کماؤں کے آدم خور/موہن کا آدم خور/2

مئی کی ایک جھلساتی دوپہر تھی جب میں اپنے دو ملازموں اور چھ گڑھوالیوں کے ہمراہ نینی تال سے آنے والی ٹرین سے رام نگر کے سٹیشن پر اترا۔ یہاں سے ہم چوبیس میل کے پیدل سفر پر کرتکالہ کو روانہ ہوئے۔ ہماری پہلی منزل سات میل دور گرگیا تھی جہاں ہم شام کو پہنچے۔ بینز کا خط کچھ اس وقت ملا تھا کہ روانہ ہونے سے قبل مجھے ڈاک بنگلہ استعمال کرنے کی اجازت لینے کا وقت نہ ملا۔ اس وجہ سے ہم لوگ کھلی جگہ خیمہ لگا کر سو گئے۔

گرگیا میں دریائے کوسی کے کنارے کئی سو فٹ بلند ایک چٹان موجود ہے۔ جب میں سونے لگا تو اس طرف پتھر لڑھکنے کی آوازیں آنے لگیں جیسے پتھر لڑھکتے ہوئے دوسرے پتھروں سے ٹکرا رہے ہوں۔ کچھ دیر بعد مجھے اس آواز سے تشویش ہونے لگی۔ جب چاند نکلا اور اتنی روشنی ہو گئی کہ میں سانپ وغیرہ کو دیکھ کر ان سے بچ کر چل سکتا تھا تو میں آواز کی جانب بڑھا۔ آگے چل کر علم ہوا کہ یہ آواز سڑک کے کنارے ایک دلدل کے مینڈک پیدا کر رہے ہیں۔ میں نے خشکی، پانی حتٰی کہ درخت پر رہنے والے دنیا کے مختلف حصوں میں مینڈکوں کی آوازیں سنی ہیں لیکن جتنی عجیب آوازیں گرگیا کے مینڈک مئی کے مہینے میں پیدا کر رہے تھے، کہیں اور نہیں سنی۔

علی الصبح جب ہم موہن روانہ ہوئے تو ابھی دن گرم ہو رہا تھا کہ وہاں پہنچ گئے۔ یہ کل بارہ میل کا سفر تھا۔ جتنی دیر میں میرے ہمراہیوں نے اپنے لئے کھانا اور میرے ملازمین میرے لئے ناشتہ بنانے لگے، بنگلے کے چوکیدار، دو فارسٹ گارڈوں اور کئی مقامی لوگوں نے مجھے آدم خور کی داستانیں سنا سنا کر کافی محظوظ کیا۔ سب سے مزے کی داستان وہ تھی جس میں ایک مقامی مچھیرا اور ایک مقامی فارسٹ گارڈ موجود تھے۔ فارسٹ گارڈ نے خود کو اس کہانی کا ہیرو ظاہر کیا۔ اس نے مزے لے لے کر مجھے یہ داستان سنائی کہ کس طرح وہ ایک مقامی مچھیرے کے ہمراہ جا رہا تھا کہ ایک موڑ مڑتے ہوئے اس نے آدم خور شیر کو دیکھا۔ پھر اچانک مچھیرے نے فارسٹ گارڈ کی بندوق چھینی اور دونوں ہی سر پر پیر رکھ کر بھاگے۔ میں نے پوچھا کہ کیا تم نے پیچھے مڑ کر دیکھا؟ میری سادہ لوحی پر ترس کھاتے ہوئے اس نے جواب دیا کہ نہیں صاحب، جب آدم خور تعاقب میں ہو تو پیچھے مڑ کر دیکھنے کا کسے ہوش رہتا ہے۔ پھر اس نے بتایا کہ مچھیرا جو اس سے آگے تھا، اچانک گھاس میں سوئے ہوئے ایک ریچھ پر چڑھ گیا۔ پھر ان کی بدحواسی، ریچھ اور شیر کا مشترکہ ہنگامہ، غرض عجیب منظر تھا۔ جس کا منہ جس طرف اٹھا، ادھر کو بھاگ لیا۔ کافی دیر بعد مچھیرا جب واپس فارسٹ گارڈ کے پاس پہنچا۔ یہاں گارڈ نے اسے خوب لعن طعن کی کہ وہ کیسے اسے نہتا کر کے اور ریچھ اور آدم خور کے رحم و کرم پر چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ فارسٹ گارڈ نے کہانی ختم کرتے ہوئے بتایا کہ اس سے اگلے روز مچھیرا بستی چھوڑ کر چلا گیا کیونکہ اس کی ٹانگ ریچھ سے ٹکرانے سے زخمی ہو گئی تھی اور یہ کہ دریائے کوسی سے مچھلیاں بھی ختم ہو گئی تھیں۔

دوپہر کو ہم مزید سفر کے لئے تیار تھے۔ پورا گاؤں اکھٹا ہو کر ہمیں الوداع کہنے اور خبردار کرنے آیا۔ ان کے خیال کے مطابق گھنے جنگل میں آدم خور ہمارا منتظر ہوگا۔ ہم اب کرتکالہ کی جانب چار ہزار فٹ کی چڑھائی کے لئے روانہ ہو گئے۔

ہماری پیش قدمی کافی سست تھی کیونکہ میرے ساتھی بھاری سامان اٹھائے ہوئے تھے اور چڑھائی بہت سخت تھی۔ گرمی کا تو پوچھئے مت۔ اس جگہ کچھ عرصہ قبل بدامنی پھیل گئی تھی اور اسے رفع کرنے کے لئے پولیس کا ایک چھوٹا سا دستہ بھیجنا پڑا تھا۔ مجھے ہدایت کی گئی تھی کہ میں اپنی ضرورت کی ہر چیز اپنے ساتھ ہی لے کر چلوں کیونکہ شورش کے باعث شاید مجھے کوئی چیز بھی مقامی طور پر نہ مل سکے۔ یہی وہ بوجھ تھا جس سے میرے ساتھی ہانپ رہے تھے۔

کئی جگہوں پر رکتے رکتے ہم لوگ سہہ پہر کے بعد ایک مزروعہ قطعے تک پہنچ گئے۔ ابھی چونکہ ہم آدم خور کے علاقے سے باہر تھے، میں اپنے ساتھیوں کو چھوڑ کر بے خطر اس جھونپڑے کی طرف چل دیا جو موہن سے صاف دکھائی دے رہا تھا۔ مجھے فارسٹ گارڈ نے بتایا تھا کہ یہ میرے قیام کے لئے بہترین جگہ ہوگی۔

یہ جھونپڑا موہن پر جھکی چٹان پر بنا ہوا تھا۔ میں عام راستے سے چلتا ہوا اس کے قریب پہنچا۔ ایک کھڈ سے بچتے ہوئے جونہی میں مڑا تو ایک عورت دکھائی دی جو چشمے سے گھڑا بھر رہی تھی۔ چونکہ میں بے آواز چلتا ہوا اس سے کافی قریب پہنچ گیا تھا اور میرا اچانک اسے مخاطب کرنا خوفزدہ کر دیتا، میں ہلکا سا کھانسا اور چند گز دور رک کر سیگرٹ سلگانے لگا۔ تھوڑی دیر بعد میں نے منہ دوسری طرف کئے ہوئے اس سے پوچھا کہ کیا اس وقت اور اس جگہ کسی فرد کا اکیلا پانی بھرنے کا فیصلہ دانش مندی ہے؟ چند لمحے رک کر اس نے جواب دیا کہ واقعی یہ محفوظ جگہ نہیں۔ لیکن پانی بھرنا لازمی تھا اور گھر میں کوئی مرد بھی نہیں تو اسے اکیلے ہی آنا پْڑا۔ میں نے پوچھا کہ کیا واقعی گھر میں کوئی مرد نہیں؟ اس نے جواب دیا کہ مرد تو ہے لیکن وہ کھیت میں ہل چلا رہا ہے۔ دوسرا پانی بھرنا عورتوں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ پھر گھڑا بھرنے میں وقت ہی کتنا لگتا ہے، بمشکل چند منٹ۔ اب یہ عورت اپنی جھجھک اور گھبراہٹ پر قابو پا چکی تھی اس لئے اب اس نے سوالات کرنے کا سوچا۔

کیا آپ پولیس والے ہیں؟

نہیں!

کیا آپ محکمہ جنگلات کے افسر ہیں؟

نہیں!

پھر کون ہیں؟

ایک آدمی!

کیوں آئے ہیں؟

آدم خور کو مارنے

آدم خور کے بارے مجھے کیسے علم ہوا؟

اکیلا کیوں آیا ہوں؟

میرے دوسرے ساتھی کہاں ہیں؟

وہ کل کتنے افراد ہیں؟

میں کب تک رکوں گا؟

وغیرہ وغیرہ

اس عورت نے جب تک یہ تمام سوالات نہ کر لئے، اس نے گھڑا بھرے جانے کے بارے نہیں بتایا۔ پھر اس نے میرے پیچھے چلتے ہوئے مجھے بتایا کہ پہاڑی کی جنوبی طرف ڈھلان پر ایک درخت کے نیچے سے آدم خور تین روز قبل ایک عورت کو لے گیا تھا۔ اس نے مجھے وہ درخت دکھایا۔ یہ جگہ فارسٹرز ہٹ سے بمشکل دو یا تین سو گز دور ہوگی۔ اب ہم پہاڑ کے اوپر جانے والی پگڈنڈی پر آ گئے۔ اس نے مجھے بتایا کہ اب وہ بالکل محفوظ ہے کیونکہ اگلے موڑ پر ہی اس کا گاؤں ہے۔

آپ میں سے وہ افراد جو ہندوستانی خواتین کو جانتے ہیں، بخوبی سمجھ گئے ہوں گے کہ میں نے کتنا بڑا معرکہ سر کر لیا تھا۔ خصؤصاً اس بات کے حوالے سے کہ حال ہی میں مقامی افراد کی پولیس سے جھڑپیں ہوئی تھیں۔ ایک عورت کو خوفزدہ کئے بغیر، ورنہ میں پورے گاؤں کو اپنا دشمن بنا لیتا، گھڑا بھرتے ہوئے اس کے پاس رک کر اور چند سوالات کے جواب دے کر میں نے ایک ایسا دوست بنا لیا تھا جو پورے گاؤں میں کچھ ہی دیر میں میری آمد سے آگاہ کر دے گا کہ میں کوئی افسر نہیں بلکہ میرے آنے کا واحد مقصد آدم خور سے ان لوگوں کی جان چھڑانا ہے۔