(ہمسٹرنگ کرنا یعنی ٹانگوں کے پٹھے کاٹ کر جانور کو کھڑے ہونے یا بھاگنے سے معذور کر دینا)

بچپن کے دن اور وہ سال جو میں نےاسکول میں گذارے اور پھر جب میں بنگال میں کام کر رہا تھا یا پھر دونوں عالمی جنگوں کے درمیان، میں نے اپنی ساری چھٹیاں ہمیشہ کالاڈھنگی اور اس کے آس پاس کے جنگلوں میں گذاریں۔ ان برسوں کے دوران میں اگر میں اتنا نہیں سیکھ سکا جتنا کہ مجھے سیکھنا چاہیے تھا تو یہ میری غلطی شمار ہوگی کیونکہ میرے پاس یہ سب سیکھنے کے بے شمار مواقع تھے۔ یہ مواقع اب شاید ہی کسی کو ملیں کہ بڑھتی ہوئی آبادی کے دباؤ کی وجہ سے وہ جگہیں بھی کاشت کاری کے لیے استعمال ہو رہی ہیں جو میرے وقتوں میں جنگلی جانوروں کی آماج گاہیں ہوتی تھیں۔ میرے خیال میں اس تباہی کا ایک بہت بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں بندر جنگل سے نکل کر آباد زمینوں میں گھس گئے ہیں اور اب حکومتی سطح پر بھی ان سے نمٹنا مشکل ہو گیا ہے کہ ہندوؤں کے مذہبی جذبات مجروح نہ ہوں جو انہیں مقدس سمجھتے ہیں۔ میرے خیال میں ایک دن ایسا آئے گا کہ ان بندروں سے چھٹکارا پانا ضروری ہو جائے گا کہ محض وسطی صوبوں میں ایک اندازے کے مطابق کم از کم ایک کروڑ بندر ہیں۔ جب یہ ایک کروڑ بندر فصلوں اور باغات کے پھلوں پر گذارا کر رہے ہوں تو یہ ایک سنگین مسئلہ ہے۔

اگر مجھے پہلے سے علم ہوتا کہ میں یہ کتاب لکھوں گا تو میں کہیں زیادہ ذوق و شوق سے سیکھتا کیونکہ جنگل میں گھومنے پھرنے سے مجھے ہمیشہ دلی خوشی ملتی ہے اور وہی خوشی میں آپ سے شیئر کرتا ہوں۔ میری خوشی اس وجہ سے ہے کہ جنگلی جانور اپنے فطری ماحول میں ہمیشہ خوش رہتے ہیں۔فطرت میں اداسی یا تاسف نہیں ہوتا۔ پرندوں کے غول سے ایک پرندہ اگر باز پکڑ لے جائے یا جانوروں میں سے ایک کو کوئی درندہ مار کھائے تو باقی یہ سوچ کر خوش ہوتے ہیں کہ شکر ہے کہ آج ان کی باری نہیں تھی اور کل کی انہیں کوئی فکر نہیں ہوتی۔ جب میں نادان تھا تو میں باز اور عقاب کے شکار کردہ پرندوں اور درندوں کے شکار کردہ جانور کو بچانے کی کوشش کرتا تھا۔ تاہم ایک جان بچانے کی کوشش میں ہمیشہ دو جانیں ہی ضائع ہوتی تھیں۔ باز، عقاب اور درندوں کے پنجوں میں گلا سڑا گوشت لگا ہوتا ہے اور ان سے لگنے والے زخم کا فوری علاج نہ کیا جائے تو شاید ہی سو میں سے ایک جانور یا پرندہ بچ سکے۔ مزید برآں، اپنے شکار سے ہاتھ دھونے کے بعد یہی پرندے یا جانور اپنی یا اپنے بچوں کی بھوک مٹانے کے لیے فوراً دوسرا شکار کر لیتے تھے۔

چند مخصوص پرندے اور جانور فطرت میں توازن کا کام دیتے ہیں۔ اس کام کو سرانجام دینے اور اپنا پیٹ بھرنے کے لیے وہ شکار کرتے ہیں کیونکہ ان کا معدہ محض گوشت ہضم کرتا ہے۔ جہاں تک ممکن ہو، شکار انتہائی تیزی اور مہارت سے ہوتا ہے۔ شکار کو ہر ممکن جلدی ہلاک کرنے میں شکاری کا یہ مفاد ہوتا ہے کہ اس طرح دیگر جانوروں کو اس کا پتہ نہیں چلتا جبکہ شکار کو زیادہ تکلیف کے بغیر موت آ جاتی ہے۔

ہر نسل کے شکاری کے شکار کا اپنا طریقہ ہوتا ہے اور زیادہ تر یہ شکاری اور شکار کی جسامت پر منحصر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر شکرا ہمیشہ زمین پر شکار کرتا اور وہیں کھاتا ہے لیکن بعض اوقات اڑتے ہوئے ہوا میں ہی چھوٹا پرندہ پکڑ کر وہیں چٹ کر جاتا ہے۔ اسی طرح بعض اوقات شیر پنجے کی ایک ہی ضرب سے جانور مار لیتا ہے تو بعض اوقات اسے پہلے جانور کو ہمسٹرنگ کر کے پھر مارنا پڑتا ہے۔

درندے ہوں یا پرندے، کبھی اپنی ضرورت سے زیادہ شکار نہیں کرتے۔ تاہم محض شکار کی نیت سے زیادہ شکار کرنے کا کام چند ہی جانور انتہائی مخصوص حالات میں کرتے ہیں۔ ان کی مثال پائن مارٹن، جنگلی بلی اور نیولے ہیں۔ شکار انتہائی وسیع موضوع ہے اور ذیل کے دو واقعات سے وضاحت کرتا ہوں۔

جب پرسی ونڈہم کماؤں کے کمشنر تھے تو سر ہارکورٹ بٹلر، صوبجات متحدہ کے گورنر نے ان سے فرمائش کی کہ لکھنؤ کے نئے چڑیا گھر کے لیے ایک اژدہا تلاش کریں۔ ونڈہم اس وقت اپنے سرمائی دورے پر نکلے تھے اور کالاڈھنگی پہنچ کر انہوں نے مجھے اس بارے بتایا۔ اس وقت مجھے معلوم تھا کہ ایسا ہی ایک اژدہا پاس ہی رہتا ہے۔ اگلے دن ونڈہم اور ان کے دو شکاریوں کو ساتھ لے کر میں ہاتھی پر نکلا۔ میں اس اژدہے کو برسوں سے ایک ہی علاقے میں دیکھ رہا تھا اس لیے اس کی تلاش آسان تھی۔

جب ہم اس جگہ پہنچے تو اس وقت اژدہا ندی کی تہہ میں لیٹا ہوا تھا اور ایک یا دو انچ جتنا شفاف پانی اس کے اوپر سے گزر رہا تھا۔ دور سے ایسا لگتا تھا کہ جیسے کسی عجائب گھر کے شیشے کے ڈبے میں بند ہو۔ جونہی ونڈہم کی نظر پڑی، وہ فوراً بولے کہ یہی اژدہا چاہیے۔ انہوں نے فوراً اپنے شکاریوں کو ہاتھی سے بندھی رسی کھولنے کا حکم دیا۔ پھر انہوں نے خود رسی کے ایک طرف پھندا بنایا اور شکاریوں کو نیچے اتر کر اژدہے کو اس پھندے میں پھنسانے کا حکم دیا۔ دونوں شکاری ہکا بکا رہ گئے اور بولے کہ یہ تو ممکن نہیں۔ ونڈہم نے انہیں تسلی دی کہ "فکر نہ کرو، اگر اس نے حملہ کیا تو رائفل سے اسے گولی مار دوں گا"۔ تاہم شکاریوں نے پھر بھی انکار کیا۔ ونڈہم نے مجھ سے پوچھا کہ اگر میں یہ کام کرنا چاہوں۔ میں نے پورے خلوص دل سے انہیں بتایا کہ کسی بھی قیمت پر میں یہ کام نہیں کرنے والا۔ خیر، رائفل مجھے پکڑا کر ونڈہم ہاتھی سے نیچے اترے۔

مجھے ابھی تک افسوس ہے کہ اس وقت میرے ہاتھ میں رائفل کی بجائے وڈیو کیمرا نہیں تھا ورنہ اگلے چند منٹ جو کچھ میں نے دیکھا، اس سے زیادہ ہنسی مجھے کبھی نہیں آئی۔ ونڈہم کا ارادہ تھا کہ اژدہے کی دم کو پھندے میں پھنسا کر اسے خشکی پر گھسیٹ کر باندھ لیں گے اور ہاتھی پر لاد کر گھر روانہ ہو جائیں گے۔ جب ونڈہم نے یہ منصوبہ شکاریوں کو بتایا تو وہ بولے کہ آپ اژدہے کی دم میں پھندا ڈال دیں، ہم اسے گھسیٹ کر خشکی پر لائیں گے۔ تاہم ونڈہم کے خیال میں شکاری یہ کام بہتر کر سکتے تھے۔ آخرکار آنکھ مچولی کھیلتے ہوئے تینوں بندے پانی میں اترے۔ ہر ایک کی کوشش تھی کہ رسی کو پھندے سے سب سے دور سے پکڑیں۔ جب وہ اژدہے کے بالکل قریب پہنچ گئے تو انہوں نے اس بات پر بحث شروع کر دی کہ ان میں سے کون اژدہے کی دم پھندے میں ڈالے گا۔ ابھی یہ بحث جاری ہی تھی کہ اژدہے نے اپنا سر پانی سے ایک یا دو فٹ جتنا اوپر اٹھایا اور ان کی طرف سرکنے لگا۔ "بھاگو صاحب" کا نعرہ لگا کر تینوں ہی پانی سے نکل بھاگے۔ جتنی دیر تک وہ کنارے پر جھاڑیوں تک پہنچتے، اژدہا جامن کے درخت کی جڑوں کے نیچے سے ہوتا ہوا نظروں سے اوجھل ہو گیا جبکہ میں اور مہاوت ہنس ہنس کر بے حال ہو گئے۔

ایک ماہ بعد مجھے ونڈہم کا خط ملا کہ وہ اگلے روز کالا ڈھنگی پہنچ رہے ہیں اور ایک بار پھر سے وہ اژدہے کو پکڑنے کی کوشش کریں گے۔ جیف ہاپکنز اور ان کا ایک دوست انہی دنوں انگلینڈ سے آئے ہوئے تھے، بھی میرے ساتھ تھے۔ ہم تینوں اسی اژدہے کو تلاش کرنے نکلے۔ اس کی رہائش گاہ کے نزدیک سانبھروں کی ایک گذرگاہ تھی۔ اس جگہ سانبھروں کے کھروں کے کٹاؤ سے زمین پر انتہائی باریک مٹی جمع ہو گئی تھی۔ اسی جگہ ہم نے اژدہا دیکھا جو چند منٹ ہی قبل مارا گیا تھا۔ اسے اودبلاؤ کے جوڑے نے مارا تھا۔

اژدہے یا مگرمچھ کو اود بلاؤ ہمیشہ شکار کی نیت سے مارتے ہیں اور انہیں کبھی چکھتے تک نہیں۔ عام طور پر نر اور مادہ دونوں طرف سے اپنے شکار کو گھیر لیتے ہیں۔ جب اژدہا یا مگرمچھ ایک طرف اپنا بچاؤ کرنے کے لیے مڑتا ہے تو دوسری جانب کا اودبلاؤ جست کر کے سر کے نزدیک سے ایک بوٹی کاٹ لیتا ہے۔ جتنی دیر میں شکار اس جانب مڑے، دوسری جانب والا اودبلاؤ یہی کچھ کرتا ہے۔ اس طرح گوشت کترتے کترتے گردن کی ہڈی تک پہنچ جاتے ہیں تو شکار جا کر ہلاک ہوتا ہے کیونکہ مگرمچھ ہو یا اژدہا، دونوں بہت سخت جان ہوتے ہیں۔

یہ والا اژدہا ساڑھے 17 فٹ لمبا اور کم از کم 26 انچ موٹا تھا۔ اسے مارنے میں اودبلاؤ کے جوڑے کو کافی مشکل پیش آئی ہوگی۔ تاہم اودبلاؤ بہت بہادر ہوتے ہیں اور شکار میں خطرے کی مقدار جتنی زیادہ ہو، اسے اتنی اہمیت دیتے ہیں۔

دوسرے واقعے میں ایک بڑے نر ہاتھی اور شیروں کے جوڑے کے درمیان میں جنگ ہوئی تھی۔ اگر اسے ہم شکار برائے شکار نہ سمجھیں تو پھر میرے پاس کوئی اور وجہ نہیں کہ یہ لڑائی کیوں ہوئی تھی۔ اس واقعے کو ہندوستانی پریس میں کئی بار پیش کیا گیا اور مشہور شکاریوں نے دی پائنیر اور دی سٹیٹس مین کو خط لکھے۔ مشہور مفروضے یہ تھے کہ شیروں نے بدلہ لینے کے لیے ہاتھی کو ہلاک کیا کہ ہاتھی نے ان کا بچہ مارا تھا، پرانی دشمنی اور پیٹ بھرنے کے لیے شکار کیا گیا۔ تاہم کسی بھی لکھاری یا شکاری نے یہ واقعہ اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا اور اس طرح کا واقعہ کبھی کسی کے مشاہدے میں نہیں آیا، اس لیے یہ نظریات محض مفروضات ہی ہیں۔

پہلی بار میں نے ہاتھی اور شیروں کے اس مقابلے کے بارے تب سنا جب مجھ سے ترائی اور بھابھر کے سپرنٹنڈنٹ نے پوچھا 200 گیلن مٹی کا تیل ایک ہاتھی کی لاش کو جلانے کے لیے کافی ہے؟ جب انہوں نے مزید تفتیش کی تو پتہ چلا کہ شیروں کے جوڑے نے ہاتھی کو تنک پور میں پتھریلی زمین پر ہلاک کیا ہے اور اسے دفن کرنا ممکن نہیں۔ ہاتھی کی لاش جلانے والے اب اپنے اخراجات وصول کرنا چاہ رہے تھے۔ مجھے یہ سارا معاملہ بہت دلچسپ لگا لیکن دس دن پرانا واقعہ ہونے کی وجہ سے نشانات مٹ گئے تھے اور جو باقی بچے تھے، وہ آگ لگنے اور تیز بارش کی وجہ سے ختم ہو گئے تھے۔

تنک پور کا نائب تحصیلدار میرا دوست ہے اور اس نے اگرچہ یہ سارا واقعہ دیکھا تو نہیں لیکن اپنے کانوں سے سنا تھا۔ اس نے مجھے یہ واقعہ بتایا:

تنک پور چونکہ اودھ سے ترہٹ جانے والی ریلوے کا آخری سٹیشن اور تجارتی مرکز ہے، اس لیے اس کی اپنی اہمیت ہے اور یہ دریائے سردا کے دائیں کنارے عین اس جگہ واقع ہے جہاں دریا پہاڑوں سے نکلتا ہے۔ 30 سال قبل دریا تنک پور کے ساتھ سے گذرتا تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس کا رخ بدلتا رہا اور مندرجہ بالا واقعے کے وقت تنک پور سے دریا دو میل دور بہتا تھا۔ دریا کا کنارہ تو سو فٹ بلند ہے لیکن دریا کی کئی شاخیں گذرتی ہیں جن میں بنے جزیروں پر درخت اور دیگر جھاڑ جھنکار اگ آئے ہیں۔

ایک دن دو ملاح جو تنک پور رہتے تھے، سردا سے مچھلیاں پکڑنے گئے۔ اس دن وہ کچھ زیادہ دیر تک رکے رہے اور جب واپسی کا رخ کیا تو سورج ڈوبنے لگا تھا اور ان کے سامنے دو میل کا سفر باقی تھا۔ سو فٹ اونچے کنارے اور ان کے درمیان میں دریا کی ایک چھوٹی سی شاخ بہہ رہی تھی اور جب وہ گھاس کے گھنے قطعے سے نکلے تو ان کے سامنے دوسرے کنارے پر دو شیر کھڑے دکھائی دیے۔ یہ شاخ کوئی 40 گز چوڑی ہوگی اور تھوڑا سا پانی اس میں بہہ رہا تھا۔ چونکہ شیر عین ان کے راستے پر کھڑے تھے، اس لیے یہ دونوں وہیں گھاس میں ہی چھپ کر بیٹھ گئے تاکہ کچھ دیر میں شیر کہیں چل دیں۔ چونکہ ان جنگلوں میں شیر دکھائی دینا عام بات تھی اس لیے ملاحوں نے زیادہ فکر نہ کی۔ اب جو افراد جنگل سے زیادہ واقف نہیں ہیں، ان کی سہولت کے لیے میں بتاتا ہوں کہ سورج ڈوب چکا تھا اور ہلکی روشنی باقی تھی کہ پورا چاند طلوع ہو گیا۔ دونوں شیر اچھی روشنی میں سامنے دکھائی دے رہے تھے۔ جس جانب سے یہ ملاح آئے تھے، اسی طرف گھاس ہلی اور اس میں سے ایک ہاتھی نکلا۔ یہ ہاتھی تنک پور کے جنگلوں میں کافی بدنام تھا کہ وہ فارسٹ بنگلے کی چھت کے ستون اکھاڑتا رہتا تھا۔ تاہم یہ ہاتھی مست یا دیوانہ نہیں تھا اور اس نے کبھی انسانوں کو نقصان نہیں پہنچایا تھا۔

جب ہاتھی پانی کے پاس پہنچا تو سامنے دو شیروں کو دیکھ کر اس نے اپنی سونڈ اونچی کی اور زور سے آواز نکال کر ان کی طرف بڑھا۔ شیروں نے اب ہاتھی کا رخ کیا۔ جب ہاتھی ان کے پاس پہنچا تو ایک شیر ہاتھی کے سامنے دھاڑنے لگا جبکہ دوسرا شیر چکر کاٹ کر پیچھے جا پہنچا۔ اب اس نے جست لگائی اور ہاتھی کی پیٹھ پر چڑھ گیا۔ جھومتے ہوئے ہاتھی نے اس شیر کو پیٹھ سے ہٹانے کے لیے سونڈ ہلائی تو سامنے والا شیر اس کے سر پر جھپٹ پڑا۔ غصے سے ہاتھی چلا رہا تھا اور دونوں شیر پوری قوت سے دھاڑ رہے تھے۔ جب شیر غصے سے دھاڑے تو بہت دہشت ناک آواز پیدا ہوتی ہے۔ جب اس شور و غل میں ہاتھی کی چنگھاڑیں شامل ہوئیں تو ملاحوں کی ہمت جواب دے گئی اور اپنے جال اور مچھلیاں چھوڑ کر وہ سیدھے تنک پور کو بھاگے۔

تنک پور میں رات کے کھانے کی تیاریاں ہو رہی تھیں کہ انہیں یہ شور سنائی دیا۔ کچھ ہی دیر بعد دونوں ملاح بھی آن پہنچے اور پوری کہانی سنائی۔ کئی منچلے لڑائی دیکھنے دریا کے سو فٹ بلند کنارے پر جا پہنچے۔ تاہم جب انہیں احساس ہوا کہ لڑائی کی آوازیں لحظہ بہ لحظہ قریب تر ہوتی جا رہی ہیں تو ہر کوئی سر پر پیر رکھ کر بھاگا اور سارے گھروں کے دروازے بند ہو گئے۔ لڑائی کے دورانیہ کے بارے متضاد بیانات ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ لڑائی ساری رات جاری رہی اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ نصف شب تک لڑائی ختم ہو گئی تھی۔ مسٹر میتھیسن جن کا بنگلہ اسی اونچے کنارے کے پاس ہی تھا، کے بقول یہ لڑائی کئی گھنٹے جاری رہی اور ان کے مطابق انہوں نے کبھی اس سے زیادہ خوفناک آوازیں نہیں سنیں۔ رات کی خاموشی میں کئی بار گولیوں کی آوازیں سنائی دیں لیکن یہ بات واضح نہیں کہ گولیاں پولیس نے چلائی تھیں یا پھر مسٹر میتھیسن نے، لیکن لڑائی پر کوئی فرق نہ پڑا اور وہ پوری شدت سے جاری رہی۔

صبح جب تنک پور کے باشندے دریا کے اونچے کنارے پر جمع ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ ہاتھی مر چکا تھا۔ نائب تحصیلدار کی بتائی ہوئی تفصیل سے میرا اندازا ہے کہ ہاتھی جریان خون سے مرا۔ شیروں نے ایک لقمہ تک ہاتھی کی لاش سے نہ کھایا اور ہاتھی کے پاس یا تنک پور کے گرد و نواح میں زخمی یا مردہ کوئی شیر بھی نہ دکھائی دیا۔

میرا خیال ہے کہ لڑائی کے شروع میں شیروں کی نیت ہاتھی کو ہلاک کرنے کی ہرگز نہیں تھی۔ پرانی دشمنی، بچے کا بدلہ وغیرہ سب غلط ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسا نر ہاتھی جس کے بیرونی دانتوں کا وزن 90 پاؤنڈ سے زیادہ تھا، کو دو شیروں نے ہلاک کیا تھا۔ میرا خیال ہے کہ جب دو شیروں کے ملاپ کے وقت ہاتھی نے انہیں دھمکانے کی کوشش کی تو اصل لڑائی شروع ہو گئی۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ جب دوسرا شیر ہاتھی کے سر پر جھپٹا تو اس نے فوراً ہی ہاتھی کی آنکھیں نکال دی ہوں گی۔ درد سے بے تاب ہو کر ہاتھی جب دریا کے کنارے گول پتھروں پر پہنچا تو وہیں پھنس گیا کہ اندھا ہونے اور پھسلوان زمین کی وجہ سے وہ بھاگ نہ سکا اور پھر شیروں نے اسے مار ڈالا۔

تمام درندے اپنے شکار کو اپنے دانتوں سے ہلاک کرتے ہیں اور وہ درندے جو پنجوں سے شکار کو ہلاک کرتے ہیں، وہ بھی بعض اوقات شکار کو پکڑنے اور ہلاک کرنے سے قبل قابو کرنے کے لیے دانت استعمال کرتے ہیں۔ اگر شکار کا پیچھا کر کے اسے ہلاک نہ کیا جائے تو درندے جب شکار پر جھپٹتے ہیں تو پتہ بھی نہیں چلتا کہ کب کیا ہوا۔ بیسیوں بار بھی یہ مناظر دیکھ کر میں آج تک ان کی درست حرکات و سکنات کی وضاحت نہیں کر سکتا۔ صرف ایک بار میں نے ایک مادہ چیتل پر ہوا کی مخالف سمت سے اور سیدھا سامنے سے ہوتا ہوا حملہ میں نے دیکھا ہے۔ شیر اور تیندوے جن جانوروں کو شکار کرتے ہیں، ان کے سینگ درندوں کے لیے مہلک بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔ باقی تمام حملے جو میں نے دیکھے، وہ پہلو سے یا عقب سے کئے گئے تھے اور ایک جست اور چند قدم کی دوڑ اور پھر حملہ کر کے پنجوں سے شکار کو گرا کر اس کا گلا دبوچ لینا، بجلی کی سی رفتار سے ہوتا ہے۔ چرندوں کو شکار کرتے وقت درندوں کو کافی احتیاط کرنی پڑتی ہے۔ سانبھر یا چیتل کے کھر کی ایک ہی ضرب درندے کی آنتیں باہر نکال سکتی ہے۔ چوٹ سے بچنے اور جانور کو کھڑے ہونے سے روکنے کے لیے درندے شکار کے سر کو پکڑ کر نیچے موڑتے ہوئے گھما دیتے ہیں جس سے جانور نہ تو اٹھ کر بھاگ سکتا ہے اور نہ ہی اس کے کھر درندے کو کوئی نقصان دے سکتے ہیں۔ اگر جانور اٹھنے کی کوشش کرے تو اس کی گردن ٹوٹ جاتی ہے۔ بہت بڑا جانور ہو تو گرتے ہی اس کی گردن ٹوٹ جاتی ہے۔ بعض اوقات درندوں کے بڑے دانت بھی گردن توڑ دیتے ہیں۔ تاہم اگر گردن نہ ٹوٹے تو پھر شکار کا گلا گھونٹ کر اسے ہلاک کیا جاتا ہے۔

میرے مشاہدے میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ تیندوے نے اپنے شکار کو ہلاک کرنے سے قبل اس کو ہمسٹرنگ کیا ہو لیکن شیروں کو کئی بار ایسا کرتے دیکھا ہے۔ تاہم ان تمام مشاہدات میں ہمسٹرنگ یا کام دانتوں کی بجائے پنجوں سے کیا گیا تھا۔ ایک بار میرے ایک دوست نے بتایا کہ ان کی ایک گائے کو نینی تال سے چھ میل دور ہلاک کیا گیا ہے۔ ان کے پاس مویشیوں کا بہت بڑا ریوڑ تھا اور انہوں نے بہت بار اپنے مویشی شیروں اور تیندوؤں سے ہلاک ہوتے دیکھے تھے۔ مذکورہ واقعے میں گردن پر دانتوں کے نشانات کی عدم موجودگی اور جس طریقے سے گوشت نوچا گیا تھا، اس سے انہوں نے اندازا لگایا کہ یہ کسی نامعلوم جانور کا کام ہے۔ جب مجھے خبر ملی تو دن کافی باقی تھا، اس لیے دو گھنٹے بعد ہم جائے وقوعہ پر جا پہنچے۔ پوری طرح جوان گائے کو 50 فٹ چوڑے فائر ٹریک کے عین درمیان میں ہلاک کیا گیا تھا اور اسے گھسیٹ کر لے جانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ جب مجھے اس واردات کی اطلاع ملی تو تفصیل سے میں نے اندازا لگایا کہ کسی ریچھ نے گائے کو ہلاک کیا ہوگا۔ اگرچہ ریچھ باقاعدہ گوشت خور جانور نہیں لیکن کبھی کبھار وہ جانور مار کر کھا بھی لیتے ہیں۔ چونکہ ان کی جسمانی ساخت جانوروں کا شکار کرنے کے لیے مناسب نہیں، اس لیے وہ بہت برے شکاری ہوتے ہیں۔ تاہم اس گائے کو ریچھ نے نہیں بلکہ شیر نے انتہائی عجیب طریقے سے ہلاک کیا تھا۔ شیر نے پہلے ہمسٹرنگ کیا اور پھر پیٹ پھاڑ کر گائے کو ہلاک کیا۔ ہلاک کرنے کے بعد شیر نے پنجوں سے گائے کے پچھلے حصے سے گوشت نوچ نوچ کر کھایا۔ چونکہ سخت زمین پر کھوج لگانا ممکن نہیں تھا اس لیے میں نے باقی کا سارا دن اس شیر کو تلاش کر کے شکار کرنے کی کوشش میں صرف کیا۔ مغرب کے وقت میں گائے کی لاش پر لوٹا اور ساری رات ایک درخت پر بیٹھ کر گذاری۔ شیر نہ تو اس شکار پر واپس آیا اور نہ ہی اپنے شکار کردہ اگلے نو جانوروں پر۔ یہ جانور بھی عین اسی طرح ہلاک کئے گئے تھے جن میں تین کم عمر بھینسے اور 6 گائیں تھیں۔

انسانی نکتہ نظر سے جانور ہلاک کرنے کا یہ طریقہ انتہائی ظالمانہ تھا لیکن شیر کے لیے یہ بات بیکار ہے۔ چونکہ شیر اپنی خوراک خود مار کر کھاتا ہے تو اس کا شکار کرنے کا طریقہ اس کی جسمانی حالت پر منحصر ہے۔ جانور کو پنجوں کی مدد سے مارنا، اسے گھسیٹ کر منتقل نہ کرنا اور پھر پنجوں سے گوشت نوچ نوچ کر کھانا، سب اس بات کا ثبوت ہیں کہ شیر کو کوئی نہ کوئی جسمانی نقص تھا۔ میرے خیال میں یہ جسمانی نقص کسی رائفل کی گولی سے پیدا ہوا تھا جو اس کے نچلے جبڑے کا کچھ حصہ اڑا لے گئی ہوگی۔ میں نے یہ رائے پہلے شکار کو دیکھ کر قائم کی تھی اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ مضبوط ہوتی گئی کہ شیر نے اگلا ہر شکار نسبتاً زیادہ وقفے سے کیا اور نسبتاً کم گوشت کھایا۔ شاید اپنے شکار پر واپس آتے وقت اسے یہ گولی لگی ہوگی اور اسی وجہ سے وہ واپس کبھی اپنے شکار پر نہ لوٹا۔ چونکہ اس علاقے میں ان دنوں نہ تو کوئی شیر شکار ہوا اور نہ ہی کوئی مردہ شیر دکھائی دیا، میرا اندازا ہے کہ یہ شیر پاس ہی موجود پہاڑوں کی کسی غار میں سسک سسک کر مر گیا ہوگا۔

ظاہر ہے کہ یہ واقعہ نوعیت کے اعتبار سے غیر معمولی ہے لیکن میں نے اس کے علاوہ بھی ہمسٹرنگ ہوتی دیکھی ہے۔ شیروں کے شکار کئے ہوئے دو سب سے بڑے بھینسے بھی اسی طرح ہمسٹرنگ کر کے شکار کئے گئے تھے۔