زمرہ:ردیف ب
ردیف ب
dewan mansoor afaq
ترمیم
ب برسات
mansoor afaq poetry
پہلی غزل
ایک شرابی ہاتھ کی دستک اور شراب
جنت کے بنگلے کا پھاٹک اور شراب
پیاس ہوائے شام میں اپنے بین کرے
ابر ہے بامِ ذات کی حد تک اور شراب
مجھ سے تیری یادیں چھین نہیں سکتے
اُس بازار کے سارے گاہک اور شراب
سات سمندر پار کا ایک پرانا کوٹ
بیچ سڑک کے ٹوٹی عینک اور شراب
سناٹوں کی آوازوں کا ایک ہجوم
شور میں گم ہوجانے کا شک اور شراب
تیری گلی آواز ِ سگاں ،مجذوب ضمیر
ڈوب رہی ہے رات کی کالک اور شراب
عمر ہوئی میخانے کے دروازے پر
دست و گریباں میرا مسلک اور شراب
رات کے پچھلے پہر لہو کی صورت تھے
میری رگوں میں گھنگھرو ڈھولک اور شراب
کھلتا سرخ سا فیتہ ، دوشیزہ فائل
انٹر کام کی بجتی دستک اور شراب
دیکھ کے موسم خود ہی بچھتے جاتے ہیں
صحرا کی سہ پہر میں اجرک اور شراب
اک منصور گلی میں دو دیواریں ہیں
ساتھ مری بے مقصد بک بک اور شراب
دیوان منصور آفاق
ردیف ب
دوسری غزل
منصور پر خدائی کے الزام کے سبب
مارا نہ جائوں میں بھی کہیں نام کے سبب
بس رہ گئی ہے یاد میں بجھتی سی ریل کار
میں لیٹ ہو گیا تھا کسی کام کے سبب
مہکا ہوا ہے دیر سے میری گلی کا موڑ
خوشبو پہن کے چلتی ہوئی شام کے سبب
کر لوں گا آسمانوں پہ آباد بستیاں
میں پُر یقیں ہوں زینہ ء ایام کے سبب
چہرے تک آ گئی تھیں شعاعوں کی ٹہنیاں
جاگا ہوں آفتابِ لبِ بام کے سبب
کتنے سفید کتنے حسین و جمیل لوگ
چھوڑ آیا ایک حسن سیہ فام کے سبب
انجامِ گفتگو ہوا پھولوں کے درمیان
آغازِ گفتگو ہوا دشنام کے سبب
بیٹھا ہوں کوہِ سرخ کے پتھر تراشتا
دریائے سندھ ! آپ کے پیغام کے سبب
صحرا نے صادقین کی تصویر پہن لی
اک نظمِ گردباد کے الہام کے سبب
جس کی مجھے تلاش تھی وہ درد مل گیا
میں کامیاب صحبتِ ناکام کے سبب
سورج پلٹ گیا ہے ملاقات کے بغیر
زلف سیہ کے بسترِ بدنام کے سبب
پروردگارِ اول و آخر سے پانچ وقت
ملتے ہیں لوگ کمرہ ء اصنام کے سبب
شب ہائے زخم زخم گزارے خوشی کے ساتھ
لندن کی ایک غم زدہ مادام کے سبب
منصور مولوی سے ہو میرا حساب بھی
کافر ہوا ہوں چہرہ ء اسلام کے سبب
دیوان منصور آفاق
ردیف ب
تیسری غزل
کچھ موتیے کے پھول ہوئے زرد بے سبب
ناراض ہو گئے مرے ہمدرد بے سبب
ویسے محوِ آئینہ داری تھی میری آنکھ
پھیلی ہے میرے چاروں طرف گرد بے سبب
کرتے رہے ہیں میرا تعاقب قدم قدم
شہرِ شبِ فراق کے کچھ فرد بے سبب
یہ سچ ہے اس سے کوئی تعلق نہیں مرا
پھرتا ہے شہر جاں میں کوئی درد بے سبب
شامِ وصال آئی تھی آ کر گزر گئی
جاگا ہے مجھ میں سویا ہوا مرد بے سبب
گرتی رہی ہے برف مگر بس خیال میں
منصور میرا کمرہ ہوا سرد بے سبب
دیوان منصور آفاق
ردیف ب
چوتھی غزل
شاید وہ مانگتی ہے ملن کے نئے سبب
کیسے وہ پھر رہی ہے جدامجھ سے بے سبب
کچھ اس کے کارِ ہائے نمایاں بھی کم نہیں
دل نے بھی کچھ بگاڑے ہیں بنتے ہوئے سبب
روشن ہے میرے صحن میں امید کا درخت
پچھلی گلی میں جلتے ہوئے بلب کے سبب
دیکھی کبھی نہیں تھیں یہ گلیاں بہار کی
جب چل پڑا تو راہ میں بننے گئے سبب
کیا کیا نکالتی ہے بہانے لڑائی کے
آنسو کبھی وجہ تو کبھی قہقہے سبب
منصور اتقاق سے ملتی ہیں منزلیں
بے رہروی کبھی تو کبھی راستے سبب
دیوان منصور آفاق
ردیف ب
پانچویں غزل
غیب کا مدفن عینک اور کتاب
میرے کاہن عینک اور کتاب
ایک بہکتے حرف کے پہلو میں
رکھ دی فوراً عینک اور کتاب
ٹیرس پر تنہائی کی رم جھم
بھیگا ساون عینک اور کتاب
میر و غالب پھر مہمان ہوئے
چائے کے برتن عینک اور کتاب
یاد کی لائب ریری زندہ باد
اپنا جیون عینک اور کتاب
برف بھری تنہائی میں منصور
یار کا درشن عینک اور کتاب
دیوان منصور آفاق
ردیف ب
چھٹی غزل
بہتی بہار سپنا ، چلتی ندی ہے خواب
شاید یہ زندگی کی جادو گری ہے خواب
ایسا نہ ہو کہ کوئی دروازہ توڑ دے
رکھ آئو گھر سے باہر بہتریہی ہے خواب
تُونے بدل لیا ہے چہرہ تو کیا کروں
میری وہی ہیں آنکھیں میرا وہی ہے خواب
میں لکھ رہا ہوں جسکی کرنوں کے سبز گیت
وہ خوبرو زمانہ شاید ابھی ہے خواب
ہر سمت سے وہ آئے قوسِ قزح کے ساتھ
لگتا ہے آسماںکی بارہ دری ہے خواب
اس کے لئے ہیں آنکھیں اس کیلئے ہے نیند
جس میں دکھائی دے تُو وہ روشنی ہے خواب
دل نے مکانِ جاں تو دہکا دیا مگر
اُس لمسِ اخگری کی آتش زنی ہے خواب
اک شخص جا رہا ہے اپنے خدا کے پاس
دیکھو زمانے والو! کیادیدنی ہے خواب
تجھ سے فراق کیسا ، تجھ سے ملال کیا
تیرا مکان دل ہے تیری گلی ہے خواب
سورج ہیں مانتا ہوں اس کی نگاہ میں
لیکن شبِ سیہ کی چارہ گری ہے خواب
امکان کا دریچہ میں بند کیا کروں
چشمِ فریب خوردہ پھر بُن رہی ہے خواب
رک جا یہیں گلی میں پیچھے درخت کے
تجھ میں کسی مکان کی کھڑکی کھلی ہے خواب
منصور وہ خزاں ہے عہدِ بہار میں
ہنستی ہوئی کلی کی تصویر بھی ہے خواب
دیوان منصور آفاق
ردیف ب
ساتویں غزل
لگتے ہیں خوبصورت گزری ہوئی کے خواب
کیا ہے جو دیکھتاہوں پچھلی گلی کے خواب
ہیں بے چراغ دل کے جگنو قطار میں
پلکوں سے چُن رہا ہوں لا حاصلی کے خواب
آنسو بہا رہی ہیں آنکھیں فرات کی
پتھرا گئے ہیں جیسے تشنہ لبی کے خواب
ہے اجتماعی وحشت چشمِ شعور میں
اپنے خمیر میں ہیں کیا کیا کجی کے خواب
مجبور دل الگ ہے دل کی طلب الگ
بستر کسی کا بے شک دیکھے کسی کے خواب
منصور موتیوں سے جس کی بھری ہے جیب
تاریخ لکھ رہی ہے اک بس اسی کے خواب
دیوان منصور آفاق
ردیف ب
آٹھویں غزل
مرے دماغ کے سب عنکبوت آخرِ شب
بنے ہوئے ہیں بڑے راجپوت آخر ِ شب
عشائےغم میری خیرہ سری میں گزری ہے
سو پڑھ رہا ہوں دعائے قنوت آخرِ شب
اداسیوں کے تنفس میں میرے اندر سے
نکل پڑا ہے عدم کا سکوت آخرِ شب
لکھا گیا تھا مجھے آسماں پہ کرنوں سے
ہوا ہے خاک پہ میرا ہبوط آخرِ شب
میں اپنے پاس تہجد کے وقت آیا ہوں
ملا ہے مجھ کو خود اپنا ثبوت آخرِ شب
دبا دیا تھا افق میں امید کا پتہ
نکل پڑا ہے کوئی شہ بلوط آخرِ شب
ہزار رنگ جہنم کے دیکھتا ہوں میں
کیا ہے موت کا منظر حنوط آخر شب
بدن پہ دھوپ کا آسیب دیکھ کر منصور
چرا کے برف کے لے آیا بھوت آخرِ شب
دیوان منصور آفاق
اس زمرہ میں ابھی کوئی صفحہ یا میڈیا موجود نہیں ہے۔