ردیف د

دیوان ِمنصور آفاق

dewan mansoor afaq

ترمیم
mansoor afaq poetry



 

پہلی غزل





زندہ ہوں پر زندگانی ختم شد
فلم جاری ہے کہانی ختم شد

رو لیا ہے جتنا رو سکتا تھا میں
آنکھ میں جو تھا وہ پانی ختم شد

کر رہاہوں شام سے فکرِ سخن
یعنی عہدِ رائیگانی ختم شد

میں بھی ہوں موجود اب افلاک پر
لامکاں کی لامکانی ختم شد

رک گیا میں بھی کنارہ دیکھ کر
پانیوں کی بھی روانی ختم شد

پیچھے چھوڑ آیا ہوں شورِ ناتمام
گاڑیوں کی سرگرانی ختم شد

اور باقی ہیں مگر آسیب کی
اک بلائے ناگہانی ختم شد

آنے سے پہلے بتاتی ہیں مجھے
بارشوں کی بے زبانی ختم شد

دیکھتے ہیں آسماں کے کیمرے
اب گلی کی پاسبانی ختم شد

آگئے جب تم تو کیا پھر رہ گیا
جو تھا سوچا جو ہے ٹھانی ختم شد

بھیج غالب آتشِ دوزخ مجھے
سوزِ غم ہائے نہانی ختم شد

اڑ رہی ہے راکھ آتش دان میں
یار کی بھی مہربانی ختم شد

کچھ بچا ہی اب نہیں ہے آس پاس
ایک ہی تھی خوش گمانی ختم شد

وہ سمندر بھی بیاباں ہو گیا
وہ جو کشتی تھی دخانی ختم شد

اک تکلم اک تبسم کے طفیل
میرا شوقِ جاودانی ختم شد

آہٹیں سن کر خدا کی پچھلی رات
میرے دل کی بیکرانی ختم شد

اک مجسم آئینے کے سامنے
آروز کی خوش بیانی ختم شد

لفظ کو کیا کر دیا ہے آنکھ نے
چیختے روتے معانی ختم شد

ایسا ہی کچھ ہے ہوا کے ساتھ بھی
جس طرح میری جوانی ختم شد

اہم تھا کتنا کوئی میرے لئے
اعتمادِ غیر فانی ختم شد

دشت کی وسعت جنوں کو چاہئے
اس چمن کی باغبانی ختم شد

ذہن میں منصور ہے تازہ محاذ
سرد جنگ اپنی پرانی ختم شد




دیوان منصور آفاق  



ردیف د



 

دوسری غزل





کس طرف جائے گی اب راہ فنا میرے بعد
منزلیں دیں گئی کسے اپنا پتہ میرے بعد

رات کا دشت تھا کیا میرے لہو کا پیاسا
آسماں کتنا سحر پوش ہوا میرے بعد

یہ تو ہر طرح مرے جیسا دکھائی دے گا
کوزہ گر چاک پہ کیا تونے رکھا میرے بعد

’’کون پھر ہوگا حریفِ مے مرد افگنِ عشق؟‘‘
کون دنیا کےلئے قبلہ نما میرے بعد

لڑکھراتی ہوئی گلیوں پھرے گی تقویم
وقت کا خاکہ اڑائے گی ہوا میرے بعد

میں خدا تو نہیں اس حسن مجسم کا مگر
کم نہیں میرا کیا اس نےگلہ میرے بعد

میں وہ سورج ہوں کہ بجھ کر بھی نظر آتا ہوں
اب نظر بند کرو میری ضیا میرے بعد

دشت میں آنکھ سمندر کو اٹھالائی ہے
کوئی ہوگا ہی نہیں آبلہ پا میرے بعد

تیرے کوچہ میں بھٹکتی ہی رہے گی شاید
سالہاسال تلک شام سیہ میرے بعد

گر پڑیں گے کسی پاتال سیہ میں جا کر
ایسا لگتا ہے مجھے ارض و سما میرے بعد

میر و غالب بھی نہیں ہیں اے سخن کی ملکہ
{کون کھولے گا ترے بند قبا میرے بعد

رات ہوتی تھی تو مہتاب نکل آتا تھا
اس کے گھر جائے گا اب کون بھلا میرے بعد

رک نہ جائے یہ مرے کن کی کہانی مجھ پر
کون ہو سکتا ہے آفاق نما میرے بعد

بات کرنی ہی نہیں آتی ہے اہل دل کو
بزم میں چین سے ہیں اہل جفا میرے بعد

پھر جہالت کے اندھیروں میں اتر جائے گی
سر پٹختی ہوئی یہ خلق خدا میرے بعد

پہلےتو ہوتا تھا میں اوس بھی برگِ گل بھی
ہونٹ رکھے گی کہاں باد صبا میرے بعد

مجھ سے پہلے توکئی قیس ہیں گزرے لیکن
ختم ہو جائے گا یہ نام وفا میرے بعد

بس یہی درد لئے جاتا ہوں دل میں اپنے
وہ دکھائے گی کسے ناز وادا میرے بعد

یہ الگ۔۔۔ شہر یہ پھر شہرِ خموشاں ہو گا
وہ بھی اس شہرِ ستم گر سے گیا میرے بعد

جانے والوں کو کوئی یاد کہاں رکھتا ہے
جا بھی سکتے ہیں کہیں پائے حنا میرے بعد

جاں ہتھیلی پہ سجالی ہے سحر کی خاطر
جل اٹھے گا مری بستی میں دیا میرے بعد

میرے ہوتے ہوئے دریائوں میں خاک اڑتی تھی
اب برستی ہے وہاں کھل کے گھٹا میرے بعد

میرے ہوتے ہوئے یہ میری خوشامد ہوگی
شکریہ ۔۔کرنا یہی بات ذرا میرے بعد

میں ہی موجود ہوا کرتا تھا شاید اس میں
وہ جو دروازہ کبھی وا نہ ہوا میرے بعد

میرا سر تھا سرِ صحرا کسی نیزے پر
کیسا سجدہ تھا۔۔۔ہوا پھر نہ ادا میرے بعد

کاٹنے والے کہاں ہوگی یہ تیری مسند
یہ مرا سرجو اگر بول پڑا میرے بعد

قبر پہ بال وہ بکھرائے ہوئے بیٹھی ہے
میری چاہت کا ملا مجھ کو صلہ میرے بعد

موسم درد میں یہ ساز طرب کا کیسے
کون یہ ہونے لگا نغمہ سرا میرے بعد

میں کوئی آخری آواز نہیں تھا لیکن
کتنا خاموش ہوا کوہ ندا میرے بعد

میں بھی کرلوں گا گریباں کو رفو دھاگے سے
زخم تیرا بھی نہیں ہوگا ہرا میرے بعد

میرے راتوں کے بدن ہائے گراں مایہ کو
کون پہنائے گا سونے کی قبا میرے بعد

شمع بجھتی ہے‘ تو کیا اب بھی دھواں اٹھتا ہے
کیسی ہے محفل ء آشفتہ سرا میرے بعد

اس کا افسوس بڑی عمر رہا ہے مجھ کو
چاک خواہش بھرے دامن کو کیا میرے بعد

میں ہی لایا تھا بڑے شوق میں برمنگھم سے
اس پہنا ہے جو ملبوس نیا میرے بعد

عشق رکھ آیا تھا کیا دار ورسن پر منصور
کوئی سجادہ نشیں ہی نہ ہوا میرے بعد




دیوان منصور آفاق  



ردیف د



 

تیسری غزل





وہ خواب گاہِ عرش وہ باغِ جناں کی یاد
پھر مہرباں ہوئی کسی نا مہرباں کی یاد

آنکھوں میں کس کے عارض و لب کے چراغ ہیں
پھرتی ہے یہ خیال میں آخر کہاں کی یاد

پھر گونجنے لگی ہے مرے لاشعور میں
روزِ ازل سے پہلے کے کچھ رفتگاں کی یاد

میں آسماں نژاد زمیں پر مقیم ہوں
کچھ ہے یہاں کا درد توکچھ ہے وہاں کی یاد

کوئی نہ تھا جہاں پہ مری ذات کے سوا
آئی سکوتِ شام سے اُس لا مکاں کی یاد

دیکھوں کہیں خلوص تو آتی ہے ذہن میں
پیچھے سے وار کرتے ہوئے دوستاں کی یاد

دریائے ٹیمز! اپنے کنارے سمیٹ لے
آئی ہے مجھ کو سندھ کے آبِ رواں کی یاد

منصور آ رہی ہے سرِ آئینہ مجھے
اِس شہرِ پُر فریب میں سادہ دلاں کی یاد




دیوان منصور آفاق  



ردیف د



 

چوتھی غزل





ہے تیراسامنا کرنا، شبِ زوال کے بعد
یہ یاد آیا ہے مجھ کو پچاس سال کے بعد

ترے زمانے میں ہوتا تو عین ممکن تھا
کھڑا غلاموں میں ہوتا کہیں بلال کے بعد

عجب حصار سا کھینچا ہے اسم نے تیرے
خیال کوئی نہ آیا ترے خیال کے بعد

تجھے ملے تو ملاقاتیں سب ہوئیں منسوخ
ہوئی تلاش مکمل ، ترے وصال کے بعد

فرشتے ٹانکتے پھرتے ہیں پھول شاخوں سے
خدا بدل گیا اس کی بس ایک کال کے بعد

کسی نے مجھ سے کہا آپ کون ہیں منصور
کھڑا تھا ایک وہاں پھر وہی سوال کے بعد


اس زمرہ میں ابھی کوئی صفحہ یا میڈیا موجود نہیں ہے۔