ابھی تک میں نے جنگل کی تربیت کے جو تین واقعات بیان کئے ہیں، پر میری تربیت ختم ہو جاتی ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ بندوق کو کیسے سنبھالنا اور چلانا ہے، شیر اور ریچھوں کے جنگل میں لے جا کر مجھے دکھایا گیا کہ جب تک یہ جانور زخمی نہ ہوں، ان سے خطرہ نہیں ہوتا۔ کم عمری میں اگر سبق اچھی طرح سیکھ لیے جائیں تو وہ ساری زندگی نہیں بھولتے۔ اب اگر ان اسباق سے میں کوئی فائدہ اٹھاتا یا نہ اٹھاتا، یہ میری مرضی تھی۔ اب میں تھا اور شکار تھا۔ مجھےخوشی ہے کہ کسی نے زبردستی مجھے کچھ کرنے کو نہیں کہا۔

لڑکوں کو اگر اپنی مرضی سے کام کرنے دیا جائے اور شکار کے مواقع بھی ہوں تو وہ اپنی مرضی کے شکار کو آسانی سے اپنا لیتے ہیں جس کے لیے وہ جسمانی اور ذہنی، دونوں طور پرمناسب ہوتے ہیں۔ بصورت دیگر انہیں کسی ایسے مشغلے میں لگا دیا جائے جو انہیں پسند نہ ہو تو یہ ظلم ہوتا ہے۔ اپنی مرضی کے شکار سے وہ بہت لطف اندوز ہوتے ہیں۔

میری والدہ اور بہنوں کی مدد کے لیے ٹام سامنے آیا اور جب میں نمونیہ کے زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا تھا اور زندگی کی ڈوریں میرے ہاتھ سے نکلنے ہی والی تھیں کہ اس نے مجھے پہلی غلیل دی۔ بستر پر میرے پاس بیٹھ کر اس نے اپنی جیب سے غلیل نکالی اور میرے ہاتھوں دینے کے بعدساتھ میز سے گائے کی یخنی کا پیالہ اٹھایا اور مجھے کہنے لگا کہ یخنی پیو تاکہ تمہارے اندر طاقت آئے اور تم غلیل چلانے کے قابل ہو جاؤ۔ اس دن سے میں نے زندگی میں پھر سے دلچسپی لینا شروع کر دی۔ اسی دوران میں گھر والے مجھے نہ صرف جنگل کے بارےبتاتے رہے بلکہ یہ بھی کہ غلیل کو کیسے چلانا چاہیے۔

ٹام نے مجھے بتایا کہ شکاری کے لیے سال کے دو حصے ہوتے ہیں۔ شکار کے لیے کھلا اور شکار کے لیے بند سیزن۔بند سیزن میں پرندے گھونسلے بنا کر بچے پیدا کرتے ہیں اور اس دوران میں انہیں شکار کرنا ظلم ہوتا ہے۔ کھلے سیزن میں جتنے پرندے چاہیں، مارے جا سکتے ہیں۔ شرط صرف یہ ہے کہ میں کوئی پرندہ فالتو نہ ہلاک کروں۔ ہریل اور کشمیرے ہمارے پہاڑوں میں بکثرت ملتے ہیں، انہیں شکار کر کے کھایا جا سکتا ہے اور باقی تمام پرندے ہلاک کرنے کے بعد ان کی کھال اتار کر انہیں حنوط کیا جا سکتا ہے۔ جب میں اس قابل ہوا تو ٹام نے مجھے ایک چاقو اور آرسینک کا آمیزہ دیا۔ پرندے حنوط کرنے میں ٹام کی مہارت واجبی سی تھی لیکن جب اس نے میرے سامنے ایک پرندے کی کھال اتار کر اسے محفوظ کیا تو مجھے اندازا ہو گیا کہ یہ کام کیسے کرتے ہیں اور بعد میں مسلسل مشق نے مجھے ماہر بنا دیا۔ ہمارا ایک قریبی رشتہ دار سٹیفن ڈیز ان دنوں کماؤں کے پرندوں پر ایک کتاب لکھ رہا تھا اور 480 رنگین تصاویر میں سے زیادہ تر پرندے میرے مجموعے سے یا ان پرندوں سے لیے جو میں اس کے لیے مار لاتا تھا۔

ٹام کے پاس دو کتے تھے۔ا یک کا نام پوپی تھا جو اس نے دوسری افغان جنگ کے دوران میں کابل کی سڑکوں پر پھرتے دیکھا تھا۔ یہ لال رنگ کا عام دیہاتی کتا تھا جسے ٹام اپنے ساتھ ہندوستان لے آیا۔ دوسرا کتا سپینئل نسل کا کلیجی اور سفید رنگ کا تھا اور اتنا مضبوط تھا کہ مجھے کچھ فاصلے تک لاد کر بھی لے جاتا تھا۔ نہ صرف وہ میرا محافظ بن جاتا تھا بلکہ اس کی ساری توجہ میری ہی جانب رہتی تھی۔ میگگ سے ہی مجھے یہ بات پتہ چلی کہ گھنی جھاڑیوں سے ہمیشہ دور سے گزرنا چاہئے کہ ان میں لیٹے جانور آپ کی موجوددگی سے ناراض بھی ہو سکتے ہیں۔ میگگ سے ہی مجھے یہ بات پتہ چلی کہ جنگل میں کتا بھی اتنی ہی خاموشی سے چل سکتا ہے جتنی خاموشی سے بلی۔ میگگ کی مدد سے ہی میں جنگل کے ان حصوں میں مٹرگشت کے قابل ہوا جہاں میں اکیلا جانے سے ڈرتا تھا۔ میرے غلیل والے دنوں کا ایک یادگار واقعہ درج ذیل ہے جس میں میگگ مرتے مرتے بچا تھا۔

اس روز ہم ڈینسی کے لیے ایک پرندہ تلاش کرنے گھر سے نکلے تھے۔ ہمارے ساتھ اس کا سکاٹش کتا بھی تھا جس کا نام تھسل تھا۔ دونوں کتے ایک ودسرے کو ناپسند کرتے تھے لیکن لڑنے پرہیز کرتے تھے۔ ابھی ہم تھوڑی دور ہی گئے ہوں گے کہ تھسل نے ایک خارپشت یعنی سیہی کو بھگایا۔ میرے منع کرنے کے باوجود میگگ اس کے پیچھے لگ گیا۔ ڈینسی کے پاس مزل لوڈنگ بندوق تھی لیکن اگر وہ گولی چلاتا تو کتوں کے زخمی ہونے کا اندیشہ تھا کہ دونوں کتے سیہی کے دائیں بائیں بھاگتے ہوئے اسے کاٹ رہے تھے۔ ڈینسی بھاگنے میں کمزور تھا اور بھاری بندوق کے وزن سے وہ ہم سے کافی پیچھے رہ گیا۔ خارپشت یا سیہی سے مقابلہ بہت خطرناک ہوتا ہے۔ا گرچہ سیہی اپنے کانٹے پھینک نہیں سکتی لیکن اس کے کانٹے بہت سخت اور بھاگنے کی رفتار بہت تیز ہوتی ہے۔ دفاع کی نیت سے سیہی عموماً اپنے کانٹے کھڑے کر کے پیچھے کو ہٹنا شروع کر دیتی ہے۔

تعاقب کرنے سے قبل میں نے غلیل کو جیب میں ڈالا اور ایک مضبوط ڈنڈا اٹھا لیا۔ تاہم اس سے زیادہ فائدہ نہیں ہوا کہ جونہی میں اس کے قریب پہنچتا، سیہی کانٹے کھڑے کر کے مجھ پر حملہ آور ہو جاتی۔ کئی بار کتوں نے مجھے بچایا۔ یہ تعاقب نصف میل تک جاری رہا اور ہم ایک گہری کھائی کے کنارے جا پہنچے۔ اسی کھائی میں کئی سیہوں کے بل تھے۔ اچانک میگگ نے سیہی کے ناک سے اور تھسل نے گلے سے پکڑ لیا۔ جب ڈینسی پہنچا تو ساری کشمکش ختم ہو چکی تھی۔ تاہم اپنے اطمینان کےلیے اس نے سیہی پر کارتوس چلا دیا۔ دونوں کتے خون سے نہائے ہوئے تھے اور پھر جتنے کانٹے ہم نکال سکتے تھے، نکالنے کے بعد گھر روانہ ہوئے۔ ڈینسی نے مردہ سیہی کو اپنے کاندھے سے لٹکایا ہوا تھا۔ چونکہ کتوں کے جسم میں کئی کانٹے ٹوٹ کر پھنس گئے تھے، اس لیے ہمارا خیال تھا کہ انہیں چمٹیوں کی مدد سے نکالیں گے۔ سیہی کے کانٹے خاردار ہوتے ہیں اور انہیں نکالنا مشکل ہوتا ہے۔

ساری رات میگگ نے تکلیف سے گذاری اور مسلسل چھینکتا رہا۔ ہر چھینک کے ساتھ خون کا لوتھڑا بھی گرتا تھا۔ اگلے دن اتوار تھا اور میرا بھائی ٹام خوش قسمتی سے نینی تال سے گھر آیا۔ اس نے دیکھا کہ ایک کانٹا میگگ کی ناک میں ٹوٹ کر پھنس گیا ہے۔ کئی بار کی کوشش کے بعد ٹام نے چمٹی سے چھ انچ لمبا کانٹا نکالا۔ اس کی موٹائی پین ہولڈر جتنی ہوگی۔ کانٹا نکلتے ہی خون کی دھار بہہ نکلی۔ چونکہ ہمارے پاس خون روکنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا اس لیے ہم کچھ نہ کر سکے۔ تاہم اس کی دیکھ بھال جاری رہی اور آخرکار وہ تندرست ہو گیا۔ تھسل کو زیادہ زخم نہیں لگے تھے اس لیے وہ سستا چھوٹ گیا۔

جب مجھے مزل لوڈنگ بندوق ملی، جس کے بارے میں آگے چل کر بات کروں گا، تو میگگ اور میں دو بار بہت سنسنی خیز واقعات سے دوچار ہوئے۔ ایک واقعہ کالاڈھنگی جبکہ دوسرا نینی تال میں پیش آیا۔ نیا گاؤں دیہات جس کا میں ذکر کر چکا ہوں، اس وقت پوری طرح زیرکاشت تھا اور مزروعہ زمینوں اور دھونیگر ندی کے درمیان میں جنگل کی ایک پٹی سی تھی جس میں جگہ جگہ کھلے قطعے بھی تھے۔ چوتھائی میل لمبی اور نصف میل چوڑی اس پٹی میں جنگلی جانوروں کی ایک پگڈنڈی گذرتی تھی۔ ندی کے دونوں کناروں پر گھنا جنگل شکار کے قابل جانوروں اور پرندوں سے بھرا ہوا تھا۔ سرخ جنگلی مرغ، مور، ہرن اور سور، بے شمار پائے جاتے تھے۔ یہ سارے جانور اسی پگڈنڈی سے گزر کر ہی فصلوں کو کھانے جاتے تھے۔ اسی پگڈنڈی پر پہلا واقعہ مجھے اور میگگ کو پیش آیا۔

نیا گاؤں کالاڈھنگی میں ہمارے گھر سے تین میل دور تھا اور علی الصبح میں اور میگگ مور شکار کرنے کی نیت سے نکلے۔ کھلی پگڈنڈی کے عین درمیان میں چلتے ہوئے ہم اس جگہ پہنچے جہاں جنگلی جانوروں کے زیراستعمال ایک پگڈنڈی آن ملتی تھی۔ درمیان میں چلنے کی وجہ یہ تھی کہ ابھی روشنی بہت کم تھی اور اس جگہ شیر اور تیندوے بکثرت تھے۔ اس جگہ میں نے بندوق کو بھرنا شروع کیا۔ مزل لوڈنگ بندوق کو بھرنا طویل کام ہوتا ہے کہ پہلے ماپ کر بارود نال میں ڈالنا، پھر کپڑے کی دھجی سے اسے جمانا اور پھر چھرے ڈال موٹے کاغذ کا ٹکڑا اس پر جمانا اور پھر موٹی سلاخ کی مدد سے انہیں ٹھونک کر جمانا۔ پھر گھوڑے کو نصف اٹھا کر بارودی ٹوپی اس پر جمانا۔ جب میرے خیال سے یہ سب کچھ بہترین طور پرہو گیا تو سامان بیگ میں ڈال کر میں اور میگگ چل پڑے۔ اس دوران میں بہت سارے جنگلی مرغ اور مور سڑک سے گذرے لیکن کوئی بھی اتنی دیر نہیں رکا کہ میں اس پر گولی چلا سکتا۔ ابھی ہم نصف میل ہی گئے ہوں گے کہ ایک کھلا قطعہ آیا اور 7 مور ہمارے سامنے اس قطعے کو عبور کر کے دوسری جانب گم ہو گئے۔ چند لمحے رک کر میں نے میگگ کو بھیجا تاکہ وہ انہیں جا کر اڑائے۔

جب کسی کتے کی وجہ سے مور اڑیں تو ہمیشہ کسی درخت کی شاخ پر جا بیٹھتے ہیں۔ ان دنوں میرے لیے بیٹھا پرندہ شکار کرنا بھی مشکل ہوتا تھا اور اکثر میگگ اور میری مشترکہ کوششوں سے ہی جا کر مور شکار ہوتا تھا۔ میگگ کو شکار میں مور سب سے زیادہ پسند تھے اور جب مور درخت پر بیٹھے تو وہ ان پر بھونکتا رہتا۔ موروں کی ساری توجہ میگگ کی طرف ہوتی اور مجھے چھپ کر پاس آنے اور گولی چلانے کا موقع مل جاتا۔

شاید موروں نے میگگ کو دیکھ کر دوڑ لگا دی ہوگی کہ سو گز دور جا کر مجھے موروں کے اڑنے کی آواز سنائی دی۔ اسی وقت میگگ کی چیخیں اور شیر کی دھاڑ بھی سنائی دی۔مور شاید میگگ کو جان بوجھ کر سوئے ہوئے شیر تک لے گئے تھے اور اب مور، کتا اور شیر، سب ہی اپنے اپنے انداز میں اپنے جذبات کا اظہار کر رہے تھے۔ میگگ نے خوف سے چیخ ماری اور دوڑتا ہوا میری طرف آیا۔ اس کے پیچھے شیر دھاڑتا ہوا آ رہا تھا۔ اسی الجھن میں موروں نے خطرے کی آواز نکالی اور سیدھا اڑتے ہوئے میرے اوپر موجود درخت پر آن کر بیٹھ گئے۔ اس وقت تک مجھے موروں کا ہوش بھی نہیں رہا تھا اور میری واحد خواہش یہ تھی کہ میں کہیں ایسی جگہ چلا جاؤں جہاں شیر دور دور تک نہ ہوں۔ چونکہ میری دو ٹانگوں کی نسبت میگگ کی چار ٹانگیں تھیں، اس لیے اس کی فکر چھوڑ کر میں بھاگ نکلا۔ اتنا تیز کہ کبھی اتنا تیز نہیں بھاگا ہوں گا۔ اتنی دیر میں میگگ مجھ سے آگے نکل گیا اور شیر کی دھاڑیں بھی تہم گئیں۔

اُس وقت تو میرےلیے یہ جاننا ممکن نہیں تھا لیکن اب میں چشم تصور میں دیکھ سکتا ہوں کہ شیر اپنی پچھلی ٹانگوں پر بیٹھا ہنس رہا ہوگا کہ اس کے سامنے ایک چھوٹا بچہ اور ایک کتا سر پر پیر رکھ کر بھاگے جا رہے ہیں حالانکہ اس نے تو کتے کو محض ڈرایا تھا کیونکہ اس کی نیند میں کتا مخل ہوا تھا۔

گرمیوں میں کالاڈھنگی سے نینی تال منتقل ہونے سے قبل دوسرا واقعہ پیش آیا۔ اس بار میں اکیلا تھا کہ میگگ میرے ساتھ نہیں تھا۔ کچھ عرصے سے میں گھنی جھاڑیوں سے بچ کر چلتا تھا اور اس بار میں گروپو روڈ پر جنگلی مرغ کی تلاش میں نکلا۔ پرندے تو بہت دکھائی دیے جو زمین پر چر چگ رہے تھے لیکن کسی کے نزدیک نہ پہنچ سکا۔ پھر میں سڑک سے اتر کر جنگل میں داخل ہوا۔ اس جگہ ادکا دکا جھاڑیاں اور بکثرت درخت اور چھوٹی گھاس تھی۔ سڑک سے اترنے سے قبل میں نے جرابیں اور جوتے اتار دیے۔ تھوڑی دور جا کر مجھے سرخ جنگلی مرغ دکھائی دیے۔

جب جنگلی مرغ سوکھے پتے کرید رہے ہوں تو بار بار سر اٹھا کر خطرے کو بھانپنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر کوئی خطرہ نہ ہو تو پھر چگنے لگ جاتے ہیں۔ چونکہ میں ننگے پیر تھا اور مور بندوق کی مار سے باہر تو میں نے چھپ کر آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔ جب مرغ سر نیچے کرتا تو میں ایک یا دو گز آگے بڑھ جاتا اور جب اس کا سر اٹھتا تو میں وہیں تہم جاتا۔ جب میں بندوق کی مار تک پہنچنے والا تھا کہ میرے سامنے ایک گہرا گڑھا آیا۔ ایک قدم گڑھے میں اور پھر دو قدم مزید آگے، اور جنگلی مرغ مار میں آ جاتا۔ اس کے علاوہ سامنے ایک چھوٹا سا درخت بھی موجود تھا جس پر میں اپنی بھاری بندوق رکھ کر اور اطمینان سے نشانہ لے کر کارتوس چلا سکتا تھا۔ جونہی مرغ کا سر نیچے ہوا، میں نے گڑھے میں قدم رکھا جو سیدھا ایک اژدھے کے بل کھائے جسم پر پڑا۔ چند دن قبل میگگ اور میں شیر کے آگے اتنا تیز بھاگے کہ شاید ہی اتنا تیز بھاگے ہوں اور اب میں اس سے بھی زیادہ تیزی سے جست کر کے نکلا اور اژدھے پر کارتوس چلاتے ہی بھاگ پڑا اور سیدھا سڑک پر ہی جا کر دم لیا۔ شمالی ہندوستان کے جنگلوں میں میں اتنے برسوں سے شکار کھیل رہا ہوں اور کبھی میں نے نہیں سنا کہ اژدھے نے کسی انسان کو مارا ہو۔ تاہم مجھے ابھی بھی یقین ہے کہ میں خوش قسمتی سے بچ گیا کہ اژدہا سویا ہوا تھا ورنہ مجھے ٹانگ سے پکڑ لیتا۔ چاہے پھر اژدہا مجھے نہ بھی جکڑتا، پھر بھی میں دہشت سے مر جاتا۔ ایک بار میں نے دیکھا کہ مادہ چیتل کو اژدھے نے دم سے پکڑا اور وہ دہشت کے مارے مر گئی۔ اس اژدھے کو مارنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں تھا۔ یہ اژدہا کتنا لمبا تھا اور یہ کہ میرے کارتوس سے وہ مرا بھی کہ نہیں، مجھے علم نہیں۔ میں دوبارہ اس جگہ نہیں گیا۔ تاہم اس علاقے میں اٹھارہ فٹ لمبے اژدھے بھی میں نے دیکھے ہیں۔ ایک بار ایک اژدھے نے چیتل جبکہ دوسرے نے سالم کاکڑ نگل لیے تھے۔

میگگ اور میرے ساتھ دوسرا واقعہ نینی تال سے کالاڈھنگی واپس آنے کے فوراً بعد پیش آیا۔ نینی تال کے آس پاس کے جنگل مرغ زریں اور دیگر شکاری جانوروں اور پرندے سے پٹے پڑے تھے اور کم شکاری ہونے کی وجہ سے شکار پر کوئی پابندی بھی نہیں تھی۔ اس لئےاسکول کے بعد میں اور میگگ اکثر جا کر رات کے کھانے کے لیے مرغ زریں یا تیتر وغیرہ شکار کرنے جاتے تھے۔

ایک شام میگگ اور میں کالاڈھنگی کی سڑک پر نکلے۔ اگرچہ میگگ نے کئی مرغ زریں اڑائے لیکن ان میں سے کوئی بھی اتنی دیر درخت پر نہیں بیٹھا کہ اس پر گولی چلائی جا سکتی۔ سریا تال نامی جھیل جو وادی کے سرے پر ہے، سے ہم بائیں مڑے اور جنگل میں داخل ہو گئے۔ ارادہ یہ تھا کہ پیچھے سے ہم وادی کے اوپر کی طرف جائیں گے۔ جھیل کے پاس میں نے ایک مرغ زریں شکار کیا۔ گھنی جھاڑیوں اور پتھروں کے ڈھیروں سے گذرتے ہوئے ابھی ہم سڑک سے دو سو گز دور ہی ہوں گے کہ ایک جھاڑی پر لگی بیریاں کھاتے ہوئے کئی مرغ زریں دکھائی دیے جو مسلسل اچھل رہے تھے۔ جب وہ اوپر اچھلتے تو مجھے دکھائی دیتے۔ ابھی میں اتنا ماہر نہیں ہوا تھا کہ متحرک چیز پر نشانہ لگا سکوں، میں زمین پر بیٹھ گیا اور میگگ میرے ساتھ لیٹ گیا۔ ہمارا خیال تھا کہ جب بھی کوئی پرندہ ہمارے سامنے نمودار ہوا تو شکار کر لوں گا۔

ابھی ہمیں یہاں رکے کچھ ہی دیر ہوئی تھی اور پرندوں کی اچھل کود جاری تھی کہ سڑک کی جانب سے کئی بندوں کے بات کرنے اور ہنسنے کی آواز آئی۔ یہ سڑک پہاڑ کے سامنے سے گذرتی تھی۔ ان کے ٹین کے ڈبوں کی آواز سے مجھے پتہ چل گیا کہ یہ گوالے ہیں جو نینی تال اپنا دودھ بیچ کر آ رہے ہیں۔ ان کے گھر سریا تال سے نیچے تھے۔ ابھی یہ بندے ہم سے چار سو گز دور تھے کہ مجھے ان کی آوازیں سنائی دی تھیں۔ ایک موڑ مڑ کر اچانک انہوں نے مل کر شور مچایا اور جیسے وہ کسی جانور کو راستے سے ہٹا رہے ہوں۔ اگلے منٹ میں ہمارے اوپر کے جنگل سے کسی بڑے جانور کے بھاگنے کی آواز آئی۔ یہاں جھاڑیاں اتنی گھنی تھیں کہ مجھے کچھ دکھائی نہیں دیا تاہم اس نے سارے مرغ زریں اڑا دیے۔ اچانک ہمارے سامنے کھلے قطعے میں ایک تیندوا نمودار ہوا۔ ابھی تیندوا ہوا میں ہی تھا کہ اس نے ہمیں دیکھ لیا۔ جونہی وہ نیچے زمین پر پہنچا، وہیں لیٹ کر بے حس و حرکت ہو گیا۔ یہ قطعہ تقریباً 30 ڈگری بلند ہوگا۔ تیندوا ہم سے دس گز دور رہا ہوگا اور اس کے جسم کا ہر حصہ، سر سے دم تک ہمارے سامنے صاف دکھائی دے رہا تھا۔ جونہی تیندوا سامنے پہنچا تھا تو میں نے بندوق سے ہاتھ ہٹا کر میگگ پر رکھ دیا تھا۔ میگگ کے رونگٹے کھڑے ہوئے محسوس ہو رہے تھے اور میرا بھی عین یہی حال تھا۔

میگگ اور میرا یہ پہلا تیندوا تھا۔ ہوا چونکہ ہماری جانب سے تیندوے کو جا رہی تھی۔ میں انتہائی پرجوش تھا لیکن مجھے ڈر بالکل نہیں لگا۔ اب زندگی بھر کے تجربے سے میں کہہ سکتا ہوں کہ چونکہ تیندوا ہماری طرف بری نیت نہیں رکھتا تھا، اس لیے مجھے ڈر نہیں لگا۔ سڑک سے بھگائے جانے کے بعد تیندوا انہی پتھروں کی طرف بھاگا جہاں سے ہم آ رہے تھے اور ہمارے سامنے پہنچتے ہی اس نے ایک چھوٹے بچے اور ایک کتے کو دیکھا جو عین اس کی راہ فرار پر بیٹھے تھے۔ اس نے وہیں رک کر صورتحال کا جائزہ لیا۔ ایک نظر میں تیندوے نے بھانپ لیا کہ اسے ہماری طرف سے کوئی خطرہ نہیں۔ ہمارے جنگلوں میں تیندوا صورتحال کا سب سے زیادہ تیزی سے ادراک کر لیتا ہے۔جب وہ ہماری جانب سے مطمئن ہوا کہ ہمارے پیچھے اور کوئی انسان نہیں جو اس کا راستہ روک سکے، تیندوا اٹھا اور نہایت نفاست اور پھرتی سے ہمارے پیچھے جنگل میں گم ہو گیا۔ جب ہوا نے تیندوے کی بو میگگ تک پہنچائی تو اسے احساس ہوا کہ ابھی تک بلا خوف وہ جس خوبصورت جانور کو دیکھ رہا تھا، وہ اس کی جان بھی لے سکتا تھا۔ میگگ کی بڑی جسامت بھی تیندوے کے لیے مسئلہ نہیں تھی کہ ہمارے جنگلوں میں تیندوے سے زیادہ ماہر شکاری اور کوئی نہیں۔