جیسا کہ میں نے پہلے بتایا، کتابِ فطرت کی نہ تو کوئی ابتداء ہے اور نہ ہی انتہا۔ میں کبھی بھی یہ نہیں کہوں گا کہ جنگل کی زبان سے متعلق میں نے سب کچھ جان لیا ہے یا پھر اس کتاب میں اس موضوع پر ماہرانہ رائے موجود ہے۔ تاہم ساری زندگی فطرت کے قریب رہ کر گذارنے اور سیکھنے کے عمل میں جو کچھ مجھے پتہ چلا ہے، وہ میں بغیر کسی جھجھک کے یہاں پیش کر رہا ہوں۔ میں یہ بھی نہیں سمجھتا کہ جو کچھ میں لکھ رہا ہوں، ہر کوئی اس پر آنکھیں بند کر کے ایمان لے آئے گا لیکن اس بات پر کوئی شک نہیں کہ ایک ہی چیز کو دو افراد دو مختلف انداز سے دیکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر گلاب کے پھول کو اگر تین افراد دیکھیں تو ایک کو شاید گلاب کا رنگ دکھائی دے، دوسرا اس کی ساخت پر غور کرے اور تیسرے کو یہ دونوں چیزیں دکھائی دیں۔ تاہم تینوں کو وہی کچھ دکھائی دیا ہے جو وہ دیکھنا چاہتے تھے اور تینوں ہی سچے ہوں گے۔ جب ہندوستان کے صوبجات متحدہ کے وزیرِ اعظم کا اور میرا کسی بات پر اختلاف ہوا تو انہوں نے کہا کہ "بے شک ہمارا اس بات پر اختلاف ہے لیکن ہم پھر بھی دوست رہیں گے"۔ اسی طرح اگر میرے قارئین میری کسی بات سے اختلاف کریں تو کوئی بات نہیں اور ہماری دوستی اسی طرح رہے گی۔

ابتداء میں مجھے ان جانوروں کی شناخت میں الجھن ہوتی تھی جن کے پنجوں کے نشانات ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہوتے تھے۔ مثلاً نو عمر سانبھر اور نو عمر نیل گائے کے پگ بڑے سور کے پگ سے بہت مماثل ہوتے ہیں۔ تاہم ان جانوروں کو باری باری آبی گذرگاہ عبور کرتے اور پھر فوراً ہی ان کے کھروں کے نشانات دیکھنے سے جلد ہی مجھے اندازا ہو گیا کہ ایک نظر ڈال کر میں کیسے ان جانوروں کے نشانات میں فرق کر سکتا ہوں۔ سور کے کھروں میں ہرنوں کی مانند اگلے دو سموں کے علاوہ پیچھے دو چھوٹے کھر بھی ہوتے ہیں۔ تاہم سور میں یہ کھر ہرنوں کی نسبت زیادہ لمبے ہوتے ہیں۔ اگر سور کسی سخت زمین پر نہ چل رہا ہو تو یہ چھوٹے کھر لازمی طور پر نشان چھوڑتے ہیں۔ ہرنوں میں ان کھروں کے نشانات تب دکھائی دیتے ہیں جب زمین اتنی نرم ہو کہ ان کے کھر پوری طرح زمین میں کھب جائیں۔ اسی طرح شیر کے بچے یا تیندوے کے کھروں کے نشانات کا فرق جاننا ایک مبتدی کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے کیونکہ دونوں کا رقبہ ایک جیسا ہوتا ہے۔ دونوں کا فرق جاننے کے لیے ان کے ناخنوں کو دیکھنا پڑتا ہے۔ شیر کے بچے کے پگوں میں ناخن نسبتاً کافی زیادہ بڑے اور لمبے ہوتے ہیں۔

اسی طرح لگڑبگڑ اور جنگلی کتوں کے پنجوں کے نشان بھی اکثر مشکل ہو جاتے ہیں۔ یہاں دو بنیادی اصول آپ کے گوش گزار کرتا ہوں جن سے آپ ان کی پہچان کر سکتے ہیں:

  1. وہ جانور جو اپنے شکار کو دوڑا کر شکار کرتے ہیں، ان کی انگلیاں ان کے پنجوں کی گدی سے زیادہ بڑی ہوتی ہیں جبکہ شکار پر گھات لگانے والے جانوروں کے پیروں کی انگلیاں ان کے پنجوں کی گدیوں کی نسبت زیادہ بڑی نہیں ہوتیں۔
  2. شکار کا پیچھا کرنے والے جانوروں کے ناخن ہمیشہ زمین پر لگتے ہیں جبکہ گھات لگانے والے جانور جب اچانک گھبرا جائیں یا اپنے شکار پر جست کرنے لگیں تو ان کے ناخن کے نشان دکھائی دیتے ہیں۔

اگر آپ بلی اور کتے کے پنجوں کے نشانات دیکھیں تو آپ کو علم ہوگا کہ بڑی گدیاں اور چھوٹی انگلیاں اور چھوٹی گدیاں اور بڑی انگلیاں کیسے دکھائی دیتی ہیں۔

جب آپ ایسے علاقے میں رہتے ہوں جہاں سانپ بکثرت ہوں تو ان کے گذرنے کے نشانات سے یہ بڑی حد تک درستی کے ساتھ جان لینا اہم ہوتا ہے کہ ان میں سے کون سے سانپ زہریلے تھے اور کون سے غیر زہریلے۔ اس نشان سے سانپ کی موٹائی بھی جانچی جا سکتی ہے۔ باری باری ان پر میں روشنی ڈالنے کی کوشش کرتا ہوں:

  1. سمت: سب سے پہلے تو آپ یہ فرض کر لیں کہ کسی کھیت میں چھ انچ اونچی انتہائی گھنی برسیم اگی ہوئی ہے۔ اب اگر آپ اس پر کوئی وزنی رولر پھیرتے ہیں تو آپ دیکھ سکتے ہیں کہ رولر کے پھرنے کی سمت برسیم کچلی یا گری ہوئی ہوگی۔ اب اگر رولر پھرنے کے وقت آپ موجود نہ بھی ہوں تو بھی گری اور کچلی ہوئی برسیم کو دیکھ کر آپ اندازا لگا سکتے ہیں کہ رولر کس سمت کو گیا ہے۔ اگر آپ کی نظر تیز نہیں تو محدب عدسہ لے لیں اور پھر قریب بیٹھ کر سانپ کے گذرنے کے نشان کا جائزہ لیں۔ اب آپ دیکھیں گے کہ مٹی یا ریت میں بہت سارے ذرے عمودی کھڑے ہوتے ہیں۔ جب سانپ گذرتا ہے تو وہ ان ذروں کو گراتا جاتا ہے۔ عین برسیم کی طرح آپ راکھ، ریت یا مٹی کے ذروں کو دیکھ کر اندازا لگا سکتے ہیں سانپ کس سمت گیا ہوگا۔
  2. زہریلا یا غیر زہریلا: جیسا کہ میں نے اوپر کہا، بڑی حد تک درستی کے ساتھ سانپ کے زہریلے یا غیر زہریلے ہونے کے بارے جاننا۔ سمت کے بارے جاننے والا اصول ہمیشہ درست ہوتا ہے لیکن سانپ کے زہریلے ہونے کے بارے آپ اندازا لگا سکتے ہیں۔ اگرچہ میں نے انڈیا میں سامنپوں کی کل 300 اقسام میں سے چند ایک ہی کے نشانات دیکھے ہیں لیکن میرا اصول ان تمام پر لاگو ہوتا ہے اور اس میں محض دو استثنائی سانپ ہوتے ہیں۔ ایک صورت زہریلے سانپ شیش ناگ اور دوسری صورت غیر زہریلے پائتھن کی ہے۔ شیش ناگ کو چھوڑ کر باقی تمام زہریلے سانپ اپنے شکار کی تلاش میں یا تو چھپ کر بیٹھتے ہیں یا پھر چھپ چھپا کر شکار تک پہنچتے ہیں۔ اس لیے ان کی رفتار زیادہ تیز نہیں ہوتی۔ جب کم رفتار والا سانپ کسی جگہ سے گذرتا ہے تو اس کے نشانات پر کافی زیادہ بل دکھائی دیتے ہیں یعنی سانپ لہرا کر چل رہا ہوتا ہے۔ کریٹ یا وائپر نسل کے سانپ انتہائی زہریلے ہوتے ہیں اور جب ان کے گذرنے کے نشانات دیکھیں تو آپ کو لگے گا کہ سانپ بہت لہرا کر چل رہا ہے۔ جب بھی نشانات سے ایسا لگے کہ سانپ لہرا کر چل رہا ہے تو یہ تقریباً یقینی بات ہوتی ہے کہ زہریلا سانپ ہوگا۔ شیش ناگ چونکہ دوسرے سانپوں کو کھا کر زندہ رہتے ہیں، اس لیے ان کی تیز رفتاری ہی انہیں شکار میں مدد دیتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ شیش ناگ کی رفتار گھوڑے جتنی تیز ہوتی ہے۔ اگرچہ کبھی گھڑ سواری کرتے ہوئے نہ میں نے شیش ناگ کا پیچھا کیا اور نہ ہی شیش ناگ نے میرا، اس لیے اس کہاوت کے بارے تو کچھ کہنا ممکن نہیں۔ شیش ناگ 17 فٹ تک لمبا ہو سکتا ہے اور میں نے 14 فٹ لمبے کئی شیش ناگ مارے ہیں، اس لیے مجھے علم ہے کہ وہ کافی تیز رفتار ہوتے ہیں۔ میرے خیال میں چونکہ شیش ناگ دیگر سانپوں کو کھا کر زندہ رہتا ہے تو اس لیے اس کی رفتار بھی تیز ہوتی ہے تاکہ دیگر سانپوں کو پکڑ سکے۔ بے ضرر سانپ ماسوائے پائتھن یعنی اژدہے کے، ہمیشہ پتلے، تیز اور متحرک رہتے ہیں۔ ان کی تیزی کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ان کو شکار پکڑنے میں آسانی رہے۔ دوسری یہ بھی اہم وجہ ہے کہ ان کے دشمن بہت ہوتے ہیں، رفتار کی مدد سے ان سے پیچھا چھڑانا بھی آسان ہو جاتا ہے۔ جب سانپ تیزی سے چلے تو اس کے گذرنے کے نشانات میں بل کم ہوتے ہیں اور کم و بیش سیدھی لکیر کی طرح دکھائی دیتا ہے۔ یعنی نسبتاً سیدھا نشان بے ضرر سانپ سے بنتا ہے۔ جب زمین غیر ہموار ہو تو سانپ کا پیٹ محض اونچائی سے لگے گا، نشیب میں نہیں۔ بے ضرر سانپ کے نشانات سے مشابہت صرف شیش ناگ کی ہوتی ہے اور شیش ناگ کم یاب سانپ ہے اور مخصوص علاقوں میں ہی ملتا ہے۔
  3. موٹائی:کسی بھی سانپ کی موٹائی کا اندازا اس کے گذرنے کے نشان سے لگانا ہو تو اس کے نشان کو کئی جگہ پر ماپ کر اوسط نکال لیں۔ اوسط کو 4 سے ضرب دے دیں تو اس سے آپ کو سانپ کی موٹائی کا اندازا ہو جائے گا۔ اندازا اس لیے کہہ رہا ہوں کہ نرم مٹی کی ہلکی تہہ پر بننا والا نشان اور ریتلی زمین پر بننے والے نشان ایک دوسرے سے بہت فرق ہوتے ہیں اور پیمائش پر بھی فرق جواب آ سکتا ہے۔

ہندوستان میں ہر سال سانپ کے کاٹنے سے 20٫000 افراد ہلاک ہو جاتے ہیں۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ ان میں سے نصف افراد سانپ کے زہر سے اور نصف افراد محض سانپ کے خوف سے جان دے دیتے ہیں۔ اگرچہ ہندوستان کے لوگ ہزاروں سال سے سانپوں کے ساتھ رہتے آئے ہیں لیکن یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ انہیں سانپوں کے بارے کتنی کم معلومات ہیں۔ چند ایک افراد کو چھوڑ کر تقریباً سب ہی سانپوں کو زہریلا سمجھتے ہیں۔ بڑے سانپ کے کاٹنے سے پہنچنے والا صدمہ کافی ہوتا ہے اور جب مضروب کو یہ بھی یقین ہو کہ سانپ زہریلا ہے تو پھر اس کے بچنے کے امکانات کم ہی ہوتے ہیں۔

ہندوستان کے زیادہ تر دیہاتوں میں سانپ کے کاٹے کا دم کرنے والے بندے مل جاتے ہیں۔ چونکہ ہندوستان میں پائے جانے والے سانپوں میں سے محض دس فیصد ہی زہریلے ہوتے ہیں، اس لیے ایسے افراد بہت مشہور ہو جاتے ہیں۔ چونکہ ان کی خدمات مفت ہوتی ہیں اس لیے لوگ ان کی بہت عزت کرتے ہیں اور یہ لوگ بھی اپنے دم وغیرہ سے بہت سارے لوگوں کی جان بچا لیتے ہیں۔

ہندوستان کے زیادہ تر ہسپتالوں میں سانپ کے کاٹے کی ادویات موجود ہوتی ہیں لیکن غریب آدمی بے چارہ یا تو خود چل کر جائے یا پھر اس کے رشتہ دار اسے اٹھا کر ہسپتال تک لے جائیں تو اکثر اتنی دیر ہو چکی ہوتی ہے کہ سانپ کا زہر پھیل چکا ہوتا ہے۔ ہسپتالوں میں زہریلے سانپوں کی تصاویر موجود ہوتی ہیں لیکن زیادہ تر لوگ اندھیرے میں ننگے پاؤں پھرتے ہوئے سانپ کا شکار ہوتے ہیں اس لیے ان تصاویر سے انہیں کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ یہ بھی عام سوچ ہے کہ اگر مارگزیدہ سانپ کو مار دے تو سانپ کا زہر اسے کبھی نہیں چھوڑتا۔ اس لیے چند ہی لوگ سانپ کے کاٹے کے بعد مردہ سانپ لے کر ہسپتال پہنچتے ہیں۔ اس سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ سانپ زہریلا تھا کہ بے ضرر۔

میرا طریقہ یہ ہے کہ جب بھی شک ہو تو میں سانپ کو مار کر اس کا منہ کھول کر دیکھتا ہوں۔ اگر سانپ کے منہ میں دانتوں کی دو رو ہوں تو وہ بے ضرر ہوتا ہے اور اگر اس کے اوپری جبڑے میں دو دانت ہوں تو زہریلا۔ کوبرے کے خاندان کے سانپوں میں یہ دانت جبڑے میں گڑے ہوتے ہیں جبکہ وائپر نسل میں یہ دانت جبڑے میں نہیں گڑے ہوتے۔ بے ضرر سانپ کے کاٹے کے مقام پر دانتوں کی دو رو دکھائی دیں گی جبکہ زہریلے سانپ کے کاٹے کی جگہ پر ایک یا دو سوراخ دکھائی دیں گے کہ بعض اوقات سانپ اطراف سے حملہ کرتا ہے یا انگلی وغیرہ جیسی جگہ پر دونوں دانتوں کی گرفت نہیں ہو پاتی۔