جنگل لور/باب 2
لڑکیوں کے ساتھ ہونے کی وجہ سے ڈینسی نے یہ غلط فہمی پال لی کہ ریچھ والے واقعے میں میرا بھی ہاتھ تھا۔ حالانکہ میرا ہاتھ صرف اتنا تھا کہ میں نے کھال کو سینے کے لیے دھاگے کی بجائے موٹی بیل استعمال کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ ایک صبح جب میں اپنے دوستوں کو درخت کی ایک شاخ سے جھول کر دوسری تک جانے کا طریقہ سکھا رہا تھا کہ ڈینسی مجھے شکار کے لیے اپنے ساتھ لینے آن پہنچا۔ میں اس عزت افزائی پر پھولے نہ سمایا اور فوراً اس کے ساتھ چل دیا۔ راستے میں ڈینسی نے بتایا کہ وہ مجھے پیدل شیر کا شکار سکھانے لے جا رہا ہے۔ دھونیگر پہنچ کر ہمیں بہت سارے شیروں کے پگ تو دکھائی دیے مگر شیر نہیں ملے۔ بعد کے سالوں میں میں نے یہاں بہت شیر دیکھے تھے۔ خیر، واپسی پر راستے میں ڈینسی نے مجھے پہلی بار بندوق چلانے کا تجربہ کرانے کا سوچا۔ جب اسے یہ خیال سوجھا تو ہمارے سامنے ایک کھلا میدان تھا جس میں بہت سارے پرندے دیمک کی تلاش میں زمین پر خشک پتے کھدیڑ رہے تھے۔ شیر کے شکار پر جب ہم نکلے تو ڈینسی کے ہاتھ میں مزل لوڈر رائفل تھی اور کندھے پر مزل لوڈر بندوق بھی۔ اب اس نے بندوق اتار کر مجھے دی اور بتایا کہ دائیاں پاؤں ذرا آگے بڑھا کر بندوق شانے سے لگا کر کیسے فائر کرنا ہے۔ اتنے سال گذرنے کے بعد بھی مجھے یہ بات سمجھ نہی آتی کہ آیا میری خاطر ڈینسی نے بندوق میں اضافی بارود ڈالا تھا یا اس کی یہ عادت تھی۔ خیر، جب میرے ہوش ٹھکانے لگے تو دیکھا کہ ڈینسی بندوق کی نال پر ہاتھ پھیر کر دیکھ رہا ہے کہ کہیں کوئی ڈینٹ تو نہیں پڑا، کیونکہ بندوق چلاتے ہی میں اچھل کر پیچھے گرا اور بندوق بھی کہیں کی کہیں جا پڑی۔ بندوق چلتے ہی ہمارے سامنے والے سارے پرندے اڑ گئے لیکن ایک چھوٹا سا پرندہ زمین پر پڑا دکھائی دیا۔ جب ہم نے دیکھا تو اسے کوئی زخم نہیں لگا تھا۔ ڈینسی نے بتایا کہ شاید یہ پرندہ خوف سے مر گیا ہوگا۔ مجھے دل و جان سے اس کی بات سچ لگی کیونکہ دہشت کے مارے میں خود چند منٹ قبل مرتے مرتے بچا تھا۔
ڈینسی والے واقعے کے بعد کچھ وقت ہی گذرا ہوگا کہ میرے بڑے بھائی ٹام نے والدہ کو بتایا کہ وہ مجھے اپنے ساتھ ریچھ کے شکار پر لے جا رہا ہے۔ میں چار سال کا تھا کہ میرے والد کا انتقال ہوا اور ٹام نے اس وقت سے گھر کی ذمہ داری سنبھالی ہوئی تھی۔ والدہ کو یہ بات بالکل نہ بھائی کیونکہ تمام تر بہادری کے باوجود وہ نرم دل تھیں۔ میں پوری توجہ سے ٹام اور والدہ کی باتیں سنتا رہا اور ٹام نے والدہ کو پوری طرح یقین دلایا کہ وہ میرا پورا خیال رکھے گا اور ہرگز کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ جب والدہ نے اجازت دی تو میں نے بھی فیصلہ کر لیا کہ ہر طرح کے نقصان سے بچنے کا طریقہ یہی ہے کہ بھائی کے ساتھ چپکا رہوں۔
اس شام ہم روانہ ہوئے تو ٹام نے اپنی رائفل اور میری بندوق اٹھائی ہوئی تھی۔ ہم لوگ پہاڑ پر متوازی ایک راستے پر چل پڑے۔ یہاں نصف فاصلے پر ہمیں ایک انتہائی خوفناک اور گہری کھائی دکھائی دی۔ اس جگہ ٹام نے رک کر مجھے بتایا کہ ریچھ کے شکار کے لیے یہ بہترین جگہ ہے کیونکہ ریچھ اوپر جا رہے ہوں یا نیچے اتر رہے ہوں، ہر صورت میں یہاں سے گذریں گے۔ پھر اس نے مجھے بیٹھنے کے لیے ایک جگہ دکھائی اور بندوق اور گولی کے دو کارتوس مجھے تھمائے اور ہدایت کی کہ ریچھ کو زخمی کرنے کی بجائے ہلاک کروں۔ پھر 800 گز دور پہاڑ کے کنارے پر ایک درخت کی طرف اشارہ کر کے اس نے بتایا کہ وہ ادھر جا کر بیٹھے گا۔ اگر کوئی ریچھ ایسی جگہ سے گذرا کہ جو میرے خیال میں اس کی نظروں سے اوجھل ہو تو میں بھاگ کر اسے ریچھ کے بارے بتاؤں۔ یہ کہہ کر ٹام چل دیا۔
تیز ہوا چل رہی تھی اور خشک گھاس اور سوکھے پتے عجیب آوازیں پیدا کر رہے تھے۔ میرے تخیل نے میرے آس پاس کے سارے جنگل کو بھوکے اور خوانخوار ریچھوں سے بھر دیا تھا (واضح رہے کہ اس موسم سرما میں اسی پہاڑ پر 9 ریچھ شکار ہوئے تھے)۔ مجھے اس بات پر قطعی کوئی شبہ نہیں تھا کہ ریچھ مجھے پھاڑ کھائیں گے، مجھے صرف یہ فکر ستا رہی تھی کہ مجھے کتنی تکلیف ہوگی۔ وقت انتہائی آہستگی سے گذرتا رہا اور ہر لمحہ میری دہشت بڑھتی گئی۔ سورج ڈوبتے جب پہاڑوں پر ہلکی روشنی پھیلی ہوئی تھی تو میں نے ٹام کے درخت سے چند سو گز اوپر ایک ریچھ کو آہستگی سے نیچے اترتے دیکھا۔ مجھے اس سے کوئی غرض نہیں تھی کہ ٹام نے ریچھ کو دیکھا یا نہیں دیکھا، میری دعا قبول ہو گئی تھی کہ مجھے اس خوفناک جگہ سے بھاگنے کا بہانہ مل گیا تھا۔ بندوق کندھے پر لاد کر میں ٹام کو ریچھ کے بارے بتانے چل پڑا۔ ڈینسی والے حالیہ واقعے کی وجہ سے بندوق بھرنے کی ہمت نہ ہوئی۔
ہمارے علاقوں میں ہمالیہ کا کالا ریچھ بلوط کے پھل پر زندہ رہتا ہے۔ چونکہ ریچھ بہت بھاری ہوتے ہیں اور پھل درختوں پر بلندی پر اگتا ہے تو ریچھ نازک شاخوں کو موڑ کر پھل توڑ لیتے ہیں۔ کچھ شاخیں ٹوٹنے کے باوجود درخت سے لگی سالوں تک سرسبز رہتی ہیں جبکہ کئی شاخیں ٹوٹ کر نیچے گر جاتی ہیں یا محض چھال کے سہارے لٹکی ہوتی ہیں۔ جب کھائی عبور کر کے میں دوسرے کنارے پر چڑھا تو مجھے زور کی آواز آئی۔ دہشت کے مارے میں وہیں رک گیا اور آواز لمحہ بہ لمحہ قریب تر ہوتی گئی اور دھچکے کے ساتھ کوئی بڑی چیز میرے عین سامنے گری۔ یہ شاخ کسی ریچھ نے توڑی تھی جو محض چھال کے سہارے لٹک رہی تھی اور ابھی تیز ہوا کی وجہ سے ٹوٹ کرعین اسی وقت نیچے گری جب میں وہاں سے گذرنے لگا تھا۔ اس وقت مجھے جتنا ڈر لگا، اگر میرے سامنے ایشیاء کا سب سے بڑا ریچھ بھی آ جاتا تو بھی اس سے زیادہ نہ ڈرتا۔ ٹام کے پاس جانے کا سارا حوصلہ ختم ہو چکا تھا اور میں واپس اپنی جگہ جا کر بیٹھ گیا۔ اگر کوئی انسان محض دہشت سے مرسکتا ہو تو پھر اس رات اور اس کے بعد بھی بے شمار مرتبہ میں مر چکا ہوتا۔
شفق کی لالی پہاڑوں کے اوپر سے غائب ہو رہی تھی کہ تاریکی سے ٹام کا سایہ سامنے نمودار ہوا۔ "تمہیں ڈر تو نہیں لگا؟" بندوق لیتے ہوئے اس نے مجھ سے پوچھا۔ جب میں نے اسے بتایا کہ اب مجھے ڈر نہیں لگ رہا تو اس نے کمال مہربانی سے بات گول کر دی۔
جب بھی ہم شکار کو جاتے تو ٹام ہمیشہ علی الصبح روانہ ہونے کو تیار ہو جاتا۔ ایک دن جب ہم موروں کا شکار کرنے صبح 4 بجے نکلنے لگے تو اس نے خاموشی سے میرا ہاتھ منہ دھو کر میرے کپڑے بدلے تاکہ دیگر لوگ نہ جاگ جائیں اور پھر نصف گھنٹے بعد گرما گرم چائے اور بسکٹوں سے پیٹ بھر کر ہم سات میل دور گروپو کے جنگل کو روانہ ہو گئے۔
اپنی زندگی میں میں نے جنگلوں میں بے انتہائی تبدیلیاں ہوتے دیکھی ہیں۔ کئی تبدیلیاں انسانی مداخلت سے جبکہ دیگر قدرتی طور پر واقع ہوئیں۔ گھنے جنگل کی جگہ گھاس پھونس اور جھاڑیوں کی جگہ گھنا جنگل اگتے دیکھا ہے۔ گروپو کے جنگل کے جنوب مشرقی سرے پر جس کا میں بتا رہا ہوں، اس وقت اونچی گھاس اور آلو بخارے کی جھاڑیاں تھیں۔ اس جگہ کے لیے ہم روانہ ہوئے تھے کہ آلو بخارے پک چکے تھے اور نہ صرف ہرن اور سور بلکہ مور بھی اسے کھانے کو دور دور سے آتے تھے۔
جب ہم گروپو پہنچے تو ابھی اندھیرا باقی تھا۔ کنویں کے پاس بیٹھ کر ہم نے تاریکی ختم ہوتے اور روشنی نمودار ہوتے دیکھی۔ ساتھ ہی ہم جنگل کے بیدار ہونے کی آوازیں بھی سنتے رہے۔ ہر طرف سرخ جنگلی مرغوں کی بانگیں سنائی دے رہی تھیں جو نیند سے بیدار ہو کر صبح کو خوش آمدید کہہ رہے تھے۔ سیمل کے اونچے درخت پر بیٹھے ایک مور نے بھی بولنا شروع کر دیا۔ جب سورج درختوں کی چوٹیوں تک بلند ہوا تو سیمل کی شاخیں ہمیں دکھائی دینے لگ گئیں۔ اس درخت سے بیس سے بھی زیادہ مور نیچے اترے۔ اپنے پائپ کو بجھا کر ٹام نے مجھے اپنے ساتھ اٹھنے کا اشارہ کیا اور بتایا کہ اب جنگل میں داخل ہونے کا وقت آ گیا ہے۔ کہرا گہرا تھا اور تیس فٹ کی بلندی تک چھایا ہوا تھا۔ درختوں کے پتوں سے شبنم کے قطرے اس طرح ٹپک رہے تھے جیسے بوندا باندی ہو رہی ہو۔ یہاں گھاس میری تھوڑی تک جبکہ ٹام کی کمر تک آتی تھی۔ ابھی ہم یہاں چند گز ہی آگے بڑھے ہوں گے کہ ہمارے کپڑے پوری طرح گیلے ہو کر ہمارے جسموں سے چپک گئے اور سردی ناقابل برداشت ہو گئی۔ دسمبر کی یہ صبح کافی سرد تھی۔
سیمل کے درخت کی سمت گئے تو ہمیں دس بارہ مور دکھائی دیے جو نیچے گھاس میں اتر آئے۔ ایک نر مور سیدھا اوپر درخت کی اونچی شاخ پر جا کر بیٹھ گیا۔ بارہ بور کی بندوق میرے ہاتھ دے کر جب ٹام نے مجھے کارتوس تھمائے تو میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔ اس نے ہدایت کی کہ آگے بڑھ کر اس نر مور کو شکار کرو۔ ابھی ڈیڑھ سو گز دور جا کر مجھے شکار کرنا تھا۔ چالیس گز جتنا چل کر میں رکا تاکہ بندوق کو بھر سکوں۔ جونہی میں رکا تو مجھے ٹام کی سیٹی سنائی دی۔ مڑ کر دیکھا تو وہ مجھے واپس بلا رہا تھا۔ جب میں واپس ٹام تک پہنچا تو اس نے بتایا کہ مور ابھی بندوق کی مار سے دور تھا۔ میں نے بتایا کہ میں بندوق بھر رہا تھا، چلا نہیں رہا تھا۔ اس نے مجھے ہدایت کی کہ بھری ہوئی بندوق ہمیشہ خطرناک ہوتی ہے کیونکہ گھاس میں گڑھے وغیرہ سے اگر پاؤں رپٹ جائے تو بندوق چل سکتی ہے۔ پھر اس نے بتایا کہ اب دوبارہ کوشش کرو۔ آلوبخارے کی جھاڑی سے چھپتا ہوا میں آگے بڑھا اور آسانی سے مور بندوق کی مار میں آ گیا۔ سیمل کا درخت پتوں کے بغیر لیکن بڑے بڑے سرخ پھولوں سے بھرا ہوا تھا اور سورج کی روشنی میں اس سے زیادہ خوبصورت مور میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ اب بندوق بھرنے کا وقت تو آ گیا تھا لیکن جوش اور سردی سے جمی ہوئی انگلیوں کی وجہ سے گھوڑے نہ چڑھا سکا۔ ابھی میں کوشش کر ہی رہا تھا کہ مور اڑ گیا۔ جب واپس پہنچا تو ٹام نے کہا کہ کوئی بات نہیں۔ اگلی بار سہی۔ تاہم اس روز میری قسمت میں کوئی شکار نہیں لکھا تھا اور جب ٹام نے ایک سرخ جنگلی مرغ اور تین مور مار لیے تو ہم گھر کو واپس لوٹے تاکہ ناشتا کر سکیں۔