ردیف چ

دیوان ِمنصور آفاق

dewan mansoor afaq

ترمیم
mansoor afaq poetry



 

پہلی غزل





دل کی بستی سوچتی ہے جاگتے رازوں کے بیچ
ایک ہی کیوں آدمی ہے سارے دروازوں کے بیچ

کھو گئیں میری سخن بستہ نوائیں درد میں
رہ گیا آہوں کا رقصِ مشتعل سازوں کے بیچ

ایک چڑیا سے تقاضائے وفا اچھا نہیں
جانثاری کی سعادت قرض شہبازوں کے بیچ

تم جسے کہتے تھے چرخ نیلگوں اک وہم تھا
گم ہوئی اس کی بلندی میری پروازوں کے بیچ

اپنے شانوں پر اٹھا رکھی تھی خود میں نے صلیب
ہے مگر تاریخ کا الزام ہمرازوں کے بیچ

ہر قدم پر کھینچ لیتا تھا کوئی اندھا کنواں
سو بسا لی اپنی بستی اپنے خمیازوں کے بیچ

شہر ہوتا چاہئے تھا اس سڑک کے آس پاس
کوئی غلطی رہ گئی ہے میرے اندازوں کے بیج

سن رہا ہوں یاد کے پچھلے پہر کی ہچکیاں
دور سے آتی ہوئی منصور آوازوں کے بیچ




دیوان منصور آفاق  





ردیف چ



 

دوسری غزل





ڈھونڈتی ہے آسماں پر در کوئی تاروں کے بیچ
نیند سے بولائی دستک تری دیواروں کے بیچ

گفتگو کیا ہو مقابل جب ہیں خالی پگڑیاں
پہلے تو سر بھی ہوا کرتے تھے دستاروں کے بیچ

اے خدا میرا بھرم رکھنا ، فرات ِ وقت پر
اک انا کا بانکپن ہے کتنی تلواروں کے بیچ

ریل کی پٹڑی بچھائی جا رہی ہے اس کے ساتھ
ایک کاٹج کیا بنایا میں نے گلزاروں کے بیچ

جانتی تھی اور سب کو ایک بس میرے سوا
وہ کہیں بیٹھی ہوئی تھی چند فنکاروں کے بیچ

دھوپ بھی ہے برف تیری سرد مہری کے طفیل
رات بھی پھنکارتی ہے تیرے آزاروں کے بیچ




دیوان منصور آفاق  





ردیف چ



 

تیسری غزل





ٹکڑے تھے کچھ نیل پالش کے مری آنکھوں کے بیچ
اور کچھ ٹوٹے ہوئے ناخن بھی تھے زخموں کے بیچ

راکھ کے گرنے کی بھی آواز آتی تھی مجھے
مر رہا تھا آخری سگریٹ مرے ہونٹوں کے بیچ

ہاتھ میں تو لالہ و گل تھے مرے حالات کے
پشت پر کاڑھی ہوئی تھی کھوپڑی سانپوں کے بیچ

کون گزرا ہے نگارچشم سے کچھ تو کہو
پھر گئی ہے کونسی شے یاد کی گلیوں کے بیچ

دو ملاقاتوں کے دن تھے آدمی کے پاس بس
اور کن کا فاصلہ تھا دونوں تاریخوں کے بیچ

گوشت کے جلنے کی بو تھی قریہ ء منصور میں
کھال اتری تھی ہرن کی ، جسم تھا شعلوں کے بیچ




دیوان منصور آفاق  





اس زمرہ میں ابھی کوئی صفحہ یا میڈیا موجود نہیں ہے۔