ملا صاحب کی قیافہ شناسی

گزشتہ صفحہ: عاشق اور خدا کی یاد

ایک دن اکبر بادشاہ بیربر ملا سمیت شکار کے لیے جاتے تھے۔ راستے میں دیکھا کہ ایک زمیندار ہل جوت رہا ہے اور اس کے گلے میں ٹال بندھا ہے، جس کی آواز دور تک جاتی ہے۔ بادشاہ نے بیربر سے کہا یہ شخص بڑا بیوقوف ہے۔ بیربر نے کہا قبلۂ عالم اس کی عورت بڑی دانا ہے۔ ملا جی نے کہا مگر اس کی کسی دولتمند سے آشنائی بھی ہے۔ بادشاہ نے کہا اس کا کیا ثبوت، ملا جی نے کہا لو ابھی۔ چنانچہ یہ کہہ کر وہ اس زمیندار کے پاس گئے اور کہنے لگے۔ بھیا ٹالیہ خالہ صاحبہ جیتی ہیں کہ نہیں۔ تم تو مجھے کیا پہچانتے ہو گے کیونکہ تم ابھی بہت چھوٹے تھے کہ میں نوکری پر چلا گیا تھا، اور وہاں سے آج ہی واپس آنے کا اتفاق ہوا۔ میں تمہارا خالہ زاد بھائی ہوں۔ یہ بات سن کر وہ بہت خوش ہوا اور کہنے لگا، بہت اچھا، چلو میں ابھی آتا ہوں۔ ملا صاحب اس کے مکان کا پتہ لے کر اس کے گھر پہنچے تو دیکھا کہ ٹالیہ کہ بیوی کے پاس ایک اور آدمی بیٹھا ہے، جو اس کی بیوی کے ساتھ باتیں کر رہا ہے، جو میاں بیوی کے سوا دوسرا نہیں کر سکتا۔ غرض ملا صاحب نے آواز دی کہ میں ٹالیہ کا خالہ زاد بھائی ہوں، انہوں نے کہا ہے کہ گھر چلو میں ابھی آتا ہوں۔ یہ سن کر ٹالیہ کی بیوی گھبرائی اور اس شخص کو مٹی کی کوٹھی میں بند کر دیا۔ ملا صاحب ابھی بیٹھے ہی تھے کہ ٹالیہ صاحب بھی ٹن ٹن کرتے آن پہنچے۔ ملا صاحب کی بہت خاطر تواضع کی۔ اس کے بعد انہوں نے اجازت مانگی کہ اب میں جاتا ہوں پھر کبھی آؤں گا۔ اس نے بہتیرا کہا کہ دو چار دن یہیں رہو۔ مگر انہوں نے نہ مانا اور اٹھتے وقت کہنے لگے کہ بھیا کوئی اپنی نشانی تو دے دو کہ اسے دیکھ کر ہر وقت یاد کر لیا کروں گا۔ پھر خود ہی کہا کہ یہ مٹی کی کوٹھی دے دو۔ ٹالیہ نے کہا بہت اچھا۔ مگر اس کی بیوی کہنے لگی، میں نے اسے بڑی محنت سے بنوایا ہے کچھ اور لے جاؤ، میں یہ تو نہیں دوں گی۔ ٹالیا صاحب نے اسے ڈانٹا اور انہیں کہا کچھ ڈر نہیں تم لے جاؤ۔ اب ملا صاحب نے فرمایا کہ بھیا اس کا یوں اٹھا کر لے جانا موجب خطر ہے، ممکن ہے کہ رستے میں ذرا سی ٹھیس سے ٹوٹ جائے۔ بہتر ہے کہ اسے پکا لیں، ٹالیا نے کہا بہت اچھا۔ چنانچہ وہ لکڑیاں لے آیا، ملا صاحب نے ان کی کوٹھی کے گرد چن دیا اور تیار ہوا کہ آگ لگا دے جب عورت نے دیکھا کہ ان کے آشنا کی جان جاتی ہے، تو اس نے اس کے والد کو کہلا بھیجا کہ تمہارا بیٹا جلتا ہے۔ اگر اس کی زندگی چاہیے تو کچھ روپیہ دے کر کوٹھی خرید لو۔ چنانچہ گاؤں کا سا ہو گا، روپیہ کی تھیلی لے کر آن پہنچا اور ملا صاحب سے کہنے لگا آپ مجھ سے ہزار روپیہ لے لیں اور یہ کوٹھی یونہی مجھے دے دیں۔ ملا صاحب نے کہا اے احمق اول تو یہ مٹی کی کوٹھی ہے، اس کی قیمت ایک روپیہ نہیں ہو سکتی۔ تو ہزار روپیہ دیتا ہے، دوسرے مجھے اپنے خالہ زاد بھائی سے تحفہ ملا ہے، میں اسے کیونکر دے دوں۔ یہ تو میرے پاس ان کی نشانی ہو گی، تم لاکھ روپیہ بھی دو تو میں نہیں دوں گا۔ اتنے میں گاؤں کے اور بہت سارے آدمی جمع ہو گئے اور سب نے ملا صاحب سے کہا کہ ہزار روپے کی تھیلی لے کر زور سے ایک لات مٹی کی کوٹھی کو مار کر کہا کہ اسے اگر سونے سے بھر دو تو بھی نہیں دوں گا۔ لات کا لگنا تھا کہ کوٹھی چکنا چور ہو گئی اور اس میں سے ساہوکار کے بیٹے نکل پڑے۔ وہاں کے لوگ حیران رہ گئے، مگر ملا صاحب نے اپنی بات کا ثبوت بہم پہنچا کر بادشاہ کو سارے حال سے مطلع کیا۔ وہ سن کر بہت خوش ہوئے اور ملا صاحب کی عقل کی داد دے کر آگے چلتے بنے۔

اگلا صفحہ: مونچھیں صاف کر لیجیے

رجوع بہ فہرست مضامین: سوانح عمری ملا دوپیازہ