صفحہ 6 - اباجان کے ہاں ( از سید تفسیراحمد)

صفحہ 5 ►◄ اباجان کے ہاں ►◄ صفحہ 7


"واقعی ابن رشد علم کا شہزادہ تھا”۔ عمران نے کہا۔

اباجان نے گفتگو کو جاری رکھا”۔ ابن رشد اور ارسطو دونوں اس بات پراتفاق رکھتے ہیں کہ گہری سچائ کو معلوم کرنا بہت اہم ہے اور تجزیہ ، دلیل اورفلسفہ کی مدد سے انسان مکمل اوردائمی سچائ پر پہنچ سکتا ہے۔

ابن رشد ' شریعت ' پر یقین کرتا ہے۔ وہ قران پر اعتقاد رکھتا ہے۔ اُس کو اس بات پر اعتماد ہے کہ فلسفہ ، مذہب کی منافقت نہیں بلکہ تصدیق کرتا ہے۔وہ دعویٰ کرتا ہے کہ اللہ کی تخلیق کو سمجھنا فلسفہ کا ایمان ہے۔

عبدللہ المودودی ہمارے وقت کے مسلم اسکالر بھی اس سے اتفاق کرتے ہیں۔ وہ ' اسلام کے اخلاقی اصول ' میں لکھتے ہیں کہ اسلام کوئی نئے نادر اور انوکھے اخلاقی نتائج نہیں پیش کرتا اور نہ ہی پہلے سے موجود اخلاقی اصولوں سے اختلاف کرتا ہے۔اسلام صرف ان اصولوں میں اسلام کے بنیادی اصولوں کا اصافہ کرتا ہے۔

ابا جان نے سوال کیا”۔ اچھائیاں کیا ہیں؟

“ انسانیات کے اخلاقی اصول جو آدمی کوانسانیت سیکھاتے ہیں “۔ میں بولا۔

اچھائی کون بناتا ہے؟ " اباجان نے دوسرا سوال کیا”۔

آدمی ۔۔۔ علم حیات اور تہذیب کے نشوونما سے اانسانیت کے اصول حاصل کرتا ہے”۔ سانیہ بولی”۔

اچھائی کی تعریف بدل سکتے ہیں یا نہیں؟ "۔اباجان نے تیسرا سوال کیا”۔

وقت کے ساتھ عام طور پر اچھائی کے اصول عالمی بن جاتے ہیں مگرعلم حیات اور تہذیب کے نشوونما سے ان میں اضافہ یا تبدیلی ہو سکتی ہے ۔ آسیہ نے جواب دیا۔

اچھائی تعداد میں کتنی ہیں؟ " اباجان نے چوتھا سوال کیا”۔

یہ تو کہنا مشکل ہے ۔ کیوں کہ اچھائیاں ایک دوسرے پر منحصر ہیں۔ سقراط نے اس لیےتعداد پر زیادہ اہمیت نہیں دی”۔ جمیل نے کہا۔

سقراط کے چھ سوال؟

اباجان ، میں اسکا جواب دوں گی۔ یاسمن جلدی سے بولی”۔ تقویٰ ، جرات ، انصاف ، تقدس ، اعتدال اور اچھائی"

کیا اسلامی اصول عالمی اچھائی کے اصولوں سے مختلف ہیں؟

اسلام کے اپنے بھی گوہر ہیں اور عالمی ورچوز بھی اسلامی ورچوز کا حصہ ہیں”۔ عمران نے کہا”۔

اباجان نے کہا اب ہم سب جانتے ہیں کہ آراتے اوراچھائیاں کیا ہیں۔

ایک دن تم اور ہم اچھائیوں کو ایک ایک کر کے دیکھیں گے۔

اماں جان نے دوپہر کے کھانے کی گھنٹی بجائی۔


صفحہ 5 ►◄ اباجان کے ہاں ►◄ صفحہ 7