چراغ
جتنے موتی گرے آنکھ سے جتنا تیرا خسارا ہوا دست بستہ تجھے کہہ رہے ہیں وہ سارا ہمارا ہوا
آگرا زندہ شمشان میں لکڑیوں کا دھواں دیکھ کر اک مسافر پرندہ کئی سرد راتوں کا مارا ہوا
ہم نے دیکھا اسے بہتے سپنے کے عرشے پہ کچھ دیرتک پھر اچانک چہکتے سمندر کا خالی کنارا ہوا
جا رہا ہے یونہی بس یونہی منزلیں پشت پر باندھ کر اک سفرزاد اپنے ہی نقشِ قدم پر اتارا ہوا
زندگی اک جوا خانہ ہے جسکی فٹ پاتھ پر اپنا دل اک پرانا جواری مسلسل کئی دن کا ہارا ہوا
تم جسے چاند کا چاند کہتے ہو منصور آفاق وہ ایک لمحہ ہے کتنے مصیبت زدوں کا پکارا ہوا