زمرہ:ردیف ی
ردیف ی
dewan mansoor afaq
ترمیمmansoor afaq poetry
پہلی غزل
چراغ ہو گیا بدنام کچھ زیادہ ہی
کہ جل رہا تھا سرِ بام کچھ زیادہ ہی
ترے بھلانے میں میرا قصور اتنا ہے
کہ پڑ گئے تھے مجھے کام کچھ زیادہ ہی
میں کتنے ہاتھ سے گزرا یہاں تک آتے ہوئے
مجھے کیا گیا نیلام کچھ زیادہ ہی
ملال تری جدائی کا بے پنہ لیکن
فسردہ ہے یہ مری شام کچھ زیادہ ہی
تمام عمر کی آوارگی بجا لیکن
لگا ہے عشق کا الزام کچھ زیادہ ہی
بس ایک رات سے کیسے تھکن اترتی ہے
بدن کو چاہئے آرام کچھ زیادہ ہی
سنبھال اپنی بہکتی ہوئی زباں منصور
تُو لے رہا ہے کوئی نام کچھ زیادہ ہی
دیوان منصور آفاق
ردیف ی
دوسری غزل
تم کیسے اجالوں کا گزر بند کرو گی
کس چیز میں سورج کو نظر بند کرو گی
یہ کیا کہ چہکتے ہوئے رازوں کی گلی میں
ٹوٹی ہوئی بوتل کو بھی سر بند کرو گی
چھپ جائو گی تم ذات کے تہہ خانے میں لیکن
کیسے کسی احساس کا در بند کرو گی
یہ تیرے مکان کا کوئی دروازہ نہیں ہیں
کیسے مرے جذبوں کا سفر بند کرو گی
منصور پلٹ جائے گا دستک نہیں دیگا
تم ذات کا دروازہ اگر بند کرو گی
دیوان منصور آفاق
ردیف ی
تیسری غزل
اک شخص نے ہونٹوں سے کوئی نظم کہی تھی
ہے یاد مجھے بوسوں بھری سات مئی تھی
میں انگلیاں بالوں میں یونہی پھیر رہا تھا
وہ کمرے کی کھڑکی سے مجھے دیکھ رہی تھی
اس شخص کے گھر وہی حالت تھی مگر اب
بِڈ روم کی دیوار پہ تصور نئی تھی
آئی ہے پلٹ کر کئی صدیوں کے سفر سے
اس گیٹ کے اندر جو ابھی کار گئی تھی
موسم کے تغیر نے لکھا مرثیہ اس کا
منصور ندی مل کے جو دریا سے بہی تھی
دیوان منصور آفاق
ردیف ی
چوتھی غزل
عشق میں مبتلا ہوں ویسے ہی
میں کسی سے ملا ہوں ویسے ہی
آج میرا بہت برا دن تھا
یار سے لڑ پڑا ہوں ویسے ہی
اس لئے آنکھ میں تھکاوٹ ہے
ہر طرف دیکھتا ہوں ویسے ہی
بارشِ سنگ ہوتی رہتی ہے
آسماں لیپتا ہوں ویسے ہی
مجھ کو لا حاصلی میں رہنا ہے
میں تجھے سوچتا ہوں ویسے ہی
ایک رہرو سے پوچھتے کیا ہو
اک ذرا رک گیا ہوں ویسے ہی
پھول یوں ہی یہ پاس ہیں میرے
راستے میں کھڑا ہوں ویسے ہی
تُو بہت خوبرو سہی لیکن
میں تجھے مل رہا ہوں ویسے ہی
وہ مجھے پوچھتا نہیں آیا
آسماں سے جڑا ہوں ویسے ہی
مجھ کو جانا نہیں کہیں منصور
تار پر چل رہا ہوں ویسے ہی
دیوان منصور آفاق
ردیف ی
پانچویں غزل
آشنا سا لگتا ہے اپنی پُرخواب چاپ سے کوئی
ہے مرے تعاقب میں ،نیندکے بس سٹاپ سے کوئی
موسمِ جدائی کی تنگ تھا زرد سی طوالت سے
رُت خرید لایا ہے وصل کی ، لمس شاپ سے کوئی
قوس قوس آوازیں دور تک دائرے بناتی تھیں
لکھ رہا تھا کمرے میں گیت سا کیا الاپ سے کوئی
رقص کے الائو میں ڈوب کر پائوں سے کلائی تک
جل اٹھا تھا ڈھولک کی نرم سی تیز تھاپ سے کوئی
سردیوں کی برفانی صبح میں گرم گرم سے بوسے
پھینکتا تھا ہونٹوں کی برف سی سرد بھاپ سے کوئی
جو کہیں نہیں موجود ، روح کے آس پاس میں منصور
پوچھتا رہا اس کا ، دیر تک اپنے آپ سے کوئی
دیوان منصور آفاق
ردیف ی
چھٹی غزل
کلی لبادہ ئ تزئین سے نکل آئی
سفید آگ سیہ جین سے نکل آئی
دکھائی فلم کسی نے وصال کی پہلے
پھر اس کے بعد وہی سین سے نکل آئی
مرے خدا کی بھی قربان گاہ مٹی تھی
بہار پھول کی تدفین سے نکل آئی
اسے خرید لیا مولوی کفایت نے
جو نیکی سیٹھ کرم دین سے نکل آئی
چراغ لے کے میں بیٹھا ہی تھا کہ صبحِ ازل
خرامِ آبِ اباسین سے نکل آئی
مرید ِ خاص ہوئی تخلیے کی آخرکار
خرد نصیحت و تلقین سے نکل آئی
ہر ایک حرف اناالحق کا ورد کرتا تھا
سو میری آنکھ طواسین سے نکل آئی
مجھے جگایا کسی نے یوں حسنِ قرات سے
کہ صبح سورہ ئ یاسین سے نکل آئی
گریزاں یار بھی تکرار سے ہوا کچھ کچھ
طبعیت اپنی بھی توہین سے نکل آئی
گزر ہوا ہے جہاں سے بھی فوج کا منصور
زمین گھاس کے قالین سے نکل آئی
دیوان منصور آفاق
ردیف ی
ساتویں غزل
ساری پوشاک خون سے ترتھی ، دور سے بھی دکھائی دیتی تھی
جانے کیوں میری بے گناہی کی پھر بھی بستی گواہی دیتی تھی
دن نکلتے ہی بجنے لگتا تھا ایک ڈھولک کا کیروا مجھ میں
رات بھر وائلن کے ہونٹوں سے بھرویں سی سنائی دیتی تھی
ایک ہوتی تھی تجھ سی شہزادی ا لف لیلیٰ کی داستانوں میں
جو گرفتاریوں کے موسم میں قیدیوں کو رہائی دیتی تھی
ایک امید مجھ میں ہوتی تھی ، خواب بوتی تھی پھول کھلتے تھے
تیلیاں توڑتی قفس کی تھی آسماں تک رسائی دیتی تھی
ایک ٹوٹے ہوئے کواٹر میں وہ تمنا بھی مرگئی آخر
وہ جو منصور کے تخیل کو شوقِ عالم پناہی دیتی تھی
کیا کہوں کھو گئی کہاں مجھ سے شام ہوتے ہی جو بڑے دل سے
موتیے کے سفید گجروں کو اپنی نازک کلا،ئی دیتی تھی
ایک کیفیتِ عدم جس میںجنت ِ خواب کے خزانے تھے
روح کل کی شراب سے بھر کر وہ بدن کی صراحی دیتی تھی
دیوان منصور آفاق
ردیف ی
آٹھویں غزل
عمر دھویں سے پیلی ہو گی
یہ لکڑی بھی گیلی ہو گی
موت مرا معمول رہے گا
کوئی کہاں تبدیلی ہو گی
پھیل رہا ہے سرد رویہ
رات بڑی برفیلی ہو گی
ہجر کا اپنا ایک نشہ ہے
غم کی شام نشیلی ہو گی
میں نے سگریٹ سلگانا ہے
ماچس میں اک تیلی ہو گی
غالب کے قہوہ خانے میں
بات ذرا تفصیلی ہو گی
اچھی طرح سے بال سکھا لے
تیز ہوا سردیلی ہو گی
ہفتوں بعد ہے نکلا سورج
دھوپ بہت نوکیلی ہو گی
کال آئی ہے امریکہ سے
موسم میں تبدیلی ہوگی
گرم دسمبر کے پہلو میں
جسم کی آگ لجیلی ہوگی
نوٹ پیانو کے سُن سُن کر
رم جھم اور سریلی ہو گی
دن بھی ہوگا آگ بلولا
رات بھی کالی نیلی ہو گی
اک اتوار ملے گی مجھ سے
اور بڑی شرمیلی ہو گی
شعر بنانا چھوڑ دے لیکن
یہ منصور بخیلی ہو گی
دیوان منصور آفاق
ردیف ی
ناویں غزل
اتاریں اب بدن کی شرم تھوڑی سی
محبت ہے تو ہو کنفرم تھوڑی سی
ضروری ہے لہو میں آگ بھی لیکن
سبک اندام تھوڑی ، نرم تھوڑی سی
چل اپنے سادہ و معصوم سے دل پر
چڑھا لے بھیڑے کی چرم تھوڑی سی
اب اپنا قتل کرنا چاہتا ہوں میں
اجازت دے مجھے اے دھرم تھوڑی سی
’’بیا جاناں‘‘ ’’بصد سامانِ رسوائی‘‘
خموشی ہے ، خبر ہو گرم تھوڑی سی
کسی کے نرم و نازک جسم سے مل کر
ہوئی ہے آتما بھی پرم تھوڑی سی
سکوتِ شام جیسی ایک دوشیزہ
محبت میں ہوئی سرگرم تھوڑی سی
دیوان منصور آفاق
ردیف ی
دسویں غزل
بس کسی اعتراض میں رکھ دی
جاں لباس مجاز میں رکھ دی
رات کھولے تھے کچھ پرانے خط
پھر محبت دراز میں رکھ دی
یادِ یاراں نے پھر وہ چنگاری
ایک مردہ محاذ میں رکھ دی
یوں تو سب کچھ کہا مگر اس نے
راز کی بات راز میں رکھ دی
تان لی تھی رقیب پر بندوق
ربطِ جاں کے لحاظ میں رکھ دی
کس نے تیرے خیال کی دھڑکن
دست طبلہ نواز میں رکھ دی
شرٹ ہینگر پہ ٹانک دی میں نے
اور لڑکی بیاض میں رکھ دی
اس نے پستی گناہ کی لیکن
ساعتِ سرفراز میں رکھ دی
مرنے والا نشے میں لگتا تھا
کیسی مستی نماز رکھ دی
رات آتش فشاں پہاڑوں کی
اپنے سوز و گداز میں رکھ دی
کس نے سورج مثال تنہائی
میری چشم نیاز میں رکھ دی
داستاں اور اک نئی اس نے
میرے غم کے جواز میں رکھ دی
مسجدوں میں دھمال پڑتی ہے
کیفیت ایسی ساز میں رکھ دی
پھر ترے شاعرِ عجم نے کوئی
نظم صحنِ عکاظ میں رکھ دی
کس نے پہچان حسن کی منصور
دیدہ ئ عشق باز میں رکھ دی
دیوان منصور آفاق
ردیف ی
گیارہویں غزل
بڑی اداس بڑی بے قرار تنہائی
ذرا سے شہر میں ہے بے شمار تنہائی
مجھے اداسیاں بچپن سے اچھی لگتی ہیں
مجھے عزیز مری اشکبار تنہائی
فراق یہ کہ وہ آغوش سے نکل جائے
وصال یہ کرے بوس و کنار تنہائی
پلٹ پلٹ کے مرے پاس آئی وحشت سے
کسی کو دیکھتے ہی بار بار تنہائی
مرے مزاج سے اس کا مزاج ملتا ہے
میں سوگوار۔۔۔ تو ہے سوگوار تنہائی
کوئی قریب سے گزرے تو جاگ اٹھتی ہے
شبِ سیہ میں مری جاں نثار تنہائی
مجھے ہے خوف کہیں قتل ہی نہ ہو جائے
یہ میرے غم کی فسانہ نگار تنہائی
نواح جاں میں ہمیشہ قیام اس کا تھا
دیارِ غم میں رہی غمگسار تنہائی
ترے علاوہ کوئی اور ہم نفس ہی نہیں
ذرا ذرا مجھے گھر میں گزار تنہائی
یونہی یہ شہر میں کیا سائیں سائیں کرتی ہے
ذرا سے دھیمے سروں میں پکار تنہائی
نہ کوئی نام نہ چہرہ نہ رابطہ نہ فراق
کسی کا پھر بھی مجھے انتظار ، تنہائی
جو وجہ وصل ہوئی سنگسار تنہائی
تھی برگزیدہ ، تہجد گزار تنہائی
مری طرح کوئی تنہا اُدھر بھی رہتا ہے
بڑی جمیل ، افق کے بھی پار تنہائی
کسی سوار کی آمد کا خوف ہے ،کیا ہے
بڑی سکوت بھری، کوئے دار، تنہائی
دکھا رہی ہے تماشے خیال میں کیا کیا
یہ اضطراب و خلل کا شکار تنہائی
بفیضِ خلق یہی زندگی کی دیوی ہے
کہ آفتاب کا بھی انحصار تنہائی
اگرچہ زعم ہے منصور کو مگر کیسا
تمام تجھ پہ ہے پروردگار تنہائی
دیوان منصور آفاق
ردیف ی
بارہویں غزل
سونی سونی پورٹ کی جھلمل چھوڑ گئی تھی
آنکھ کھلی تو فیری ساحل چھوڑ گئی تھی
فلم کا ہیرو دیکھ کے بھولی بھالی لڑکی
سینما ہال کی کرسی پر دل چھوڑ گئی تھی
شاید ملک سے باہر ننگ زیادہ تھا کچھ
مزدوروں کو کپڑے کی مل چھوڑ گئی تھی
اس نے میرے ہاتھ پہ رکھا تھا اک وعدہ
جاتے ہوئے کچھ اور مسائل چھوڑ گئی تھی
میں نے اپنے جسم سے پردہ کھنچ لیا تھا
اور مجھے پھر ساری محفل چھوڑ گئی تھی
دیوان منصور آفاق
ردیف ی
تیرہویں غزل
گھر لوٹنے میں اک ذرا تاخیر کیا ہوئی
سب کچھ بدل کے رہ گیا تقصیرکیا ہوئی
کمرے میں سن رہاہوں کوئی اجنبی سی چاپ
دروازے پر لگی ہوئی زنجیر کیا ہوئی
وہ درد کیا ہوئے جنہیں رکھا تھا دل کے پاس
وہ میز پر پڑی ہوئی تصویر کیا ہوئی
جو گیت لا زوال تھے وہ گیت کیا ہوئے
وہ ریت پر وصال کی تحریر کیا ہوئی
ہر صبح دیکھتا ہوں میں کھڑکی سے موت کو
گرتے ہوئے مکان کی تعمیر کیا ہوئی
منصور اختیار کی وحشت کے سامنے
یہ جبرِکائنات یہ تقدیر کیا ہوئی
دیوان منصور آفاق
ردیف ی
چودہویں غزل
ایک ٹوٹی ہوئی مسجد میں رہائش کیا تھی
مجھ سے موسیٰ کو ملاقات کی خواہش کیا تھی
شامیانوں سے نگر ڈھانپ رہی تھی دنیا
حاکمِ شہر کی جادو بھری بارش کیا تھی
اپنے خالق کی بھی تفہیم وہ رکھ سکتا تھا
مجھ سے مت پوچھ کہ روبوٹ کی دانش کیا تھی
ناچتی پھرتی تھی اک نیم برہنہ ماڈل
خالی بوتیک تھا کپڑوں کی نمائش کیا تھی
جل گئی تھی مری آغوش گلوں سے منصور
رات وہ بوسہِ ء سرگرم کی سازش کیا تھی
دیوان منصور آفاق
ردیف ی
پندرہویں غزل
پہلو میں آکہ اپنا ہو عرفان سائیکی
یہ رات چاند رات ہے کم آن سائیکی
میرے سگار میں رہے جلتے تمام عمر
احساس ، خواب ، آگہی ، وجدان ، سائیکی
اٹکا ہوا ہے خوف کے دھڑمیں مرا دماغ
وحشت زدہ خیال ، پریشان سائیکی
باہر مرے حریم ِحرم سے نکل کے آ
اپنے چراغ ِ طور کو پہچان سائیکی
رستہ نجات کا ترے لاکٹ میں بند ہے
باہر کہیں نہیں کوئی نروان سائیکی
لاکھوں بلیک ہول ہیں مجھ میں چھپے ہوئے
میری خلائوں سے بھی ہے سنسان سائیکی
کیا توُبرھنہ پھرتی ہے میری رگوں کے بیچ
میرے بدن میں کیسا ہے ہیجان سائیکی
یہ حسرتیں یہ روگ یہ ارماں یہ درد وغم
کرتی ہو جمع میر کا دیوان ، سائیکی
دیوان منصور آفاق
ردیف ی
سولہویں غزل
گرا کے پھول اٹھائے کوئی کڑی تھل کی
کھلے گلے کی پہن کر قمیض ململ کی
ابھی تو پائوں میں باقی ہے ہجر کا ہفتہ
پڑی ہے راہ ابھی ایک اور منگل کی
حنائی ہاتھ پہ شاید پلیٹ رکھی تھی
ہوا کے جسم سے خوشبو اٹھی تھی چاول کی
بچھی ہوئی ہیں سحر خیزیوں تلک آنکھیں
ملی ہوئی ہے شبوں سے لکیر کاجل کی
لیا ہے شام کا شاور ابھی ابھی کس نے
گلی میں آئی ہے خوشبو کہاں سے جل تھل کی
شفق کے لان میں صدیوں سے شام کی لڑکی
بجا رہی ہے مسلسل پرات پیتل کی
نکھر نکھر گیا کمرے میں رنگ کا موسم
ذرا جو شال بدن کے گلاب سے ڈھلکی
کسی کوفتح کیا میں نے پیاس کی رت میں
اڑے جو کارک توشمپین جسم پر چھلکی
چھتوں پہ لوگ اٹھائے ہوئے تھے بندوقیں
تمام شہرپہ اتری تھی رات جنگل کی
جھلس گیا تھا دسمبر کی رات میں منصور
وہ سرسراتی ہوئی آگ تیرے کمبل کی
دیوان منصور آفاق
ردیف ی
سترہویں غزل
وہ بر گزیدہ خطا رات عاصیوں سے ہوئی
کہ اوس اوس کلی بے لباسیوں سے ہوئی
ہر ایک صبح منور ہوئی ترے غم سے
ہرایک شام فروزاںاداسیوں سے ہوئی
میں کھوجنے کے عمل میں شکار اپنا ہوا
مری اکیلگی چہرہ شناسیوں سے ہوئی
لپک کے بھاگ بھری نے کسی کو چوم لیا
گھٹا کی بات جو روہی کی پیاسیوں سے ہوئی
بہت سے داغ اجالوں کے رہ گئے منصور
جہاں میں رات عجب بدحواسیوں سے ہوئی
دیوان منصور آفاق
ردیف ی
اٹھارہویں غزل
ہر قدم پر کوئی دیوار کھڑی ہونی تھی
میں بڑا تھا میری مشکل بھی بڑی ہونی تھی
اس نے رکھنی ہی تھیں ہرگام پہ برفاب شبیں
میں مسافر تھا مسافت تو کڑی ہونی تھی
ہجر کی سالگرہ اور مسلسل سورج
آج تو دس تھی دسمبر کی جھڑی ہونی تھی
صبح ِ تقریب! ذرا دیر ہوئی ہے ورنہ
یہ گھڑی اپنے تعارف کی گھڑی ہونی تھی
اور کیا ہونا تھا دورازے سے باہر منصور
دن رکھا ہونا تھا یا رات پڑی ہونی تھی
دیوان منصور آفاق
ردیف ی
انیسویں غزل
روشنی سائے میں کھڑی ہے ابھی
شہر میں رات کی جھڑی ہے ابھی
دیکھنا ہے اسے مگر اپنی
آنکھ دیوار میں گڑی ہے ابھی
آسماں بھی مرا مخالف ہے
ایک مشکل بہت بڑی ہے ابھی
ایک بجھتے ہوئے تعلق میں
شام کی آخری گھڑی ہے ابھی
ہم سے مایوس آسماں کیا ہو
موتیوں سے زمیں جڑی ہےابھی
ایک ٹوٹے ہوئے ستارے کی
میرے پاتھوں میں ہتھکڑی ہے ابھی
موسمِ گل ہے میرے گلشن میں
شاخ پر ایک پنکھڑی ہے ابھی
وہ کھلی ہے گلاب کی کوپنل
میری قسمت کہاں سڑی ہے ابھی
۔۔سایہ ء زلف کی تمازت ہے
۔۔رات کی دوپہر کڑی ہے ابھی
اس میں بچپن سے رہ رہا ہوں میں
آنکھ جس خواب سے لڑی ہے ابھی
میں کھڑا ہوں کہ میرے ہاتھوں میں
ایک دیمک زدہ چھڑی ہے ابھی
آگ دہکا نصیب میں منصور
۔برف خاصی گری پڑی ہے ابھی
دیوان منصور آفاق
ردیف ی
بیسویں غزل
میں نے کیا دیکھنا تھا ویسے بھی
میں وہاں سو رہا تھا ویسے بھی
اس کی آنکھیں بدلنے والی تھیں
اور میں بے وفا تھا ویسے بھی
اس نے مجھ کو پڑھانا چھوڑ دیا
میں بڑا ہو گیا تھا ویسے بھی
کچھ مزاج آشنا نہ تھی دنیا
کچھ تعلق نیا تھا ویسے بھی
کچھ ضروری نہیں تھے درد و الم
میں اسے پوجتا تھا ویسے بھی
چاند شامل ہوا صفِ شب میں
دن اکیلا کھڑا تھا ویسے بھی
ذکر چل نکلا بے وفائی کا
یاد وہ آ رہا تھا ویسے بھی
میں اکیلا کبھی نہیں سویا
میں نے اس کو کہا تھا ویسے بھی
اس نے چاہا نہیں مجھے منصور
میں کسی اور کا تھا ویسے بھی
دیوان منصور آفاق
ردیف ی
بیسویں غزل
ابھی پرکھ اسے کچھ دن ، ہوا کو جانچ ابھی
تُو سرد رہنے دے اپنے بدن کی آنچ ابھی
او دل کو توڑنے والی ذرا خیال سے چل
چٹخ رہا ہے مری کرچیوں کا کانچ ابھی
جنہیں وسیلہ بناتا ہوں میں یقین کے ساتھ
ہیں مہربان مری ذات پر وہ پانچ ابھی
وہاں سے دور مرے زاویے کی اونچائی
جہاں نصیب کی جاری ہے کھینچ کھانچ ابھی
سجا کے ٹوٹی ہوئی چوڑیوں کے افسانے
اٹھائے پھرتی ہے تہذیب اپنا خوانچ ابھی
خراب سمت نما نے کنارے چھین لئے
بھٹک رہی ہے سمندر میں اپنی لانچ ابھی
مرے غزال یہ منظر سمیٹ لینے دے
نہ بھر زقند ابھی تُو، نہ بھر قلانچ ابھی
بڑے سکون سے بستی میں لوگ رہتے تھے
کھلی نہیں تھی کسی بنک کی برانچ ابھی
نئی غزل کا زمانہ ابھی نہیں آیا
ڈھا رہے ہیں پرانی غزل کا ڈھانچ ابھی
کسی کا وصل مکمل نہ کر سکا منصور
ادھوری ہے مرے جلتے بدن کی سانچ ابھی
دیوان منصور آفاق
ردیف ی
اکیسویں غزل
اک ایک سایہ ئ ہجراں کے ساتھ پوری کی
پھر ایک پوری دیانت سے رات پوری کی
میں ایک کُن کی صدا تھا سو عمر بھر میں نے
ادھوری جو تھی پڑی کائنات پوری کی
عجیب عالمِ وحشت ، عجیب دانائی
کبھی بکھیرا ، کبھی اپنی ذات پوری کی
تھلوں کی ریت میں بو بو کے پیاس کے کربل
پھر آبِ سندھ نے رسمِ فرات پوری کی
پلک پلک پہ ستارے رکھے سہاگ کی رات
نہ پوچھ چاند کی کیسے برات پوری کی
کئی برس سے ادھوری پڑی تھی ، سو میں نے
یہ مانگ تانگ کے سانسیں ، حیات پوری کی
یہ اور بات کہ دل میں اتر گیا پھر بھی
کسی سے ملتے ہوئے احتیاط پوری کی
یہ اور بات کہ آنسو ورق ورق پہ رکھے
کتابِ فلسفہ ئ انبساط پوری کی
یہ اور بات کہ کام آ گئی کوئی نیکی
اُس اجنبی نے مگر واردات پوری کی
ہزار کہہ کے بھی میں کچھ نہ کہہ سکا منصور
کہا نہ کچھ بھی مگر اس نے بات پوری کی
اس زمرہ میں ابھی کوئی صفحہ یا میڈیا موجود نہیں ہے۔