ردیف و

دیوان ِمنصور آفاق

dewan mansoor afaq

ترمیم
mansoor afaq poetry



 

پہلی غزل



ہوائے نرم خُو کو اپنی عادت کم نہ ہونے دو
شجر ایسے تعلق کی ضرورت کم نہ ہونے دو

ابھی گلدان میں رہنے دو یہ بکھری ہوئی کلیاں
ابھی اس کے بچھڑنے کی اذیت کم نہ ہونے دو

دئیوں کی لو رکھو اونچی دیارِ درد میں منصور
اندھیروں کے خلاف اپنی بغاوت کم نہ ہونے دو

ق

مرے دھکے ہوئے جذبوں کی شدت کم نہ ہونے دو
تعلق چاہے کم رکھو ، محبت کم نہ ہونے دو

ذرا رکھو خیال اپنے نشاط انگیز پیکر کا
مری خاطر لب و رخ کی صباحت کم نہ ہونے دو

مسلسل چلتے رہنا ہو طلسم ِ جسم میں مجھ کو
رہو آغوش میں چاہے مسافت کم نہ ہونے دو

مجھے جو کھینچ لاتی ہے تری پُر لمس گلیوں میں
وہ رخساروں کی پاکیزہ ملاحت کم نہ ہونے دو

رکھو موجِ صبا کی وحشتیں جذبوں کے پہلو میں
تلاطم خیز دھڑکن کی لطافت کم نہ ہونے دو




دیوان منصور آفاق  





ردیف و



 

دوسری غزل



اجنبی ہے کوئی اپنا نہیں لگتا مجھ کو
یہ تو منصور کا چہرہ نہیں لگتا مجھ کو

اتنے ناپاک خیالات سے لتھڑی ہے فضا
حرفِ حق کہنا بھی اچھا نہیں لگتا مجھ کو

قتل تو میں نے کیا رات کے کمرے میں اسے
اور یہ واقعہ سپنا نہیں لگتا مجھ کو

پھر قدم وقت کے مقتل کی طرف اٹھے ہیں
یہ کوئی آخری نوحہ نہیں لگتا مجھ کو

وقت نے سمت کو بھی نوچ لیا گھاس کے ساتھ
چل رہا ہوں جہاں رستہ نہیں لگتا مجھ کو

کیسی تنہائی سی آنکھوں میں اتر آئی ہے
میں ہی کیا کوئی اپنا نہیں لگتا مجھ کو

موت کا کوئی پیالہ تھا کہ وہ آب ِ حیات
جسم سقراط کا مردہ نہیں لگتا مجھ کو

اب تو آنکھیں بھی ہیں سورج کی طنابیں تھامے
اب تو بادل بھی برستا نہیں لگتا مجھ کو

ٹین کی چھت پہ گرا ہے کوئی کنکر منصور
شور ٹوٹے ہوئے دل کا نہیں لگتا مجھ کو




دیوان منصور آفاق  





ردیف و



 

تیسری غزل



تُو لائے یار کی خوشبو، سدا سلامتی ہو
سلام تجھ پہ ہو، باد صبا سلامتی ہو

میں دھڑکنوں کے تلاطم سے لطف لیتا ہوں
ہزار وحشتِ موج ِہوا سلامتی ہو

مری حیاتِ گذشتہ سے لوٹ آتی ہوئی
صباحتِ لب و رخ کی صدا سلامتی ہو

ملال ِ شام ِ مسلسل کی حکمرانی ہے
الم نصیب، دلِ باوفا سلامتی ہو

تمام کون و مکاں کے لئے دعائے خیر
فقط یہاں ہی نہیں جابجا سلامتی ہو

وہاںبچھانی ہے اک جانماز میں نے بھی
کنارِ چشمہ ئ حمد و ثنا سلامتی ہو

میں چل رہا تھا کسی بدکلام بستی میں
کسی نے مجھ کو اچانک کہا سلامتی ہو

سیاہ دن سے گزرتی ہوئی سفید قبا
اٹھے ہوئے ہیں یہ دست دعا سلامتی ہو

پڑوس میں بھی ترے دم سے کچھ اجالا ہے
سلامتی مرے گھر کا دیا سلامتی ہو

میں خوشہ چین ہوں اقبال تیری جنت کا
اے کائناتِ سخن کے خدا سلامتی ہو

شبِ فراق چمکتی ہے تیرے جلوئوں سے
اے مہتاب کی دھیمی ضیا سلامتی ہو

یہیں پہ خیر بھی رہتی ہے شر بھی ہے آباد
مری زمین پہ منصور کیا سلامتی ہو




دیوان منصور آفاق  





ردیف و



 

چوتھی غزل



یہ جو بستر کی پہیلی دیکھتی ہو
یہ تعلق کی چنبیلی دیکھتی ہو

پتھروں کو کاٹتا رہتا ہوں دن بھر
کیا مری چھو کر ہتھیلی دیکھتی ہو

کچھ بھی کر سکتے ہیں ہم دونوں یہاں پر
ہے سڑک کتنی اکیلی دیکھتی ہو

غم کی صدیوں کی کھنڈر ہوں تیرے بعد
جسم کی خالی حویلی دیکھتی ہو

یہ بھی ممکن ہے کہ اس کے چشم و لب میں
بولتی ہو رت ، چنبیلی دیکھتی ہو

بات خوشبو کی اچانک موسموں نے
چھین اس کے ہونٹ سے لی ،دیکھتی ہو

مجھ میں دیکھو بیٹھ کر اس کو کوئی دن
خود میں کیا دلہن نویلی دیکھتی ہو

اس زمرہ میں ابھی کوئی صفحہ یا میڈیا موجود نہیں ہے۔