محسن نقوی
'ردائے خواب' محسن نقوی
قطعاتِ محسن
انتساب
ناراض دوستوں کے نام…..
مجھے کسی سے محبت نہیں کسی کے سوا
میں ہر کسی سے محبت کروں کسی کے لیے
ردائے خواب
” نگارِ وقت اب اسے لہو سے کیا چمن کریں ” ؟
یہ دشتِ جاں کہ ہانپتا رہا سراب اوڑھ کر
لَبُو کے حرفِ نرم کی تپش سے مَت جگا اِسے
یہ دِل تو کب کا سو چُکا ” ردائے خواب” اوڑھ کر
محسن نقوی
لاہور ٢١ ستمبر 1985
ردائے خواب ایک مسافر کی ” خُود کلامی ” ہے ، جو دِن بھر خواب بُنتا ہے ، خواہشوں کے ریزے چُنتا اور پلکوں پر سجا کر اپنی ذات کے صحرا میں خیالوں کا خیمہ نصب کر کے سو جاتا ہے ۔
محسن نقوی ٢٨ مارچ ١٩٨٥ لاہور
میں اور وہ!
ترمیماُس نے جِس راہ کو لہو بخشا
میں بھی اُس راہ کا مُسافر تھا
وہ سرِ دار میں سرِ مقتل
وہ پیمبر تھا اور میں شاعر تھا
جیسے !
ترمیماب کے تُو اس طرح سے یاد آیا
جِس طرح دشت میں گھنے سائے
جیسے دھُندلے سے آئینے کے نقوش
جیسے صدیوں کی بات یاد آئے
بعض اوقات!
ترمیمموسمِ غم ہے مہرباں اب کے
ہم پہ تنہائیوں کا سایا ہے
بعض اوقات رات یُوں گُزری،
تُو بھی کم کم ہی یاد آیا ہے
عظمت آدم!
ترمیمعِشق، منزل کے رُخ کا غازہ ہے
عقل، رستے کو صاف کرتی ہے
زندگی پر جو لوگ چھا جائیں
مَوت اُن کا طواف کرتی ہے
احساس
ترمیمکیا بتاؤں کہ رُوٹھ کر تُجھ سے
آج تک تجربوں میں کھو یا ہُوں
تُو مجھے بھُول کر بھی خُوش ہوگا
میں تُجھے یاد کر کے رویا ہُوں
قُربت
ترمیممَیں سجاتا ہوں پیاس ہونٹوں پر
تُم گھٹا بن کے دِل پہ چھا جاؤ !
اے رگِ جاں میں گونجنے والو!!
اور بھی کُچھ قریب آ جاؤ
غیرتِ جاں !
ترمیمہم نے سچ بولنے کی جرات کی
تیرے بارے میں اور کیا کہتے
غیرتِ جاں کی بات تھی ورنہ
ہم ترے سامنے بھی چُپ رہتے
یادش بخیر!
ترمیمجو کبھی زندگی کا محور تھے!
کاش اب بھی وہ دوست کہلاتے
جو بھُلائے نہ جا رہے تھے کبھی!
اب وہی یاد بھی نہیں آتے
عذاب
ترمیمجب ہوا چار سُو بِکھر جائے
آدمی امن کو ترستا ہے
جب زمیں تیرگی سے اَٹ جائے
آسماں سے لہو برستا ہے
ہم وہ تاجر ہیں
ترمیمجی میں آئی تو بیچ کر شیشے!
شُعلۂ جامِ جم خریدیں گے
ہم وہ تاجر ہیں جو سرِ محفل
قہقہے دے کے غم خریدیں گے
اختلاف
ترمیمتُو وہ کج بیں کہ تُجھ کو منزل پر
رہگزاروں کے بَل دکھائی دیں
میں وہ خوش فہم ہوں کہ مُجھ کو سدا
آبلے بھی کنول دکھائی دیں
ہم
ترمیمصِرف ہرجائی پَن کی بات نہیں
اب ہمیں لوگ کیا نہیں کہتے!
اس قدر ظلم سہہ کے بھی اے دوست
ہم تجھے بے وفا نہیں کہتے
جس
ترمیمغم کو زُلفوں کا بَل نہیں کہتا
زخمِ جاں کو کنول نہیں کہتا
وہ جو اِک پَل کو رُوٹھ جاتا ہے
مدّتوں میں غزل نہیں کہتا
تنبیہ
ترمیمسُن لو جہان بھر کی جگر دار گردشو!
کہہ دو ہوائے دہر کی رفتار ٹوک کر
میں سو رہا ہوں زیرِ زمیں اس کی تاک میں
گُزرے اِدھر سے میرا عدو سانس روک ک
کتھار سِس
ترمیمچند لمحے جو غم کو ٹل آئے
کِتنے خوش بخت و خُوش خیال آئے
لوگ یُوں مطمئن سے ہیں جیسے
آسماں پر کمند ڈال آئے
سُہاگن
ترمیمخواہشوں کی جوان دیوی ہے
وحشیوں کے نگر کی ناگن ہے
بانجھ دھرتی کی ہچکیوں پہ نہ جا
زندگی تُو سَدا سُہاگن ہے
ضُرورت
فِکر کی ہر کَسک شعُوری ہے
عقل کی ہَر ادا ادھُوری ہے
دِل کی دُنیا سنوارنے کے لئے
عِشق کرنا بہت ضروری ہے
تضاد
ترمیمسیرتیں بے قیاس ہوتی ہیں
صُورتیں ، غم شناس ہوتی ہیں
جِن کے ہونٹوں پہ مُسکراہٹ ہو
اُن کی آنکھیں اُداس ہوتی ہیں
باز گشت
ترمیمسُکوتِ شامِ غریباں میں سُن سکو تو سُنو!
کہ مَقتلوں سے ابھی تک صَدائیں آتی ہیں
لہُو سے جِن کو منوّر کرے دماغِ بَشر،
ہوائیں ایسے چَراغوں سے خَوف کھاتی ہیں
جو مِری یادوں سے زِندہ تھا کبھی
مَدّتوں سے اُس کا خَط آیا نہیں
میں مگر کہتا ہُوں اپنے آپ سے
وہ بہت مصروف ہوگا ۔ یا کہیں …. ؟
سلامی
ترمیمسِتارے چُومتے ہیں گردِ پَا کو
خراجِ خُود کلامی لے رہی ہے
وہ رَستے میں کھڑی ہے یُوں کہ جیسے
دو عالَم کی سَلامی لے رہی ہے
تلاشِ امن
ترمیمغَم کے غُبار میں ہیں سِتارے اَٹے ہُوئے
خواہش کی کرچیوں میں ہیں چہرے بٹے ہُوئے
اَب کیا تلاشِ اَمن میں نکلیں کہ ہر طرف
مُدّت سے فاختاؤں کے ہیں پر کٹے ہُوئے
صیب
ترمیمجَوانی کے کٹھن رستوں پہ ہَر سُو
فریبِ آرزو کھانا پڑے گا!
بِچھڑ جاؤ، مگر یہ سوچ لینا
تمہیں اِک روز پچھتانا پڑے گا
دفن ہیں مُجھ میں شورشیں کِتنی
دِل کی صُورت خموش وادی ہُوں
شوق سے ترکِ دوستی کر لے
مَیں تِری نفرتوں کا عادی ہُوں
چاکِ داماں !
ترمیماِک فسانہ ہے زندگی لیکن
کتنے عنواں ہیں اس فسانے کے
چاکِ داماں کی خیر ہو یا ربّ
ہاتھ گُستاخ ہیں زمانے کے
ماتمی رُت
ترمیمماتمی رُت کا راج ہے ہَر سُو
پھُول مُرجھا گئے ہیں سہروں کے
اِک ترے غم کی روشنی کے سِوا
بُجھ گئے سَب چراغ چہروں کے
وِیرانی
ترمیمشہر کے سب لوگ ٹھہرے اجنبی
زِندگی تُو کب مُجھے راس آئے گی
اَب تو صَحرا میں بھی جی لگتا نہیں
دِل کی ویرانی کہاں لے جائیگی؟
سچ تو یہ ہے !
ترمیمسَب فَسانے ہیں دُنیا داری کے
کِس نے کِس کا سُکون لُوٹا ہے؟
سَچ تو یہ ہے کہ اِس زمانے میں
میں بھی جھُوٹا ہُوں تُو بھی جھُوٹا ہے
ماتم
ترمیماُڑ گیا رنگ رہگزاروں کا
قافلہ بُجھ گیا چناروں کا
اَوڑھ کر زرد موسموں کی رِدا
آؤ ماتم کریں بہاروں کا
قحط
ترمیمبھنور نے کاٹ دئیے سِلسلے کِناروں کے
خزاں نے رنگ چُرا ہی لئے بہاروں کے
عجیب قحط پڑا ہے کہ پیٹ بھرنے کو
میں راز بیچتا پھرتا ہُوں اپنے یاروں کے
اُفق کا چہرہ…؟
ترمیمکہاں ہے اَرض و سَما کا خالق کہ چاہتوں کی رگیں کُریدے!
ہَوس کی سُرخی رُخِ بَشر کا حَسین غازہ بنی ہُوئی ہے
کوئی مَسیحا اِدھر بھی دیکھے، کوئی تو چارہ گری کو اُترے
اُفق کا چہرہ لہُو میں تَر ہے، زمیں جنازہ بنی ہُوئی ہے
تشنگی
ترمیموہ کہ جلتی رُتوں کا بادل تھا،
کیا خبر کب برس گیا ہوگا؟
لیکن اندر کی آگ میں جل کر
اُس کا چہرہ جھُلس گیا ہوگا
خمیازہ
ترمیمہمارے دِل نے بھی محفل سجائی ہے کیا کیا!
حیات ہم پہ مگر مُسکرائی ہے کیا کیا!
ہَوائے گردشِ دوراں کے ایک جھونکے سے
تمہاری یاد کی لَو تھر تھرائی ہے کیا کیا
سانولی
ترمیمکیا جانے کب سے دھُوپ میں بیٹھی تھی سانولی؟
اُبھری ہُوئی اَنا کی شِکن سی جَبِیں پر
دیکھا فضا میں اُڑتے پرندوں کو ایک بار
پھر کھینچنے لگی وہ لکیریں زمین پر
قرض
ترمیماپنے ہمسائے کے چراغوں سے
بام و دَر کو سنوار لیتا ہُوں
اِتنا مُفلِس کیا اندھیروں نے
روشنی تک اُدھار لیتا ہُوں
اور ہم
ترمیمبارہا خُود سے ہر داستاں کہہ گئے
لفظ آنسُو بنے، آنکھ سے بہہ گئے
لوگ جاں سے گزرتے رہے اور ہم
خُود کشی کے لئے سوچتے رہ گئے
جہیز
ترمیماُس کو تھے راس بھیگتی پلکوں کے ذائقے،
دریا رَواں تھے اُس کے دِل حشر خیز میں
کرتی تھی بے دریغ اُنہیں خرچ اس لئے
لائی تھی اپنے ساتھ وہ آنسو جہیز میں
قرینہ
ترمیمدَور کے چاند کی کرنوں میں نہایا ہوں کہ یُوں
میرے ماتھے پہ مُحبت کا پَسینہ آئے
اِس لے ٹُوٹ کے رویا ہوں میں اکثر محسن
مُجھ کو دِل کھول کر ہنسنے کا قرینہ آئے
خراج
ترمیمآنکھوں میں بَھر کے سَادہ مُحبت کی ڈوریاں
مُٹّھی میں بند کر کے دِل و جاں کی چوریاں
دَھرتی کو لُوٹتی ہیں تبسُم کی اَوٹ سے
چالاک کِس قدر ہیں یہ گاؤں کی گوریاں
خُود بھی….. ؟
ترمیمخُود بھی اُترا ہے آسمانوں سے
مُجھ کو پستی میں ڈالنے کے لئے
خُود بھی بدنام ہو گیا کوئی؟
مُجھ پہ تہمت اُچھالنے کے لئے
وِصال
ترمیمدُور تک وَادیاں ہیں پھُولوں کی
میری آنکھوں میں عکس تیرا ہے
چاند گھُلنے لگا ہے پانی میں
ہَر طرف سانولا سویرا ہے
بُزدل
ترمیمیُوں تو محفل میں جانِ محفل تھا
رہگُزر میں چَراغِ منزل تھا
دل کی باتیں نہ کہہ سکا تُجھ سے
تیرا شاعرِ غَضَب کا ” بُزدل” تھا
وارث
ترمیماَے زمیں کے عظیم اِنسانو!
بھید پاؤ کبھی اُڑانوں کا!!
تُم تو دَھرتی سنوار لو گے مگر
کون وارِث ہے آسمانوں کا
خواب
ترمیمدَرد یُوں بے حِساب لگتا ہے
مُسکرانا عذاب لگتا ہے
جِس میں اُڑتے تھے قہقہے اپنے
اَب وہ ماحَول خواب لگتا ہے
مصلحت
ترمیمہاتھوں میں دوستی کی لکیریں سَجا کے مِل
آنکھوں میں احتیاط کی شمعیں جَلا کے مِل
دِل میں کدورتیں ہیں تو ہوتی رہیں مگر
بازار میں مِلا ہے ذرا مُسکرا کے مِل
اصُول
ترمیمزِندگانی کی کج اَدائی پر
تبصرے سب فضول ہوتے ہیں
اپنی اپنی بساط ہے سب کی
اپنے اپنے اصُول ہوتے ہیں
اختیار
ترمیمہم تبسُم سجا کے ہونٹوں پر
غَم بقدرِ مزاج لیتے ہیں
جیسے ہنستے دِیے مزاروں کے
آندھیوں سے خِراج لیتے ہیں
حواس
ترمیمشُعلۂ گُل سے چَمن جَلتا ہے
شہر کے شور سے بَن جلتا ہے
اَب” گھٹا” دِل کو گھٹا دیتی ہے
اَبر تن جائے تو تَن جَلتا ہے
اہتمام
ترمیمبُجھتی نبضیں اُبھارتے رہنا
دِل کا عالَم نِکھارتے رہنا
اِک نظر دیکھ لو زمانے کو
پھر یہ زُلفیں سَنوانتے رہنا
چوری چوری
ترمیمچند کپڑے ہیں سادہ گھٹڑی میں
چند زیور چھُپا کے لائی ہے
ایک ” پگلی” ” پیا” سے مِلنے کو
ہِیر کے مقبرے میں آئی ہے
گواہی
ترمیمکون رَوتا ہے تمہارے بِجر میں ؟
ڈُوبتے دِل کی صَدا سے پُوچھنا
کون پِھرتا ہے گلی میں رات بھر؟
دستکیں دیتی ہوا سے پُوچھنا
آمد
ترمیموہ تَشبیہیں پہن کر آ رہی ہے
حقیقت بَر محل کہنا پڑے گی
خِراج اَب اور کیا دینا ہے اُس کو
مُجھے تازہ ” غزل” کہنا پڑے گی!
اُداسی
ترمیموقفِ خوف و ہراس لگتا ہے
دِل، مصائب شناس لگتا ہے
تُو جو اَوجھل ہُوا نگاہوں سے
شہر سارا اُداس لگتا ہے
لفظ
ترمیماِن کو دِل میں سنبھال کر رکھو!
اِن کو سَوچو بہت قرینوں سے
چند سانسوں سے ٹُوٹ جاتے ہیں
” لفظ” نازک ہیں آبگینوں سے
طعنے
ترمیمسَنولاگئے ہیں رنگ رُخِ ماہتاب کے
مُرجھا گئے کلائی میں گجرے گُلاب کے
اَب کے برس بھی تُو جو نہ آیا تو دیکھنا
مُجھ کو تو مار ڈالیں کے طعنے چناب کے
آدمیت
ترمیمتُم، کہ عُہدوں پہ جان دیتے ہو
ہَم پہ بھی اعتبار کر دیکھو،
آدمیّت بھی ایک مَنصب ہے،
آدمی سے بھی پیار کر دیکھو
ان دنوں
ترمیمآنکھوں میں آنسوؤں کی حِنا سی ہے اِن دِنوں
دِل کو بھی شوقِ دَرد شناسی ہے اِن دِنوں
گر ہو سکے تو آ کہ مری جاں ترے بغیر!
ماحول میں شدِید اُداسی ہے اِن دِنوں
لَوّ مَیرج LOVE MARRIAGE
ترمیمتُجھ کو تو مِل گیا ترا دِلدارِ جاں نواز!
پِھر کیوں ترا وجود رہینِ ہَراس ہے
پِھر شرمسار کیوں ہے یہ جوڑا سُہاگ کا
پِھر کِس لئے یہ سُرخ دوپٹّہ اُداس ہے
ایک خط
ترمیمنَرم کر دیتی ہیں دِل کو دُوریاں
نَفرتیں بھی کھیلتی ہیں پیار سے
اَجنبی بن کر جو ملتا تھا کبھی
اُس کا خَط آیا سمندر پار سے
دُنیا
ترمیمیہ سِتمگر یہ دِلنشیں دُنیا
سَب کو لگتی ہے مہ جبیں دُنیا
میری آنکھیں غریب ہیں ورنہ
اِس قدر قیمتی نہیں دنیا
خواہش
ترمیماَب کے ہَر سُو وہ اُداسی ہے کہ دل کہتا ہے
کوئی بھٹکا ہُوا رَہرَو ہی سفر میں اُترے
کوئی رُوٹھا ہوا جُگنو ہی بُلائے مُجھ کو!
کوئی ٹُوٹا ہُوا تارہ میرے گھر میں اُترے
اعتراف
ترمیمترے خیال سے دامن بچا کے دیکھا ہے
دِل و نظر کو بہت آزما کے دیکھا ہے
نِشاطِ جاں کی قسم، تُو نہیں تو کُچھ بھی نہیں
بہت دِنوں تُجھے ہم نے بھُلا کے دیکھا ہے
جیسے پانی میں
ترمیمدِل، ترے اِنتظار میں اکثر
تیرے آہٹ سے ڈرنے لگتا ہے
جیسے پانی مین پھُول کاغذ کا
تیرتے ہی بِکھرنے لگتا ہے
وہ اگر
ترمیمتِیرگی رُوح پر مسلّط ہو!
چاندنی اشکبار ہو جائے
رو پڑے یہ بہار کا موسم!
وہ اگر سوگوار ہو جائے
دستکیں
ترمیمدستکیں جِس کے دَر پہ دیتا ہوں
یُوں بھی وہ مُجھ کو ٹال دیتا ہے!
اپنے دامن کی نفرتیں چُن کر
میری جھولی میں ڈال دیتا ہے
کون آشنا؟
ترمیمکوئی مکاں نہ کوئی مکیں ، کون آشنا؟
ہم اپنے شہر میں بھی مُسافر سے رہ گئے
یا سُرخ آندھیوں کی نظر کھا گئی اُنہیں
یا اَب کی بارشوں میں گھروندے ہی بہہ گئے
روہی کے لوگ
ترمیمسینے میں دَرد، لب پہ تبسّم کے ذائقے
دُنیا کی گردشوں سے سَدا بے نیاز ہیں
بُجھتے ہُوئے دِلوں پہ چھڑکتے ہیں روشنی
روہی کے لوگ کِتنے مُسافر نواز ہیں
تمسخُر
ترمیمکہیں دَھرتی نہاتی ہے لہُو دَریا کی مَوجوں میں
کہیں بارُود کی بارش ہے اِنسانی ریاست پر
ستارے اشک بن کر ہٹ گئے معصُوم بچّوں میں
فرشتے ہنس رہے ہیں ابنِ آدم کی سِیاست پر
قیامت
ترمیمموت تاریک وادیوں کا سفر
زندگی نُور کی علامت ہے
حشر برحق سہی مگر مُحسن
سانس بھی اِک قیامت ہے
قیامت
ترمیمموت تاریک وادیوں کا سفر
زندگی نُور کی علامت ہے
حشر برحق سہی مگر مُحسن
سانس بھی اِک قیامت ہے
دوستی
ترمیماب یہی مصلحت مناسب ہے
اب اِسی طور زندگی کر لیں ،
میں بھی یاروں کا زخم خوردہ ہوں
دشمنو، آؤ دوستی کر لیں
دل کو بُجھنا تھا… ! تِیرگی کے اُداس چہرے پر
رات بھر ایک دَاغ کیا جَلتا؟
دِل کو بُجھنا تھا، بُجھ گیا آخِر
آندھیوں میں چَراغ کیا جَلتا؟
ترغیب
ترمیمغَم کے سنجوگ اَچھے لگتے ہیں
مُستقل روگ اچھے لگتے ہیں
کوئی وعدہ وَفا نہ کر، کہ مُجھے
بے وفا لوگ اَچھّے لگتے ہیں
اُس سے کہہ دو… ! اُس کے ہونٹوں پہ خموشی کے شرارے بھر دو
جِس نے سیکھا نہ ہو شیشے کو بھی پتھر کہنا
اُس سے کہہ دو کہ وہ آنکھوں میں سیاہی بھر لے!
جِس کو آتا نہ ہو صحرا کو سَمندر کہنا
مُسکرابھی دے…. !
ترمیماُس کے چہرے پہ گردِ محرومی!
اُس کی آنکھوں کے شہرِ ویراں ہیں ،
مُسکرا بھی دے اے غمِ دوراں !
اُس کی زُلفیں بہت پریشاں ہیں
” ہم”
ترمیمعُمر گذری عذابِ جاں سہتے
دھُوپ میں زیرِ آسماں رہتے
ہم ہیں سُنسان راستوں کے شَجر
جو کِسی کو بھی کُچھ نہیں کہتے
حالات
ترمیمتُجھ کو یہ وَہم ہے کہ کیوں مُجھ کو
تیری رعنائیوں سے پیار نہیں
میں یہی سَوچ کر ہُوں چُپ کہ ابھی
میرے حالات سَازگار نہیں
بے خیالی میں …. !
ترمیمیُوں بھی ہے اب کہ سوچ کر تُجھ کو
دِل ترے دَرد میں پِگھل جائے
بے خیالی میں آگ کو چھُو کر
جیسے بچّے کا ہاتھ جَل جائے
اور کتنی …. !
ترمیمساعتِ حشر کی اذّیت تک
اور کتنی اذّیتیں ہوں گی
اُس قیامت سے پیشتر یا رَبّ!
اور کتنی قیامتیں ہوں گی !
احتیاط
ترمیمسُخن، میزان میں تو لو نہ تولو !
مگر نزدیک آ کر بَھید کھولو !!
کہیں خُوشبو نہ سُن لے بات کوئی
مِری جاں ، اور بھی آہستہ بولو
شاید
ترمیمدَرد، دِل کی اساس ہو شاید
غَم، جَوانی کو راس ہو شاید
کہہ رہی ہے فَضا کی خاموشی
اِن دِنوں تُم اُداس ہو شَاید
ایک فلسطینی بچّے کی سالگرہ اَب کہاں وہ گیت گاتی محفلیں
اَب کہاں عُود و عبیرہ و آبنوس؟
چند شمعوں کی بجائے مَیز پر
رکھ دِئیے ہیں ماں نے خالی کارتُوس
احساس
ترمیممُجھ سے مَت پُوچھ کہ احساس کی حِدّت کیا ہے؟
دھُوپ ایسی تھی کہ سائے کو بھی جَلتے دیکھا
شدتِ غم میں مرے دیدۂ تَر نے محسن
پتّھروں کو بھی کئی بار پِگھلتے دیکھا
روایت
ترمیمکیا ہُوئے وہ دِن وہ رَسمیں کیا ہُوئیں ؟
کھیلتے تھے جب غمِ دَوراں سے لوگ
بانٹتے پِھرتے تھے ہر سُو زِندگی
کُچھ سخی کُچھ بے سرو ساماں سے لوگ
مداوا
ترمیمتسخیر کر رہا ہوں زمانے کی گردشیں
غم کو سِکھا رہا ہوں مناجات عِید کی
گُم سُم ہے کائنات، ستارے ہیں دَم بخود
” ہیر”
ترمیمجب بھی سَاون کی شوخ راتوں میں
کوئی وارث کی ” ہِیر” گاتا ہے
سَوچتا ہوں کہ اُس گھڑی مُجھ کو
کیوں ترا شہر یاد آتا ہے
آ بھی جاؤ!!
ترمیمتُم کُچھ ایسے بِچھڑ گئے مُجھ سے
غَم کے سائے ڈھلے نہیں ڈھلتے
آ بھی جاؤ کہ اَب منڈیروں پر
مُدّتوں سے دِیے نہیں جَلتے
تکلُف
ترمیمیُوں بھی ہم دُور دُور رہتے تھے
یُوں بھی سِینوں میں اِک کُدورت تھی
تُم نے رسماً بھُلا دیا ورنہ!
اِس تکلّف کی کیا ضُرورت تھی ؟
تلاش
ترمیمچُومتی تھیں جِس کے پاؤں مَنزلیں
قافلہ وہ کِن بیا بانوں میں ہے ؟
جِس کی حِدّت سے پِگھلتے تھے پہاڑ
وہ لہُو کِن گرم شریانوں میں ہے ؟
اس طرح
ترمیماِس طرح دِل کے زَرد آنگن میں
تیری یادوں کے داغ جَلتے ہیں
جیسے آندھی میں ٹُوٹی قبروں پر
سہمے سہمے چراغ جلتے ہیں
” جوگن”
ترمیمغَم، وہ سَفّاک سَم کا قَطرہ ہے
جو رگوں میں اُتر کے بَس جائے
” زِندگی” وہ اُداس ” جوگن” ہے
جِس کو سَاون میں سانپ ڈَس جائے
کیا کھیئے ہر طرف جبر ہو تو کیا کیجئے
ہر طرف ظُلم ہو تو کیا کہیئے
کِتنے احباب کا گِلہ کیجئے
کِتنے اعداء کو مرحبا کہیئے
کون پھر
ترمیمکِس کی شَب بے مَلال کٹتی ہے؟
کِس کا دِن چَین سے گذرتا ہے ؟
مِل گئے ہو تو مُسکرا کے مِلو!
کوب پھر کِس کو یاد کرتا ہے؟
مُلاقات
ترمیمشفَق ہَونٹوں میں سُرخ آنچل دَبائے
وہ گوری اِس طرح شرما رَہی ہے!!
ضمیرِ دو جہاں میں زلزلے ہیں !!
مُجھے تازہ غزل یاد آ رہی ہے
سوال
ترمیمیا مَقتلوں کا رِزق ہُوئی آبروئے جاں
یا گردِشوں کی نذر ہُوئے سرفراز لوگ
اَب کیوں مُسافروں کے ٹھکانے ہیں دھُوپ میں
اَب کیا ہُوئے وہ شہر کے مہماں نواز لوگ؟
یوں تری یاد!
ترمیمیُوں تِری یاد، دِل میں اُتری ہے
جیسے جُگنو ہَوا میں کھو جائے
جیسے ” روہی” کے سر ٹیلوں میں
اِک مُسافر کو رات ہو جائے
غم کی زد میں
ترمیمغَم کی زَد میں اگر بِگڑ جائیں
پھر کہاں قِسمتیں سنورتی ہیں ؟
ذکرِ تجدیدِ دوستی نہ کرو!!
اَب یہ باتیں گراں گذرتی ہیں
اوس
ترمیمکہیں سُورج سے ذرّے کی ٹھنی ہے
کہیں تِتلی سے بھنورا لڑ گیا ہے
پڑی ہے اوس رِشتوں پر کُچھ ایسی
لہُو کا رنگ پھیکا پڑ گیا ہے
سوجاؤ
ترمیمآنکھوں میں گھول کر نئے موسم کے ذائقے
باہوں میں رَوشنی کے سمندر کو گھیر کر
خوابوں کی سرزمیں پہ خیالوں سے بے نیاز
سو جاؤ اپنی رشیمی زُلفیں بکھیر کر
سَوچ
ترمیمتُجھ کو سوچوں تو ایسے لگتا ہے
جیسے خوشبُو سے رنگ مِلتے ہیں
جیسے صحرا میں آگ جلتی ہے ؟
جیسے بارش میں پھُول کِھلتے ہیں
تَپش
ترمیمچُبھتے ہُوئے وہ لفظ وہ جلتے ہُوئے حروف
شہ رگ میں اب بھی ہیں وہی کانٹے اڑے ہُوئے
اِک بار سَچ کہا تھا مگر اُس کی آگ سے
اَب تک مِری زباں پہ ہیں چَھالے پڑے ہوئے
دُعا
ترمیمبات بنتی رَہے خُوئے دلدار کی
رات چمکی رہے حُسنِ بازار کی
دشت کی چاندنی میں نہاتی رہیں
شہر کی سَسّیاں ، سوہنیاں پیار کی
چاندنی
ترمیمپلکوں پہ آنسوؤں کو سجاتی ہے رات بھر
دِل میں رَواں ہے رُوح کے اندر ہے چاندنی
اُبھرا ہے کون اِس کے تلاطُم میں ڈُوب کر؟
آوارگی کا ایک سمندر ہے چاندنی
نَدامت
ترمیمدَدر کی دھُوپ سے بَھرے بَن میں
اپنے سائے سے ڈر کے پچھتایا!
اے مِرا نام بھُولنے والے!!
مَیں تجھے یاد کر کے پچھتایا
کاوش
ترمیمپھالیہ سے علی رضا نے ۷ مارچ ۲۰۱۴ کو مجموعہ کلام محسن نقوی مرتب کیا۔ ailia.wanted@gmail.com facebook.com/ailia.wanted +965-50930440