لطیفوں کے متعلق مبالغہ

گزشتہ صفحہ: ملا دوپیازہ اور نو رتن اکبری

ملا دوپیازہ دربار میں پہنچ کر چند ہی دنوں کے بعد اپنی خداد لیاقت (ظرافت) کے باعث یہاں تک بےتکلف اور بے دھڑک ہو گیا تھا کہ نورتن اکبری کے علاوہ خود شاہ سلامت سے مذاق کرنے سے بھی نہیں چوکتا تھا۔ اکبر بھی چونکہ زندہ دل اور خوش طبع بادشاہ تھا، اس لیے شیشۂ دل پر ملال نہیں لاتا تھا۔ بلکہ شیخ سعدی کے اس مقولہ کی طرح بادشاہ کبھی تعریفوں سے ناراض ہوتے ہیں اور کبھی گالیوں سے خوش، انعام و اکرام سے مالا مال کرتا تھا۔ ملا دوپیازہ اور بیربر کے لطیفے اکثر نامہذب، گندے اور فحش ہوا کرتے تھے۔ مگر ہوتے تھے پرمحل اور باموقع، جن کی نسبت افسوس ہے کہ اگر وہ احاطۂ تحریر میں لائے جائیں تو تہذیب و شائستگی کا خون ہو جاتا ہے۔ اور اخلاق و متانت دامن پکڑ لیتے ہیں۔

خوش طبع لوگوں نے اور ستم یہ کیا کہ جو سب سے زیادہ گندہ اور فحش لطیفہ دیکھا یا سنا اسے جھٹ ملا دوپیازہ اور بیربر سے منسوب کر دیا۔ یہاں تک تو کسی قدر حیرت تھی مگر ان کی خوش طبعی اور خوش مذاقی اکبر پر بھی ہاتھ صاف کرنے لگی۔ کوئی سمجھدار آدمی اس بات کو تسلیم نہ کرے گا کہ بیربر اور ملا اکبر جیسے بارعب اور پرجلال شہنشاہ کی بیٹی کے بوسہ پر شرطیں باندھیں اور بیربر نے ایک کنیز کو یہ پٹی پڑھائی کہ تم شہزادی کے رخسار پر سوئی چبھو دو اور غل مچا دو کہ بچھو نے کاٹ کھایا۔ پھر بادشاہ سلامت علاج دریافت کریں گے تو میں سنبھال لوں گا۔ غرض اس بہانے سے راجہ بیربر نے اپنے آقا، اپنے مالک، اپنے خاوند مجازی کی بیٹی کے بوسے لیے۔

اکبر بادشاہ کے متعلق ایک اور بار لوگوں نے اس طرح تراشا ہے جس کے ماننے میں گو ایک عالم متفق ہو، مگر نیازمند فوق کو بہت کچھ تامل ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ؛

اکبر نے ایک دفعہ ملا سے کہا کہ کوئی ایسی ہنسی کرو کہ جس کی نظیر اس سے پہلے صفحۂ دنیا پر نہ پائی جاتی ہو۔ ملا نے کہا چند دنوں کے بعد میں اس بات کا جواب دوں گا۔ مگر شرط سے دن ہی گزرتے تھے کہ بادشاہ کسی بات پر ملا سے ناراض ہو گیا اور حکم دیا کہ جلاوطن کر دیا جائے۔ ملا وطن سے باہر تو نہ گیا۔ بندھیاچل کے کسی غار میں جا کر چھپ رہا۔ درباری جاہ و جلال دل میں چٹکیاں لینے لگا اور کوئی تدبیر دربار میں جانے کی سوچنے لگا۔ آخر بادشاہ کی بات یاد آ گئی جو اس نے کہی تھی، کہ کوئی ایسی ہنسی کرو جو پہلے کبھی نہ ہوئی ہو۔ ملا فوراً وہاں سے نکل آیا اور ایک قصبہ سے ایک تھان سفید کپڑے کا خرید کر داڑھی مونچھ کو صاف کر کے سر پر باندھ پہاڑ کی چوٹی پر جا بیٹھا۔ لوگوں نے خیال کیا کہ یہ بڑا کامل درویش ہے، اس کے پاس آنے لگے، مگر وہ چپ رہتا تھا، جیسے کہ منہ میں زبان ہی نہیں اور کسی کی بات کا جواب نہ دیتا۔ اس سے لوگوں کا یقین اور بڑھ گیا اور رفتہ رفتہ یہ بات بادشاہ کے کان تک پہنچی۔ بادشاہ فقیروں کا بڑا معتقد تھا اور خاص کر ان دنوں کیونکہ عین شباب کا وقت تھا اور فرزند کوئی نہ تھا۔ اس لیے وہ زیادہ لوگوں کی ٹوہ میں رہتا تھا۔ الغرض بادشاہ حاضر ہوا اور ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو گیا، مگر پیر جی زبان کیا سر تک بھی نہیں ہلاتے تھے۔ جب بادشاہ نے عجز و انکسار ظاہر کیا تو انہوں نے مہربان ہو کر اشارے سے بادشاہ کو بلایا۔ بادشاہ ڈگمگا کر پاؤں پر گر پڑا تو انہوں نے اس کا سر پاؤں سے اٹھا کر کان میں چپکے سے کہا کہ میں جنت کا فرشتہ ہوں۔ خدا کی طرف سے تجھ پر پیغام لایا ہوں اور آٹھ دن کے بعد جنتی لباس لا کر تجھے پہناؤں گا۔ اس لباس کو حلالی آدمی تو نہایت عمدہ طور سے دیکھ سکے گا مگر حرامی کو بالکل نظر نہ آئے گا۔ الغرض بادشاہ آٹھویں دن بعد پھر حاضر ہوا اور اسے وہیں بیٹھا پایا۔ اس نے اشارے سے بادشاہ کے تمام کپڑے اتروا ڈالے اور اپنے ہاتھوں کو بادشاہ کے سر سے پیٹھ تک اور پھر کمر سے پاؤں تک اس طرح پھیرا جیسے کپڑے پہنائے جاتے ہیں۔ بعدہٗ دستار جس طرح سر پر باندھی جاتی ہے، اس طرح باندھی اور پوچھا کہ کہو کیسا عمدہ لباس ہے۔

بادشاہ نے اپنے تئیں بالکل برہنہ دیکھ کر بالکل حیران ہو گیا مگر اس خیال سے کہ وہ حرامی نہ خیال کیا جائے، کہنے لگا سبحان اللہ بہت عمدہ نورانی لباس ہے۔ غرض کہ ہاتھی پر سوار ہو کر بادشاہ شہر کی طرف واپس آیا۔ راستہ میں ہزارہا لوگ دیدار کے منتظر کھڑے تھے۔ جب دیکھا کہ بادشاہ برہنہ آ رہا ہے تو حیران ہو گئے مگر اس خیال سے کہ حرامی نہ کہلائیں کوئی اس بات کو ظاہر نہ کرتا تھا۔ جب شہر کے دروازہ پر بیربر سے ملاقات ہوئی تو اس نے بھی اسی ڈر سے کہا، واہ واہ کیسی عمدہ پوشاک ہے، کیسی معطر اور نورانی ہے۔ سبحان اللہ ایسی کبھی دیکھنے میں نہ آئی۔ یہ سن کر بادشاہ اور مغموم ہو گئے اور دل میں کہنے لگے کہ کیا وجہ ہے۔ یہ حلہ بہشتی مجھے نظر نہیں آتا۔ فوراً اپنی والدہ مریم مکانی کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ سچ مچ بتاؤ یہ کیا بات ہے، میں سخت شش و پنج اور حیرانی کے عالم میں ہوں کہ لوگوں کو یہ لباس نظر آتا ہے مگر مجھے دکھائی نہیں دیتا۔ اس نے ایک پاجامہ دیا کہ اس کو پہن کر دیکھ، اسے پہنا تو واقعی اس حصہ کے سوا تمام بدن برہنہ تھا۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ فوراً اس کو پکڑ کر حاضر کرو۔ مگر وہاں دیکھا تو کچھ بھی نہیں تھا۔ ناچار بادشاہ نے مجبور ہو کر یہ اشتہار دیا کہ جس شخص نے ایسا کیا ہے، خود ہی آ کر دس ہزار روپیہ انعام لے جاوے۔ کیونکہ اس نے خیال کیا کہ شاید اسی طرح سے مجرم کا پتہ لگے۔ انعام کا نام سن کر ملا صاحب دہم سے آ موجود ہوئے۔ جب بادشاہ نے کہا تم نے کیا کیا ہے تو وہ فرمانے لگے، کہ آپ کے حکم ہی کی تعمیل کی ہے۔ آپ نے جو ارشاد فرمایا تھا، کہ کوئی ایسی ہنسی کرو جو اب تک کسی نے نہ کی ہو۔ بادشاہ بہت خوش ہوئے اور علاوہ موعودہ انعام دینے کے ان کو شہر میں آ جانے کی اجازت دے دی۔

فوق: عقلِ سلیم باور نہیں کرتی کہ اکبر بادشاہ نے، جس کے جلو میں ہر وقت ابوالفضل اور فیضی جیسے ارسطو و افلاطون رہتے ہوں، ایسی ناشائستہ حرکت کی ہو۔

اگلا صفحہ: ملا دوپیازہ کی شاعری

رجوع بہ فہرست مضامین: سوانح عمری ملا دوپیازہ