہ کار سٹاپ کے لیے تو یہ مچان ٹھیک ہے لیکن شکاری کے لیے خطرناک ہو جائے گی۔ تاہم جب پیٹر، بہادر اور دو لڑکیوں کے ساتھ میں اس مچان تک پہنچا تو عین وقت پر نجانے کس خیال سے میں نے پروگرام بدل دیا اور بنٹی کو سرگوشی میں بتایا کہ یہ مچان اس کے لیے ہے۔ تاہم میں نے اسے ممکنہ خطرے کے بارے بھی بتا دیا اور یہ بھی کہ میں اس کے ساتھ پیٹر کو بٹھاؤں گا۔ بے جھجھک اس نے فوراً حامی بھر لی۔ میں نے زور دیا کہ ایک تو شیر پر تب تک گولی نہ چلائے جب تک شیر میرے لگائے نشان تک نہ پہنچ جائے، اور دوسرا یہ بھی کہ احتیاط سے شیر کے گلے کا نشانہ لینا ہے۔ جب اس نے دونوں باتوں کی حامی بھر لی تو پیٹر کے ساتھ مل کر میں نے اسے مچان پر بٹھایا اور پھر پیٹر کو سہارا دیا تاکہ وہ بھی مچان پر سوار ہو جائے۔ پھر اسے میں نے اپنی 400/450 بور کی ڈبل بیرل رائفل تھما دی۔ بنٹی کے پاس بھی اسی طرح کی رائفل تھی۔ پھر کنارے سے اتر کر میں نے ایک خشک لکڑی اٹھائی اور اسے ایک جگہ رکھ کر بنٹی کی طرف دیکھا تو اس نے سر ہلایا۔

لیڈی جون، بہادر اور میں اب چوتھی مچان کی طرف بڑھے۔ یہ مچان زمین سے 20 فٹ بلندی پر تھی اور یہاں سے 30 گز دور مچان نمبر 3 صاف دکھائی دیتی تھی۔ جون کو مچان پر بٹھا کر جب میں رائفل دینے اوپر گیا تو میں نے درخواست کی کہ اگر بنٹی اور پیٹر ناکام بھی ہو جائیں تو بھی شیر مچان نمبر 3 تک نہیں پہنچنا چاہیے۔ جواب ملا کہ "فکر مت کریں، پوری کوشش کروں گی"۔ کنارے پر جھاڑیاں بالکل نہیں تھیں اور اکا دکا درختوں کی وجہ سے شیر جب جنگل سے نکلتا تو کم از کم 60 گز تک دونوں مچانوں کے بالکل سامنے رہتا۔ مجھے پوری امید تھی کہ بنٹی اسے مار لے گی۔ بہادر کو پانچویں مچان پر بٹھانے کے بعد لمبا چکر کاٹ کر میں پھر دریائے بور پہنچ گیا۔

جہاں میں نے مہاشیر پکڑی تھی، اس تالاب کے کنارے 16 ہاتھی جمع تھے جو ہانکے کے کام آتے۔ ان کی نگرانی موہن کر رہا تھا جو میرا پرانا دوست ہے اور 30 سال تک ونڈہم کا میرِ شکار رہ چکا ہے۔ ہندوستان بھر میں اس سے زیادہ شیروں کے بارے کوئی نہیں جانتا۔ موہن میرا منتظر تھا اور جونہی میں نے جنگل سے نکل کر ہیٹ لہرایا، موہن نے ہانکا شروع کرا دیا۔ پتھروں سے اٹے جنگل میں ہاتھیوں کو چوتھائی میل کا فاصلہ طے کرتے کرتے کافی وقت لگا اور اس دوران میں پتھر پر بیٹھ کر میں نے سگریٹ پیتے جتنا سوچا، میری پریشانی اتنا ہی بڑھتی گئی۔ زندگی میں پہلی بار میں نے کسی کی زندگی کو خطرے میں ڈالا تھا۔ کالاڈھنگی آنے سے قبل لارڈ لِن لتھ گو نے مجھ سے کہا تھا کہ اصول و ضوابط واضح کر دوں۔ ہر فرد نے ان اصولوں پر پوری طرح عمل کیا تھا اور اگرچہ ہم جنگل میں کیمپ لگائے ہوئے تھے اور شکار کے سلسلے میں دور دور تک گئے تھے لیکن ابھی تک کسی کو خراش تک نہ پہنچی تھی۔ اب آخری دن میں نے ایک غلطی کر دی تھی جبکہ ہر کوئی مجھ پر اندھا اعتبار کرتا تھا۔ ہلکی سی مچان پر جو زمین سے بمشکل چھ فٹ اونچی تھی، پر میں نے ایک کم عمر بچی کو بٹھا دیا تھا جبکہ عام حالات میں میں نے کبھی بھی کسی کو نہ بیٹھنے دیا ہوتا اور اس جگہ سے اس نے سیدھے اپنی طرف آتے شیر پر گولی چلانی تھی جو بذاتِ خود انتہائی خطرناک فعل ہے۔ مجھے ان کی بہادری پر کوئی شبہ نہیں تھا کیونکہ میرے انتباہ کے باوجود اس نے بنا جھجھکے مچان پر بیٹھنے کی حامی بھر لی تھی۔ تاہم محض بہادری سے کام نہیں چلنا تھا بلکہ نشانے کی درستی بھی اہم تھی اور مجھے ان کے نشانے کا بالکل بھی علم نہیں تھا۔ ابھی میں اسی تذبذب میں تھا کہ آیا ہانکا روک دوں یا چلنے دوں کہ موہن میرے پاس آیا۔ میری بات سن کر اس نے ایک لمحے کو سانس روک کر آنکھیں بھینچیں اور پھر آنکھیں کھول کر بولا کہ "مت گھبراؤ صاحب۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔"

مہاوتوں کو بلا کر میں نے انہیں بتایا کہ شیر کو خوفزدہ کئے بنا نکالنا ہے۔ اس لیے کنارے پر پہنچ کر سب ایک سیدھی قطار میں رک جائیں اور میرے اشارے پر عمل کریں۔ جب میں اپنا ہیٹ اتاروں تو سارے ایک نعرہ لگا کر تالیاں بجانے لگ جائیں۔ جب میں ہیٹ پہن لوں تو پھر خاموش ہو جائیں۔ وقفے وقفے سے یہی عمل دہرایا جائے گا جب تک شیر حرکت نہ کرے۔ اگر پھر بھی کامیابی نہ ہو تو میں آگے بڑھنے کا اشارہ دوں گا اور انتہائی خاموشی اور آہستگی سے آگے بڑھنا ہے۔ پہلے نعرے کے دو فائدے ہوتے، اول تو یہ کہ شیر جاگ جاتا، دوسرا یہ کہ مچانوں پر بیٹھے شکاریوں کو اطلاع ہو جاتی۔

ہانکے کا میدان 300 گز چوڑا اور 500 گز لمبا تھا اور جب سارے ہاتھی میرے دائیں بائیں قطار میں کھڑے ہوگئے تو میں نے ہیٹ اتار کر لہرایا۔ نعرہ لگا کر سب نے تالیاں بجانا شروع کر دیں۔ تین یا چار منٹ بعد میں نے ہیٹ سر پر رکھ دیا۔ اس قطعے میں سانبھر، کاکڑ، چیتل، مور اور جنگلی مرغ بکثرت تھے اور میں ان کی آواز سننے کے لیے بے چین تھا مگر خاموشی رہی۔ پانچ منٹ بعد ہم نے پھر ایک یا دو منٹ کے لیے تالیاں بجائیں کہ رائفل کی آواز آئی۔ میں نے بے چینی سے سیکنڈ گننے شروع کر دیے کہ ہانکے میں رائفل چلنے کے درمیانی وقفے سے بہت کچھ پتہ چل سکتا ہے۔ پانچ سیکنڈ بعد یکے بعد دیگر دو بار رائفل چلی۔ چار سیکنڈ بعد پھر ایک رائفل چلی۔ پہلی اور چوتھی گولی جس رائفل سے چلی، اس کا رخ میری جانب تھا جبکہ دوسری اور تیسری گولی جس رائفل سے چلی، اس کا رخ میری جانب نہیں تھا۔ اس کا مطلب واضح تھا کہ گڑبڑ ہو چکی اور جون کو گولیاں چلانی پڑی تھیں۔ وائسرائے کی مچان سے بنٹی کی مچان دکھائی نہیں دیتی تھی۔

دھڑکتے دل اور واہموں کو دباتے ہوئے میں نے موہن کو ہانکے کی نگرانی سونپی اور اجمت سے کہا کہ سیدھا مچانوں کی طرف ہاتھی دوڑائے۔ اجمت ونڈہم کا تربیت یافتہ، انتہائی نڈر اور بہترین انسان تھا اور اس کا ہاتھی بھی اسی کی مانند نڈر۔ خاردار جھاڑیاں، بڑے پتھر، غیر ہموار زمین، جھکی شاخوں کی پروا کئے بغیر ہم سیدھا آگے بڑھے۔ جب ہمارے سامنے بارہ فٹ اونچی نال گھاس کا قطعہ آیا تو ہتھنی جھجھک کر پھر آگے بڑھی۔ اجمت نے مڑ کر سرگوشی کی کہ "ہتھنی کو شیر کی بو آ رہی ہے۔ آپ خبردار ہو کر بیٹھیں کہ آپ نہتے ہیں۔" سو گز کا فاصلہ رہ گیا تھا اور ابھی تک مچانوں کی طرف خاموشی تھی۔ اگرچہ میں نے ہر شکاری کو ایک سیٹی دی ہوئی تھی کہ مدد درکار ہو تو سیٹی بجا دیں۔ تاہم سیٹی کی آواز آنا کوئی بڑی بات نہیں تھی کہ عجلت اور گھبراہٹ میں مچان سے اس سے بڑی چیزیں بھی گر جاتی ہیں۔ جب درختوں کے درمیان میں سے جون کی مچان دکھائی دی تو مجھے بہت سکون ہوا کہ وہ مچان پر آرام سے بیٹھی تھیں اور رائفل ان کے گھٹنوں پر رکھی تھی۔ مجھے دیکھتے ہی انہوں نے دونوں ہاتھ پھیلا کر اشارہ کیا کہ "بہت بڑا شیر ہے" اور پھر انہوں نے بنٹی کی مچان کے نیچے کی طرف اشارہ کیا۔

بقیہ کہانی مجھے جلد ہی پتہ چلی اور آج بھی، پندرہ برس گذرنے کے بعد بھی اس کی یاد سے میرے دل کی دھڑکن لمحے بھر کو رک جاتی ہے۔ اگر تین نوجوانوں کی ہمت اور ان کا نشانہ ساتھ نہ دیتا تو انجام سانحہ ہوتا۔

ہمارے نعرے اور تالیوں کی مدہم آواز مچانوں تک آئی تھی۔ ہماری خاموشی کے بعد شیر جنگل سے نکلا اور آہستہ آہستہ پگڈنڈی پر چلتا ہوا آگے کو بڑھا۔ جب وہ کنارے پر پہنچا تو ہماری طرف سے دوبارہ شور ہوا تو شیر نے رک کر سر موڑ کر ہماری سمت دیکھا اور خطرہ نہ پا کر ایک یا دو منٹ کو رک کر پھر کنارے پر چڑھا۔ جب شیر میری رکھی ہوئی لکڑی پر پہنچا تو بنٹی نے شیر کے سینے پر گولی چلائی کہ اس وقت شیر کا سر نیچے کو تھا اور گلا دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ گولی چلتے ہی شیر نے اتنی تیزی سے مچان پر حملہ کیا کہ بنٹی یا پیٹر کو دوسری گولی چلانے کا موقع نہ مل سکا۔ جب یہ کمزور سی مچان شیر کے حملے سے کانپ رہی تھی اور پیٹر اور بنٹی شیر پر گولی چلانے کی تگ و دو میں تھے تو تیس گز دور سے جون نے شیر پر گولی چلائی۔ جب شیر نیچے گرا تو انہوں نے دوسری گولی بھی چلائی۔ اب شیر کا رخ جنگل کی طرف ہو گیا کہ وہ شاید پناہ لینا چاہ رہا تھا۔ اسی وقت بنٹی نے شیر کی گُدی میں گولی اتار دی۔

یہ تھا وائسرائے کا کالاڈھنگی کا پہلا دورہ، تاہم یہ آخری نہیں تھا۔ ان کے دیگر تمام دوروں پر مجھے کبھی کوئی پریشانی نہیں ہوئی کہ میں نے اس حماقت کو کبھی نہیں دہرایا۔