کماؤں کے آدم خور/موہن کا آدم خور/5
رات کو آندھی آئی اور پھر بارش بھی ہوئی تھی۔ ہمارے ہٹ کی چھت رستی تھی۔ تاہم میں نے ایک ایسی جگہ تلاش کر لی جہاں سے پانی کم رس رہا تھا۔ اس جگہ اپنا بستر گھسیٹ کر میں آرام سے سو گیا۔ اگلی صبح جب بیدار ہوا تو مطلع بالکل صاف تھا۔ بارش نے حدت اور گرد و غبار سب دھو دیا تھا۔ گھاس اور پتے سب طلوع ہوتے ہوئے سورج کی روشنی میں چمک رہے تھے۔
عام حالات میں میں پہلے بچھڑے کی طرف چکر لگاتا لیکن اب مجھے دوسرے بچھڑے کی طرف جانا تھا۔ میں نے اپنے آدمیوں کو ہدایت کی کہ روشنی اچھی طرح پھیل جانے کے بعد وہ نزدیکی بچھڑے کی دیکھ بھال کے لئے جائیں۔ پھر میں نے اپنی اعشاریہ 400/450 بور کی رائفل کو اچھی طرح صاف کیا اور تیل وغیرہ دے کر پھر میں چکنا کل کی طرف نکلا۔ یہ رائفل میری برسوں کی رفیق اور قابل اعتماد تھی۔
کل شام مجھے چھجے کے نیچے سے گذرتے ہوئے جو دقت ہوئی تھی، اس کا عشر عشیر بھی مجھے اب نہ محسوس ہوئی۔ میں یہاں سے آرام سے گذر گیا۔ اب میں نے شیر کے پگوں کی تلاش شروع کر دی کیونکہ بارش کی وجہ سے زمین نرم ہو چکی تھی۔ سب سے پہلی نم جگہ پر مجھے کوئی پگ نہ ملا۔ یہ جگہ دوسرے بچھڑے سے نزدیک تھی۔ یہاں نرم مٹی پر میں نے شیر کے پگ دیکھے جو رات کے طوفان سے پہلے کے تھے۔ یہ نشانات اسی چھجے کی طرف جا رہے تھے۔ اس جگہ کے پاس کھڈ کی طرف ایک تین فٹ بڑا پتھر تھا۔ پچھلی بارمیں نے سوچا تھا کہ اگر میں اس پتھر پر چڑھوں تو مجھے دوسرا بچھڑا موڑ کے پار دکھائی دے سکتا ہے۔ یہاں سے بچھڑا چالیس گز دور باندھا گیا تھا۔ اس بار اس پتھر پر چڑھ کر میں آہستہ آہستہ اوپر اٹھا۔ بچھڑا غائب تھا۔ یہ نئی صورتحال میرے لئے قابل قبول نہیں تھی۔ میں نے شیر کو بچھڑا لے جانے سے روکنے کے لئے ایک انچ موٹی رسی استعمال کی تھی تاکہ درخت پر یا زمین پر چھپ کر شیر کو ہلاک کر سکوں۔ تاہم شیر بچھڑے کو لے گیا تھا۔
میں بہت باریک تلے والے ربر سول کے جوتے پہنے ہوئے تھا۔ آہستگی سے چلتے ہوئے میں اس درخت تک پہنچا جہاں بچھڑا بندھا ہوا تھا۔ یہاں میں نے زمین کا بغور جائزہ لیا۔ بچھڑا طوفان سے قبل مارا گیا تھا۔ تاہم شیر اسے بارش تھمنے کے بعد اٹھا لے گیا تھا۔ لے جانے سے قبل شیر نے لاش کو چکھا تک نہ تھا۔ میں نے چار رسیوں کو بل دے کر بچھڑا باندھا تھا۔ شیر نے تین رسیاں کتر ڈالی تھیں اور ایک رسی ٹوٹی ہوئی تھی۔ اب اس کا رخ موہن کے سامنے والی پہاڑی کی طرف تھا۔ میرے سارے منصوبے الٹ پلٹ ہوگئے تاہم بارش کی وجہ سے بہت مدد ملی۔ کل تک خشک پتوں کا انبار اب بالکل نرم قالین بن چکا تھا۔ ان پر چلتے ہوئے بالکل بھی آواز نہ پیدا ہوتی تھی۔ اگر میں احتیاط سے کام لیتا تو شیر کے نزدیک آرام سے پہنچ کر اسے ٹھکانے لگا سکتا تھا۔
ایسی صورتحال میں جنگل داخل ہوتے وقت جب متواتر کئی گولیاں چلانے کی ضرورت پڑے، میں ہمیشہ رائفل کو اچھی طرح چیک کر لیتا ہوں کہ بھری ہوئی ہے یا نہیں۔ خطرے کے وقت لبلبی دبا کر یہ دیکھنا آیا رائفل بھری ہوئی ہے یا نہیں، مہلک بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ مجھے یقین تھا کہ چٹانی چھجے سے گذرتے ہوئے میں نے رائفل بھر لی تھی۔ پھر بھی میں نے کارتوس نکالے۔ ایک کارتوس کا رنگ کچھ اڑا ہوا تھا اور اس پر گڑھے سے پڑے تھے۔ میں نے اسے دوسرے کارتوس سے بدلا اور پھر سے رائفل کو بھرا۔ پھر سیفٹی کیچ کو کئی بار اوپر نیچے کر کےتسلی کی اور پھر چل پڑا۔ میں کبھی بھی بھرا ہوا ہتھیار سیفٹی کیچ کے بغیر اٹھا کر نہیں چلتا۔ اب میں گھسیٹنے کے نشانات کے تعاقب میں تھا۔
"گھسیٹ" لفظ سے شاید کچھ غلط فہمی پیدا ہو۔ گھسیٹنے سے مراد وہ نشانات ہوتے ہیں جو شیر اپنے شکار کو لے جاتے وقت بناتا ہے (ایک بار میں نے خود اپنی آنکھوں سے شیر کو ایک پوری طرح جوان گائے اٹھا کر چار میل دور لے جاتے دیکھا ہے)۔ شیر جانور کو حقیقتاً گھسیٹ کر نہیں لے جاتا بلکہ عموماً اٹھا کر لے جاتا ہے۔ تاہم اگر لاش بہت بھاری ہو تو شیر اسے چھوڑ جاتا ہے۔ جانور کے حجم اور اس کے اٹھانے کے طریقے سے بننے والے نشانات مدھم بھی ہو سکتے ہیں اور واضح بھی۔ مثلاً اگر شیر کا شکار سانبھر ہے اور شیر نے اسے گردن سے پکڑا ہوا ہے تو سانبھر کی پچھلی ٹانگیں زمین پر گھسٹنے کے صاف نشانات چھوڑتی ہیں۔ اسی طرح اگر سانبھر کو شیر کمر سے اٹھائے تو عموماً بہت مدھم نشانات بنتے ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی نشان نہ بنے۔
موجودہ صورتحال میں شیر بچھڑے کو گردن سے پکڑ کر لے گیا تھا۔ اس طرح بچھڑے کی پچھلی ٹانگیں زمین پر گھسٹنے کے صاف نشانات چھوڑ گئی تھیں۔ سو گز تک شیر سیدھا پہاڑی پر چڑھا۔ آگے چل کر چکنی مٹی کا ایک کنارہ آیا۔ اس کنارے کو پھلانگنے کی کوشش میں شیر کا پاؤں پھسلا اور بچھڑا اس کی گرفت سے نکل کر تیس یا چالیس گز نیچے ایک درخت سے ٹکرا کر رک گیا۔ اس بار شیر نے اسے کمر سے اٹھایا۔ اب بچھڑے کا پیر کبھی کبھار ہی زمین سے لگتا تھا۔ تاہم اس کا پیچھا کرنا اب بھی مشکل نہ تھا۔ اس طرح گرنے سے عارضی طور پر شیر کو سمتیں بھول گئیں۔ ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے شیر کو علم نہ ہو کہ اسے کس طرف جانا ہے۔ پہلے وہ دو سو گز دائیں طرف چلا پھر سو گز سیدھا نیچے اتر کر بانس کے جھنڈ میں پہنچا۔ یہاں وہ کافی وقت گذار کر پھر بائیں جانب اترا اور سیدھا پہاڑی کی طرف چند سو گز چلا حتٰی کہ ایک بڑی چٹان اس کے سامنے آ گئی۔ یہ چٹان اوپری طرف سے زمین سے ملی ہوئی اور دوسری طرف بیس فٹ گہری کھڈ سے جڑی تھی۔ اگر یہاں کوئی غار یا گڑھا ہوتا تو بلا شبہ شیر شکار کو لے کر سیدھا یہاں آ رکتا۔ اب میں گھسٹنے کے نشانات سے ہٹ کر براہ راست اس چٹان پر چڑھا۔ ساتھ ہی ساتھ میں دائیں بائیں بھی بغور دیکھتا رہا۔ چٹان کے دوسرے سرے پر پہنچ کر مجھے مایوسی ہوئی کہ یہاں چٹان سیدھی پہاڑی سے ملی ہوئی تھی۔ یہاں کوئی غار یا گڑھا نہ تھا کہ جہاں شیر ہوتا۔
یہاں سے جنگل کا اچھا منظر دیکھنے کو مل رہا تھا۔ یہ جگہ شیر کے اچانک حملے سے بھی محفوظ تھی۔ میں بیٹھ گیا۔ جونہی میں بیٹھا، چالیس یا پچاس گز دور مجھے ایک سرخ اور سفید رنگ کی چیز گھاس میں چھپی ہوئی دکھائی دی۔ اگر آپ جنگل میں شیر کی تلاش میں ہیں تو ہر سرخ چیز جو نظر آئے، شیر لگتی ہے۔ یہاں تو مجھے نہ صرف شیر کا لال رنگ بلکہ اس کی سفید دھاریاں بھی دکھائی دے رہی تھیں۔ کافی دیر تک میں سے دیکھتا رہا۔ اچانک ہی انکشاف ہوا کہ یہ شیر نہیں بلکہ بچھڑے کی لاش ہے۔ سرخ رنگ خون کی وجہ سے اور سفید دھاریاں اس کی پسلیاں تھیں جو کھال کو پھاڑ کر باہر نکل آئی تھیں۔ میں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ میں نے عجلت میں گولی نہ چلا دی تھی۔ میرے ایک دوست نے ایک بہت عمدہ شیر کو مارنے کا سنہری موقع اسی طرح کی صورتحال میں بچھڑے کی لاش پر دو گولیاں چلا کر ضائع کر دیا تھا۔ خوش قسمتی سے ان کا نشانہ بہت درست تھا۔ ان کے دو بندے جو مچان باندھنے اس جگہ کے قریب تھے، بچ گئے۔
اگر شیر کو چھیڑا نہ گیا ہو اور اس کا شکار کھلے عام پڑا ہو تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ شیر کہیں قریب ہی چھپ کر لیٹا ہوا ہے تاکہ گدھوں اور دوسرے مردار خوروں کو دور رکھ سکے۔ اگر شیر دکھائی نہ دے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ شیر موجود ہی نہیں۔
شیروں کو مکھیاں بہت تنگ کرتی ہیں اور وہ ایک جگہ نہیں رک کر رہ سکتا۔ میں نے اسی جگہ رک کر شیر کا انتظار کرنے کا فیصلہ کیا۔ ابھی میں نے یہ سوچا ہی تھا کہ میرے گلے میں سرسراہٹ شروع ہو گئی۔ جنگل یا چرچ میں ہم سانس روک کر یا تھوک بار بار نگل کر کھانسی روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہاں کوئی طریقہ نہ چلا۔ سرسراہٹ اتنی بڑھی کہ کھانسنے کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا۔ میں نے کوشش کی کہ کھانسنے کے لئے لنگور کی آواز نکالوں۔ آوازوں کو لکھ کر بتانا آسان نہیں ہوتا۔ لیکن پھر بھی کچھ اس طرح کی آواز تھی: "کھوک، کھوک، کھوک"۔ یہ آواز تھوڑے تھوڑے وقفے سے جاری رہتی ہے اور پھر "کھر کھررر" کے ساتھ ختم ہو جاتی ہے۔ تمام لنگور شیر کو دیکھ کر اسی طرح کی آواز تو نہیں نکالتے لیکن ان پہاڑی علاقوں کے لنگور یہ آواز نکالتے ہیں۔ یہ آواز شیر نے بلاشبہ ہر روز کئی بار سنی ہوگی اور اس پر کبھی توجہ نہ دیتا۔ ایسی ہنگامی حالت میں میری آواز سو فیصد تو لنگور سے مشابہہ نہ تھی لیکن پھر بھی اس سے میرے حلق کی سرسراہٹ ختم ہو گئی۔ نصف گھنٹے تک میں اسی طرح بیٹھا رہا کہ کسی بھی حرکت کو دیکھ سکوں اور جانوروں کی آوازیں سن سکوں۔ جب مجھے یقین ہو گیا کہ شیر موجود نہیں تو میں چٹان سے نیچے اتر کر بچھڑے کی طرف بڑھا۔