کماؤں کے آدم خور/ٹھاک کا آدم خور/1
لدھیا وادی میں سکون بحال ہوئے کئی ماہ گذر چکے تھے کہ اچانک ستمبر 1938 کے ایک دن نینی تال میں اطلاع پہنچی کہ شیر نے کوٹ کندری میں ایک بارہ سالہ لڑکی کو ہلاک کر دیا ہے۔ یہ اطلاع مجھے فارسٹ ڈیپارٹمنٹ کے ڈونلڈ سٹیورٹ سے ملی جو اس بارے مزید کچھ تفصیل نہ بتا سکے۔ چند ہفتے بعد جب میں اس گاؤں پہنچا تو میں نے اس بارے حقائق جمع کئے۔ بظاہر دن دوپہر کا وقت تھا اور لڑکی گاؤں کے بالکل سامنے ایک آم کے درخت کے نیچے گرے ہوئے آم جمع کر رہی تھی جب اچانک شیر نمودار ہوا۔ قبل اس کے کہ نزدیکی کھیتوں میں کام کرنے والے افراد اس کی کوئی مدد کر سکیں، شیر اسے اٹھا لے گیا۔ شیر کے پیچھا کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی اور میری آمد سے بہت پہلے ہی خون اور دیگر نشانات ختم ہو چکے تھے۔ اس لئے میں باقیات تلاش کرنے سے معذور تھا۔
کوٹ کندی چکا سے چار میل جنوب مغرب میں ہے اور ٹھاک سے مغرب کی طرف تین میل دور۔ یہ جگہ کوٹ کندری اور ٹھاک کے درمیان اس جگہ وادی میں تھی جہاں گذشتہ اپریل چکہ کا آدم خور مارا گیا تھا۔
1938 کی گرمیوں میں محکمہ جنگلات نے اس علاقے کے تمام درختوں کو گرانے کے لئے نشان لگا دیئے۔ اندیشہ تھا کہ اگر نومبر سے پہلے پہلے آدم خور کا قصہ پاک نہ کیا گیا تو ٹھیکے دارمزدوروں کو اکٹھا نہ کر سکیں گے اور اس طرح انہیں دوبارہ ٹھیکے کی رقم ادا کرنی ہوگی۔ نومبر میں کٹائی شروع ہونی تھی۔ ڈونلڈ سٹیورٹ نے مجھے اسی وجہ سے لڑکی کے مار جانے کے فوراً بعد اطلاع بھجوائی تھی۔ جب میں نے کوٹ کندری جانے کا ان سے وعدہ کیا تو مجھے یہ بتانے میں کوئی تامل نہیں محسوس ہوتا کہ میری روانگی کا مقصد ٹھیکے داروں کو نقصان سے بچانے سے زیادہ علاقے کے لوگوں کو آدم خور سے بچانا تھا۔
کوٹ کندری تک جانے کا براہ راست راستہ ٹرین سے بذریعہ تنگ پور تھاجہاں سے ہم پیدل کل ڈھنگہ اور چکا سے ہو کر جاتے۔ تاہم اس راستے پر چلتے ہوئے اگرچہ میں سو میل کا پیدل سفر بچا لیتا لیکن مجھے شمالی ہندوستان میں ملیریا کی مہلک پٹی سے گذرنا پڑتا۔ اس سے بچنے کی خاطر میں نے مورنالہ کی پہاڑیوں کے ذریعے جانے کا سوچا۔ یہاں سے ہم متروک شدہ شیرنگ روڈ پر چلتے جس کا اختتام کوٹ کندری پر ہوتا۔
ابھی اس لمبے سفر کے لئے میں تیاریاں کر ہی رہا تھا کہ سیم میں دوسری ہلاکت کی اطلاع بھی نینی تال آ ملی۔ سیم لدھیا کے دائیں کنارے پر چھوٹا سا گاؤں تھا اور چکا سے نصف میل دور۔
اس بار متوفیہ ایک ادھیڑ عمر کی خاتون اور سیم کے نمبردار کی ماں تھی۔یہ بدقسمت عورت دو کھیتوں کی درمیانی انتہائی ڈھلوان منڈیر سے لکڑیاں کاٹنے گئی تھی۔ اس نے پچاس گز لمبی منڈیر کے پرلے سرے سے کام شروع کیا۔ لکڑیاں کاٹتے کاٹتے وہ اپنے جھونپڑے سے گز بھر دور رہ گئی تھی کہ اوپر والے کھیت سے شیر نے اس پر جست لگائی۔ یہ حملہ اتنا اچانک تھا کہ متوفیہ صرف ایک چیخ مار سکی اور شیر نے اسے ہلاک کر دیا تھا۔ پھر اسے لے کر شیر بارہ فٹ اونچے کنارے پر چڑھا اور اوپر والے کھیت کو عبور کر کے اس کے پار جنگل میں گم ہو گیا۔ اس کا بیٹا جو بیس سال کا تھا، اس جگہ سے چند گز دور ایک اور کھیت میں کام کر رہا تھا۔ اس نے یہ سارا واقعہ اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ وہ اتنا خوفزدہ ہو چکا تھا کہ مدد نہ کر سکا۔ لڑکے کی درخواست پر پٹواری دو دن بعد سیم پہنچا۔ وہ اپنے ساتھ اسی افراد اکٹھے کر کے لایا تھا۔ شیر کی روانگی کی طرف تلاش شروع کرتے ہوئے انہوں نے متوفیہ کے کپڑے اور ہڈیوں کے چند ریزے ہی پائے۔ یہ ہلاکت دن دیہاڑے دو بجے ہوئی تھی اور شیر نے متوفیہ کو اس کے گھر سے ساٹھ گز دور بیٹھ کر کھایا تھا۔
دوسری ہلاکت کی اطلاع ملنے پر میں نے ایبٹسن کے ساتھ مل کر صلاح مشورہ کیا۔ ایبٹسن الموڑہ، نینی تال اور گڑھوال کے تین اضلاع کے ڈپٹی کمشنر تھے۔ اس صلاح مشورے کے بعد ایبٹسن جو کہ تبت کی سرحد کے نزدیک زمین کے کسی تنازعے کا فیصلہ کرنے جا رہے تھے، نے اپنا پروگرام بدلا۔ وہ باگاشور کی بجائے میرے ساتھ سیم چلتے اور پھر وہاں سے اسکوٹ۔
جو راستہ میں نے چنا تھا، چڑھائیوں سے بھرا ہوا تھا۔ ہم نے آخر کار یہ فیصلہ کیا کہ ہم پہلے نندھور وادی جا کر نندھور اور لدھیا کے درمیان دریا کو عبور کریں اور پھر لدھیا دریا کے ساتھ ساتھ اتر کر سیم پہنچیں۔ ایبٹسن بارہ اکتوبر کو نینی تال سے روانہ ہوئے۔ اس سے اگلے دن میں انہیں چار گلیا میں جا ملا۔
نندھور دریا کے ساتھ ساتھ اوپر جاتے اور مچھلیاں پکڑتے ہوئے گئے۔ ہمارا ایک دن کا ریکارڈ ایک سو بیس مچھلیاں تھا۔ پانچویں دن ہم درگا پیپل پہنچے۔ یہاں ہم دریا سے الگ ہو کر اور ایک انتہائی سخت چڑھائی کے بعد رات کو دریا کے کنارے جا رکے۔ اگلے دن جلدی روانہ ہو کر ہم نے اپنا کیمپ لدھیا کے بائیں کنارے لگایا جو چلتی سے بارہ میل دور تھا۔
مون سون اس بار قبل از وقت ہی ختم ہو گئی تھیں۔ یہ ہمارے لئے اچھا تھا۔ بلند چوٹیوں سے نیچے بہتا ہوا دریا ہر چوتھائی میل پر عبور کرنا پڑتا تھا۔ انہیں میں سے ایک جگہ میرا پانچ فٹ کا باورچی بہہ گیا اور ایک آدمی جو میرے کھانے کی ٹوکری لے کر جا رہا تھا، نے اسے بچایا۔
چراگلیا سے روانہ ہونے کے دسویں دن ہم نے سیم کے ایک بنجر کھیت میں کیمپ لگایا۔ یہاں سے آدم خور کی پہلی شکار والا جھونپڑا دو سو گز دور تھا اور یہ جگہ لدھیا اور سردا دریاؤں کے سنگم سے سو گز دور تھی۔
محکمہ پولیس کے گل وڈل سے ہماری ملاقات آتے ہوئے ہوئی جب وہ واپس جا رہے تھے۔ انہوں نے سیم میں کئی دن کیمپ لگایا اور محکمہ جنگلات کے میک ڈونلڈ کی طرف سے دیئے گئے بھینسے بھی باندھے۔ انہوں نے از راہ کرم ہمیں وہ تمام بھینسے دے دیئے۔ اگرچہ وڈل کے قیام کے دوران آدم خور نے کئی بار ان کے باندھے ہوئے بھینسوں کی طرف چکر لگایا لیکن انہیں ہلاک نہیں کیا۔
ہماری آمد کے اگلے دن جب ایبٹسن پٹواریوں، فارسٹ گارڈوں اور نمبرداروں سے سوال جواب کر رہے تھے، میں پگ دیکھنے کے لئے نکل کھڑا ہوا۔ کیمپ اور سنگم کے درمیان اور لدھیا دریا کے دونوں کناروں پر نرم ریت موجود تھی۔ اس ریت پر میں نے ایک شیرنی، ایک نوجوان تیندوے اور ایک نوعمر نر شیر کے پگ دیکھے۔ شاید یہ انہی میں سے ایک بچہ تھا جو پچھلے اپریل میں نے دیکھا تھا۔ شیرنی نے دریا کو گذشتہ دنوں کئی بار عبور کیا تھا اور پچھلی رات بھی ہمارے خیموں کے سامنے سے گذری تھی۔ اسی شیرنی کو گاؤں والے آدم خور کے شبہے میں دیکھتے تھے۔ نمبردار کی ماں کی ہلاکت کے بعد سے یہی شیرنی مسلسل سیم کا چکر لگا رہی تھی، میرا خیال تھا کہ کسی حد تک وہ ایسا سمجھنے میں حق بجانب ہیں۔
اس شیرنی کے پگوں کا بغور جائزہ لینے سے پتہ چلا کہ درمیانی جسامت کی حامل شیرنی اور بھرپور جوان ہے۔ اس نے آدم خوری کا کیوں چناؤ کیا، اس کا جواب تو وقت ہی دیتا۔ لیکن ایک ممکنہ وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس نے چکا کے آدم خور کے ساتھ پچھلے ملاپ کے موسم میں رہتے ہوئے انسانی گوشت کو چکھا ہو۔ اب چونکہ اس کا ساتھی زندہ نہ تھا، اسے خود آدم خور بننا پڑا۔ اگرچہ یہ صرف ایک اندازہ تھا اور بعد ازاں غلط نکلا۔
نینی تال سے روانہ ہونے سے قبل میں نے تنک پور کے تحصیلدار کو خط لکھا تھا کہ وہ میرے لئے چار نو عمر بھینسے خرید کر سیم بھجوا دے۔ ان میں سے ایک راستے میں مر گیا جبکہ باقی کے تین چوبیس تاریخ کو پہنچ گئے۔ ہم نے انہیں میک ڈونلڈ کے دیئے ہوئے ایک بھینسے کے ساتھ باندھا۔ اگلی صبح ان بھینسوں کے جائزے کے لئے جب میں نکلا تو دیکھا کہ چکا کے باشندے بہت پرجوش ہیں۔ گاؤں کے گرد کھیتوں میں تازہ ہل چلے ہوئے تھے اور گذشتہ رات شیرنی ان تین خاندانوں کے پاس سے گذری جو اپنے مویشیوں کے ساتھ کھیت کے باہر سو رہے تھے۔ خوش قسمتی سے ہر خاندان کے مویشیوں نے شیرنی کی آمد کو محسوس کر کے اپنے مالکان کو بروقت خبردار کر دیا۔ ان کھیتوں سے نکل کر شیرنی کوٹ کندری کی طرف گئی اور ہمارے دو بھینسوں کے پاس سے انہیں کچھ بغیر گذری۔
پٹواری، فارسٹ گارڈ اور دیہاتیوں نے ہمارے پہنچنے پر ہمیں بتایا تھا کہ بھینسے باندھنا محض وقت کا ضیاع ہوگا کیونکہ آدم خور انہیں ہلاک نہیں کرے گی۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ اس طریقے سے کئی شکاریوں نے آدم خور کو مارنے کی کوشش کی تھی اور ہر شکاری کی ناکامی کے بعد اگر شیرنی بھینسے کھانا چاہتی تو وہ جنگلوں میں چرتے ہوئے مویشی بھی مار سکتی تھی۔ اس نصیحت کے باوجود میں نے بھینسے بندھوانا جاری رکھا اور اگلی دو راتوں میں شیرنی ان میں سے کسی نہ کسی کے پاس سے گذری لیکن انہیں کچھ کہا نہیں۔ 27 کی صبح جب ہم نے ناشتہ ختم کیا ہی تھا کہ ٹھاک کے نمبردار کا بھائی تیواری ہمارے کیمپ کئی دیگر افراد کے ساتھ پہنچا اور اطلاع دی کہ ان کے گاؤں کا ایک آدمی گم ہو گیا ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ یہ آدمی دوپہر کے وقت بیوی کو یہ بتا کر گاؤں سے نکلا کہ وہ اپنے مویشیوں کو واپس لانے جا رہا ہے تاکہ وہ بھٹک کر گاؤں کے باہر نہ نکل جائیں۔ اس نے یہ بھی کہا کہ اگر وہ مویشیوں کو واپس نہ لایا تو ہو سکتا ہے کہ آدم خور انہیں کھا جائے۔
جلدی جلدی ہم تیار ہو گئے اور دس بجے ایبٹسن اور میں ٹھاک کے لئے روانہ ہو گئے۔ ہمارے ساتھ تیواری اور اس کے دیگر ہمراہی بھی تھے۔ فاصلہ اگرچہ دس میل ہی تھا لیکن چڑھائی بہت زیادہ تھی۔ چونکہ ہم وقت نہ ضائع کرنا چاہتے تھے، ٹھاک کے قریب جب ہم پہنچے تو ہمارے سانس بے قابو اور پسینے میں شرابور بھی تھے۔
جونہی ہم جھاڑ جھنکار سے نکل کر قدرے صاف جگہ پہنچے، ہم نے ایک عورت کے بین کی آواز سنی۔ اس جگہ کے بارے میں آگے چل کر مزید بتاؤں گا۔ ہندوستانی عورت کے اپنے مرے ہوئے شوہر کے لئے بین کی آواز ایسی نہیں کہ پہچانی نہ جا سکے۔ ہم جنگل سے نکل کر اس غم زدہ عورت تک پہنچے جو کہ گم شدہ بندے کی بیوی تھی، کوئی دس یا پندرہ افراد بھی اس کے ساتھ موجود تھے۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ ان کے گھروں کے اوپر کی جانب انہوں نے سفید رنگ کی کوئی چیز دیکھی ہے۔ یہ چیز بظاہر مرحوم آدمی کے کپڑے کا کوئی حصہ لگتا تھا۔ جہاں ہم کھڑے تھے، سے یہ جگہ تیس گز دور گھنی جھاڑی میں تھی۔ ایبٹسن، تیواری اور میں اس سفید چیز کو دیکھنے چل پڑے جبکہ مسز ایبٹسن نے اس خاتون کو ساتھ لیا اور دیگر افراد کے ساتھ گاؤں کو چل دیں۔
یہ کھیت جو کئی سال سے غیر آباد تھا، مختلف قسم کی کانٹے دار جھاڑیوں سے بھرا ہوا تھا اور جب تک ہم اس سفید چیز کے بالکل نزدیک نہ پہنچ گئے، تیواری اسے نہ پہچان پایا کہ یہ گم شدہ فرد کی دھوتی تھی۔ اس کے پاس ہی اس کی ٹوپی بھی پڑی ملی۔ اس جگہ کچھ جد و جہد کے آثار تھے لیکن خون کا کوئی قطرہ نہ دکھائی دیا۔ حملے کی جگہ اور اس سے کچھ دور تک خون کے نشانات کا نہ ملنا اس بات کو ظاہر کرتا تھا کہ شیرنی نے اپنی پہلی گرفت نہیں بدلی۔ اس طرح کی صورتحال میں جب تک جانور اپنی پہلی گرفت نہ تبدیل کرے، خون نہیں نکلتا۔
ہمارے اوپر پہاڑی پر تیس گز دور جھاڑیوں کا گچھا سا تھا جس پر کچھ بیلوں نے گھنا سایہ کیا ہوا تھا۔ گھسیٹنے کے نشانات کا پیچھا کرنے سے قبل اس جگہ کو دیکھ لینا بہتر رہتا ورنہ ہو سکتا تھا کہ شیرنی ہمارے پیچھے ہوتی۔ اس جگہ نرم مٹی میں شیرنی کے بیٹھے اور پھر حملے کے لئے گھات لگانے کے نشانات تھے۔
نکتہ آغاز پر پہنچ کر ہم نے یہ منصوبہ تیار کیا۔ ہماری پہلی ترجیح گھات لگا کر شیرنی کو اس کے شکار کے پاس ہی ہلاک کرنے کی کوشش تھا۔ اس لئے میں نے ان نشانات کا پیچھا کرنے اور سامنے کی نگرانی کرنے کا فیصلہ کیا جبکہ تیواری مجھ سے ایک گز پیچھے اور نہتا دائیں بائیں دیکھتا چلتا اور ایبٹسن اس سے مزید ایک گز پیچھے اور عقب کا دھیان رکھتے ہوئے چلتے۔ ہم نے طے کیا کہ اگر ایبٹسن کو یا مجھے شیرنی کا بال بھی نظر آ جاتا تو ہم گولی چلا دیتے۔
ایک دن قبل اس جگہ سے مویشی چر کر گئے تھے اور انہوں نے زمین پر موجود نشانات کو مٹا دیا تھا۔ اب شیرنی کے گذرنے کے راستے پر کوئی خون نہیں تھا اور محض الٹا ہوا پتا، کچلی ہوئی گھاس ہی اس کی نشان دہی کرتی تھی۔ اس آدمی کو دو سو گز دور لے جانے کے بعد شیرنی نے اسے نیچے ڈالا اور ہلاک کر کے چلی گئی۔ کئی گھنٹے بعد وہ واپس آئی اور اسے اٹھا کر چل دی۔ مارنے کے فوراً بعد ہی وہ متوفی کو کیوں اٹھا کر نہ لے گئی، شاید اس کی وجہ مویشی ہوں جنہوں نے اسے آدمی کو ہلاک کرتا دیکھا اور اسے بھگا دیا ہو۔
اس جگہ خون کا بڑا سا تالاب بنا ہوا تھا جہاں اس نے متوفی کو ڈالا تھا۔ چونکہ اب اس کے جسم سے خون بہنا بند ہو چکا تھا، شیرنی اسے دوبارہ اٹھا کر لے گئی۔ اس بار اس نے متوفی کو کمر سے پکڑا ہوا تھا۔ پہلے اس نے گلے سے متوفی کو اٹھایا ہوا تھا۔ اب پیچھا کرنا مزید مشکل ہو گیا تھا۔ شیرنی نے پہاڑی کے متوازی حرکت جاری رکھی اور چونکہ اس جگہ گھاس وغیرہ بہت گھنی تھی اور چند گز سے زیادہ دور دکھائی نہ دیتا تھا، ہماری پیش قدمی بہت سست ہو گئی۔ دو گھنٹوں میں ہم بمشکل نصف میل چل پائے اور اس کنارے پر پہنچے جہاں موجود وادی مین چھ ماہ قبل ہم نے چکا کے آدم خور کا پیچھا کر کے اسے ہلاک کیا تھا۔ اس جگہ پتھر کی بہت بڑی سلیب تھی جو ہمارے سمت سے اوپر کو اٹھی ہوئی تھی۔ شیرنی کے نشانات اسی طرف گئے اور مجھے یقین تھا کہ شیرنی اسی کے نیچے یا پھر اس کے آس پاس ہی کہیں موجود ہوگی۔
ایبٹسن اور میرے پیروں میں ہلکے ربر سول کے جوتے تھے جبکہ تیواری ننگے پاؤں گا اور ہم چٹان تک بغیر کسی آواز کے پہنچ گئے۔ دونوں ساتھیوں کو اشارے سے بتاتے ہوئے کہ وہ خاموش رہ کر ارد گرد کڑی نظر رکھیں، میں نے چٹان پر پیر رکھا اور انچ بہ انچ آگے بڑھا۔ چٹان کی پرلی طرف تھوڑی سی مسطح زمین تھی اور جونہی زیادہ حصہ میرے سامنے آتا گیا، شیرنی کے اس چٹان کے نیچے موجود ہونے کا شبہ مزید تقویت پکڑتا گیا۔ ابھی مجھے مزید ایک یا دو فٹ اور اوپر جانا تھا کہ میں نے بائیں جانب حرکت محسوس کی۔ ایک سنہرا سپرنگ جیسے دب کر کھلا ہو اور دوسرے لمحے جھاڑیوں کے پیچھے ہلکی سی حرکت دکھائی دی اور جھاڑیوں کے دوسرے سرے پر موجود ایک بندر نے آواز نکالی۔
شیرنی نے بلاشبہ اپنے سونے کے لئے بہت عمدہ جگہ چنی تھی۔ ہماری بدقسمتی کہ شیرنی ابھی سوئی نہ تھی۔ چونکہ میں نے ہیٹ اتارا ہوا تھا تو جونہی شیرنی نے میرے سر کا اوپری حصہ ابھرتا دیکھا، اس نے ایک طرف ہٹتے ہوئے جست لگائی اور بلیک بیری کی جھاڑی میں گھس گئی۔ اگر وہ اس کے علاوہ کسی اور جگہ ہوتی جہاں وہ ابھی تھی، میرے گولی چلانے سے قبل اس کا فرار ہونا ناممکن ہوتا۔ ہماری اتنی محنت سے کی گئی کوشش عین آخری لمحے میں بےکار ہوگئی اور اب ہمارے پاس لاش کو تلاش کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا۔ اگر لاش میں کچھ گوشت باقی بچا ہوا ہوتا تو ہم اس پر مچان باندھ سکتے تھے۔ اس جھاڑی کے پیچھے شیرنی کا پیچھا کرنا بے کار ہوتا اور بعد میں اس پر گولی چلانا بھی دشوار تر ہو جاتا۔
شیرنی جہاں لیٹی تھی، کے نزدیک ہی لاش کو کھایا تھا۔ یہ کھلی جگہ تھی اور گدھوں سے بچانے کے لئے شیرنی نے اسے اٹھایا اور ایسی جگہ چھپا دیا جہاں گدھ اسے نہ دیکھ پاتے۔ اب خون کے نشانات موجود تھے اور لاش کو تلاش کرنا مشکل نہ تھا۔ اس لکیر کی مدد سے چلتے ہوئے پچاس گز دور ہم نے لاش کو پا لیا۔
میں اس لاش کی تفصیل بتا کر آپ کے جذبات مجروح نہیں کروں گا کیونکہ متوفی کے کپڑے لیر لیر اور اس کا جسم کھایا جا چکا تھا۔ چند گھنٹے قبل یہ شخص دو بچوں کا باپ اور خاندان کا کفیل تھا۔ اب اس کی بیوی کی قسمت میں ہندوستانی بیوہ کہلایا جانا تھا۔ میں نے اس سے ملتی جلتی بے شمار لاشیں دیکھیں ہیں۔ میں بتیس سال سے آدم خوروں کا پیچھا اور ان سے مقابلہ کر رہا ہوں اور ہر بار جب میں کسی لاش پر پہنچتا ہوں تو میرا پہلا رد عمل یہی ہوتا ہے کہ لاش کو آدم خور کے لئے ہی چھوڑ دیا جائے تو بہتر ہے۔ یہ ادھ کھائی لاش ایک ڈراؤنے خواب کی طرح لواحقین کے اعصاب پر سوار رہتی ہے۔ خون کا بدلہ خون اور بدلے کی آگ جلتی رہتی ہے۔ اس قاتل آدم خور سے جان چھڑانے کے لئے بے تابی بڑھتی جاتی ہے۔ تاہم ہر بار یہ موہوم سی امید ہوتی ہے کہ شاید متوفی ابھی زندہ ہو اور اسے کسی مدد کی ضرورت ہو۔
کسی ایسے جانور، جو کہ پہلے ہی اسی طرح کی صورتحال میں زخم کھا کر آدم خور بنا ہو، اس کے بعد ہونے والی ہر ناکام کوشش، چاہے اس کی وجہ کچھ ہی کیوں نہ ہو، جانور کو مزید سے مزید محتاط اور ہوشیار کرتے جاتے ہیں۔ حتٰی کہ ایک وقت آتا ہے کہ وہ جانور یا تو شکار لاش پر لوٹنا ہی چھوڑ دیتا ہے یا پھر اتنی خاموشی سے آتا ہے کہ جیسے وہ نظر نہ آنے والی پرچھائیں ہو، ہر پتے، ہر جھاڑی کو اچھی طرح چھان پھٹک کر گذرتا ہے کہ نہ جانے کہاں اس کا قاتل چھپا بیٹھا ہو، کی تلاش میں اس کے کئے گئے شکار پر بیٹھ کر گولی چلانے کے امکانات چاہے لاکھوں یا کروڑوں میں ایک ہی کیوں نہ ہو، ہم میں سے کون ہے جو پھر بھی اپنی قسمت نہ آزمانا چاہے گا۔
یہ جھاڑی جہاں شیرنی چھپی ہوئی تھی، قریب چالیس مربع گز کی تھی اور شیرنی دوسرے سرے پر بیٹھے بندر کو خبردار کئے بغیر اس جھاڑی سے نہ نکل سکتی تھی۔ ہم پشت سے پشت ملا کربیٹھ گئے اور سیگرٹ پینے اور جنگل میں موجود کسی بھی آواز کو سننے اور اپنی اگلی حرکت کے بارے سوچنے لگے۔
مچان بنانے کے لئے لازمی تھا کہ ہم گاؤں جاتے اور ہماری غیر موجودگی میں شیرنی شکار کو لازماً اٹھا کر کہیں اور لے جاتی۔ جب وہ پورے انسان کو لے کر جا رہی تھی تو اس کا پیچھا کرنا اتنا مشکل تھا تو جب لاش کافی حد تک کھائی جا چکی تھی اور شیرنی محتاط بھی ہو چکی ہو، پیچھا کرنا کتنا مشکل ہو جاتا۔ شیرنی لاش کو میلوں دور لے جاتی اور ہم اسے کبھی دوبارہ نہ پا سکتے۔ ہم میں سے ایک ادھر ہی رکتا اور دوسرے دو افراد گاؤں جا کر رسیاں وغیرہ لاتے۔
ایبٹسن نے حسب معمول خطرے کو اہمیت دیئے بغیر واپس جانے کا فیصلہ کیا۔ جب وہ اور تیواری یہاں سے براہ راست نیچے اترے تاکہ مشکل راستے سے بچ سکیں، میں ایک چھوٹے درخت پر چڑھ گیا جو لاش کے پاس ہی تھا۔ زمین سے چار فٹ اوپر جا کر یہ درخت دو شاخہ ہو جاتا تھا اور ایک شاخ پر کمر اور دوسرے پر پیر ٹکا کر میں جم گیا۔ اس جگہ سے میں شیرنی کی حرکات کو دور سے دیکھ سکتا تھا چاہے وہ لاش پر آتی چاہے وہ مجھ پر حملہ کرتی۔ میں اسے نزدیک پہنچنے سے قبل ہی دیکھ لیتا۔
ایبٹسن کو گئے پندرہ یا بیس منٹ گذرے ہوں گے کہ میں نے ایک چٹان کے اوپر اٹھنے اور پھر نیچے گرنے کی آواز سنی۔ بظاہر یہ چٹان ایسی جگہ تھی جہاں ہلکا سا وزن بھی اسے متحرک کر دیتا۔ شیرنی نے جب اس پر اپنا پیر رکھا تو یہ اٹھ گئی۔ اسے اٹھتا محسوس کر کے شیرنی نے فوراً پیر ہٹا لیا اور چٹان واپس بیٹھ گئی۔ آواز میرے سامنے بائیں جانب بیس گز دور سے آئی تھی۔ یہ واحد سمت تھی جہاں میں گولی چلاتے وقت درخت سے نہ گرتا۔
منٹ گذرتے گئے اور میری امیدیں اوپر نیچے ہوتی رہیں۔ جب میرے اعصاب پر دباؤ اور ہاتھوں پر رائفل کا بوجھ ناقابل برداشت ہونے لگا تو میں نے اس جھاڑی کے اوپری سرے پر ہلکی سی آواز سنی جیسے کوئی خشک لکڑی چٹخی ہو۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ شیر جنگل میں کتنی خاموشی سے چلتے ہیں۔ جس لمحے شیرنی نے چٹان پر پیر رکھ کر آواز پیدا کی، مجھے اس کے بالکل درست مقام کا علم ہو گیا۔ میں نے اس طرف اپنی نگاہیں جما دیں اور پھر بھی شیرنی نہ صرف آئی، چند لمحے رک کر مجھے دیکھا اور پھر واپس بھی چل دی اور مجھے ایک تنکا یا گھاس کا پتہ تک نہ حرکت کرتا دکھائی دیا۔
جب اعصابی تناؤ دور ہو اور تھکے ہوئے پٹھے فوری آرام مانگتے ہیں۔ ابھی مجھے صرف ہاتھ نیچے کر کے رائفل کو گھٹنوں پر رکھنا تھا، لیکن میں بتا نہیں سکتا کہ اس معمولی سی حرکت سے میرے پورے جسم کو کتنا سکون ملا۔ اس کے بعد شیرنی کی کوئی آواز نہ آئی۔ ایک یا دو گھنٹے بعد میں نے ایبٹسن کی آمد کی آواز سنی۔
میں نے جتنے بھی افراد کے ساتھ شکار کھیلا ہے، ایبٹسن ان میں سے سب سے الگ اور نمایاں ہیں۔ نہ صرف وہ شیر کا کلیجہ رکھتے ہیں بلکہ انہیں ہر چیز کا بھی خیال رہتا ہے۔ شاید وہ سب سے زیادہ مخلص شکاری ہیں۔ ابھی گئے تو وہ مچان کے لئے رسیاں لانے تھے لیکن واپسی پر ان کے پاس کمبل، تکیئے اور گرم چائے بھی تھی اور گرم کھانا بھی۔ جب میں شکار سے ہٹ کر اس طرح بیٹھا کہ اس سے اٹھنے والی بو مجھے تنگ نہ کرے، ایبٹسن نے ایک آدمی کو چالیس گز دور ایک درخت پر چڑھا دیا تاکہ وہ شیرنی کی توجہ اپنی جانب مبذول رکھے، خود وہ درخت پر چڑھ کر مچان باندھنے لگے۔
جب مچان تیار ہو گئی تو ایبٹسن نے لاش کو گھسیٹ کر چند فٹ دور کر دیا اور اسے ایک نو عمر درخت کے ساتھ مضبوطی سے باندھ دیا تاکہ شیرنی اسے نہ لے جا سکے۔ چاند سورج ڈوبنے کے کم از کم دو گھنٹے بعد نکلتا۔ آخری کش لگا کر میں مچان پر چڑھا اور جب آرام سے بیٹھ گیا تو ایبٹسن نے دوسرے آدمی کو درخت سے اتارا اور ٹھاک روانہ ہو گئے تاکہ مسز ایبٹسن کو لے کر سیم میں کیمپ کو جا سکیں۔
ابھی یہ لوگ بمشکل نظروں سے اوجھل ہوئے تھے لیکن ان کی آوازیں آ رہی تھیں کہ میں نے کسی بھاری جسامت والے جانور کو پتوں پر چلتے سنا۔ اسی وقت جھاڑیوں کے پرلے سرے سے بندر بھی چیخا جو اس سارے وقت خاموش بیٹھا ہوا تھا۔ ہمیں توقع سے زیادہ کامیابی ہوئی تھی۔ دوسرے درخت پر ایک بندے کو چڑھا دینے سے شیرنی کی توجہ یقیناً اس کی طرف مبذول ہو گئی تھی۔ ایسا ایک بار پہلے بھی ہو چکا تھا۔ تناؤ بھرا ایک منٹ گذرا، پھر دوسرا اور پھر تیسرا۔ اس کے بعد ایک کاکڑ دیوانہ وار بھونکتا ہوا اس جانب سے آیا جہاں میں اس بڑی پتھر کی سلیب پر چڑھا تھا۔ شیرنی شکار پر آنے کی بجائے ایبٹسن کا پیچھا کر رہی تھی۔ اب مجھے شدت سے ان لوگوں کی فکر ہو گئی کیونکہ بظاہر اب شیرنی پہلے شکار کو بھول کر نئے شکار کی تلاش میں جا رہی تھی۔
روانگی سے قبل ایبٹسن نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ہر ممکن احتیاط کریں گے۔ تاہم میری طرف سے بھونکتے کاکڑ کی آواز سن کر قدرتی طور پر وہ کچھ غیر محتاط ہو جاتے کہ شیرنی لاش پر جا رہی ہے تو شیرنی کو موقع مل سکتا تھا۔ دس منٹ بہت مشکل سے گذرے کہ ایک کاکڑ کی آواز ٹھاک کی جانب سے آئی۔ یقیناً شیرنی ابھی تک پیچھا کر رہی تھی لیکن اس جگہ زمین کچھ صاف تھی اور شیرنی کے حملے کے امکانات کم ہی تھے۔ تاہم ایبٹسن وغیرہ کو لاحق خطرہ ابھی دور نہیں ہوا تھا کیونکہ انہیں ابھی دو میل مزید گھنے جنگل سے ہو کر کیمپ تک جانا تھا۔ اسی طرح اگر وہ سورج ڈوبنے تک گولی کی آواز کا انتظار کرنے ٹھاک میں رک جاتے، جیسا کہ مجھے خطرہ تھا اور انہوں نے ایسا کیا بھی، انہیں واپسی کے راستے پر بہت بڑے خطرے کا سامنا کرنا پڑتا۔ تاہم خوش قسمتی سے ایبٹسن کو خطرے کا احساس ہو گیا تھا اور انہوں نے ہر ممکن احتیاط جاری رکھی۔ اگلے دن پگ دیکھنے سے پتہ چلا کہ شیرنی نے پورا راستہ ان کا پیچھا جاری رکھا تاہم وہ لوگ کیمپ تک بخیریت پہنچ گئے۔
کاکڑ اور سانبھر کی آوازوں سے مجھے شیرنی کی حرکات کا بخوبی اندازہ ہوتا رہا۔ سورج غروب ہونے کے ایک گھنٹے بعد شیرنی دو میل دور وادی کے نچلے سرے پر تھی۔ ابھی پوری رات پڑی تھی کہ وہ اپنے شکار پر واپس لوٹ سکتی تھی اور اگرچہ اس کی واپسی لاکھوں میں ایک امکان ہی رکھتی تھی۔ میں نے اس امکان کو بھی ضائع نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ نہایت سرد رات تھی اور اپنے گرد کمبل لپیٹ کر میں ایسی آرام دہ حالت میں بیٹھ گیا کہ گھنٹوں تک حرکت کی ضرورت نہ پڑتی۔
میں مچان پر چار بجے شام کو بیٹھا اور دس بجے رات کو میں نے دو جانوروں کو آتے سنا۔ درختوں کے نیچے اتنی گہری تاریکی تھی کہ مجھے کچھ نہ دکھائی دیا۔ جب وہ نزدیک پہنچے تو مجھے اندازہ ہو گیا کہ یہ سیہہ ہیں۔ کانٹوں کی حرکت سے پیدا ہونے والی آواز اتنی منفرد ہے کہ کوئی اور جانور یہ آواز نہیں نکال سکتا۔ وہ لاش تک پہنچے اور اس کے گرد کئی چکر لگا کر اپنی راہ چل دیئے۔ ایک گھنٹہ بعد، جب چاند نکلے کچھ وقت ہو چلا تھا، میں نے نیچے وادی میں کسی جانور کی آواز سنی۔ یہ کی حرکت مشرق سے مغرب کی جانب تھی اور جب وہ شکار سے ہو کر گذرتی ہوا کے راستے میں پہنچا، یہ جانور کافی دیر تک رکا رہا اور پھر احتیاط سے لاش کی طرف بڑھا۔ ابھی یہ کچھ دور تھا کہ میں نے اس کے سونگھنے کی آواز سنی، مجھے معلوم ہو گیا کہ یہ ریچھ ہے۔ خون کی بو اسے بلا رہی تھی اور انسانی بو اسے دور بھاگنے پر مجبور کر رہی تھی اس لئے وہ بہت محتاط ہو کر بڑھ رہا تھا۔ ریچھ کی سونگھنے کی طاقت جنگل کے جانوروں میں سب سے زیادہ طاقتور ہوتی ہے۔ ابھی وہ وادی میں ہی تھا کہ اسے علم ہو گیا کہ یہ شکار شیر کا ہے۔ ہمالیہ کے ریچھ کسی سے نہیں ڈرتے اور میں نے بہت بار انہیں شیر کو اس کے شکار سے بھگاتے ہوئے دیکھا ہے۔ اسے شیر کی بو سے نہیں بلکہ انسان، خون اور شیر کی بوؤں کی وجہ سے جھجھک ہو رہی تھی۔
مسطح زمین پر پہنچ کر وہ پچھلے پیروں پر لاش سے چند گز دور ہو کر بیٹھا اور جب اس نے محسوس کیا کہ انسان کی بو سے اسے کوئی خطرہ نہیں، وہ پچھلے پیروں پر کھڑا ہوا اور اس نے ایک لمبی چیخ ماری۔ میں نے یہ خیال کیا کہ یہ چیخ اس نے اپنے ساتھی کو بلانے کے لئے ماری ہے۔ یہ آواز وادی میں گونجتی رہی۔ پھر وہ بغیر کسی جھجھک کے لاش تک پہنچا اور جب وہ اسے سونگھ رہا تھا، میں نے رائفل سے اس کا نشانہ لے لیا۔ مجھے صرف ایک واقعہ معلوم ہے جب کسی ہمالیائی ریچھ نے انسانی گوشت کھایا تھا۔ یہ ایک عورت کی لاش تھی جو اونچی چوٹی پر گھاس کاٹتے ہوئے پیر پھسلنے سے گری اور مر گئی۔ اس کی لاش کو ریچھ اٹھا کر لے گیا اور اسے کھا گیا۔ میں نے اس ریچھ کے شانے کا نشانہ لیا ہوا تھا، تاہم ریچھ لاش کو چکھے بغیر واپس اپنے راستے پر مغرب کو چل دیا۔ جب اس کے جانے کی آوازیں ختم ہو گئیں تو صبح تک میں نے کوئی آواز نہ سنی۔ سورج نکلنے کے کچھ دیر بعد ایبٹسن پہنچے۔
ایبٹسن کے ساتھ متوفی کا بھائی اور دیگر رشتہ دار بھی آن پہنچے۔ انہوں نے ادھ کھائی لاش کو صاف سفید کپڑے میں لپیٹا اور دو درختوں کو کاٹ کر انہوں نے سٹریچر بنایا اور اس پر رکھ کر ساردا دریا کے کنارے یہ کہتے ہوئے چل دیئے "رام نام ست ہے" جواب میں یہ سنائی دیتا تھا "ستے بول گت ہے"۔
اس سخت سرد رات کا مجھ پر گہرا اثر ہوا تھا لیکن ایبٹسن کی لائی ہوئی گرم گرم چائے اور کھانے نے رات کا تائثر زائل کر دیا۔
II ستائیس کی رات کو ایبٹسن کا چکا تک پیچھا کرنے کے بعد شیرنی رات کو کسی وقت لدھیا کو عبور کر کے ہمارے کیمپ کے پیچھے موجود جنگل میں گھس گئی۔ اگرچہ اس جنگل میں باقاعدہ راستہ موجود تھا جسے دیہاتی استعمال کرتے تھے، تاہم آدم خور کے ظہور کے بعد سے یہ راستہ ویران تھا اور اسے خطرناک شمار کیا جاتا تھا۔
اٹھائیس کو دو ہرکارے ایبٹسن کی ڈاک لے کر تنگ پور تاخیر سے روانہ ہوئے۔ وقت بچانے کے لئے انہوں نے اس جنگل سے گذرنے کا فیصلہ کیا۔ خوش قسمتی سے جو ہرکارہ آگے چل رہا تھا، بہت ہوشیار تھا اور اس نے شیرنی کو راستے میں چھپ کر بیٹھتے دیکھ لیا۔
ایبٹسن اور میں اسی وقت ٹھاک سے واپس آئے تھے کہ یہ دونوں افراد پہنچ گئے۔ رائفلیں ساتھ لئے ہم جائزہ لینے دوڑے۔ ہم نے پگوں کو دیکھا کہ شیرنی نے ان دونوں کا کچھ دور تک پیچھا بھی کیا تھا۔ تاہم جنگل بہت گھنا تھا اور ہم کچھ نہ دیکھ پائے اور ایک جگہ کسی جانور کے بھاگنے کی آواز سنی۔
انتیس کی صبح کو ٹھاک سے ایک گروہ آیا کہ ان کا ایک بیل گذشتہ رات باڑے میں واپس نہ لوٹا تھا۔ تلاش کرنے پر جہاں اسے آخری بار دیکھا گیا تھا، خون ملا۔دو بجے ایبٹسن اور میں اس جگہ پر تھے اور ایک نظر دیکھنے سے پتہ چل گیا کہ شیر نے بیل کو مارا اور پھر اٹھا کر دوسری جگہ منتقل کیا ہے۔ بعجلت دوپہر کا کھانا کھا کر ایبٹسن اور میں بمع دو آدمیوں کے گھیسٹنے کے نشانات کے پیچھے چلے۔ یہ دو آدمی مچان کے لئے رسیاں لا رہے تھے۔ سو گز تک یہ نشانات سیدھا پہاڑ کے درمیان متوازی چلے۔ یہ نشانات سیدھے اسی کھائی میں جا رہے تھے جہاں گذشتہ اپریل میں نے ایک بڑے شیر پر نشانہ خطا کیا تھا۔ چند سو گز بعد یہ بیل جو کہ بہت بڑی جسامت کا تھا، دو چٹانوں کے درمیان پھنس گیا۔ شیر جب اسے اٹھا کر آگے نہ لے جا سکا تو وہیں کچھ حصہ کھا کر اسے چھوڑ گیا۔ شیر کے پنچے اس بیل کے وزن سے اتنے پھیل گئے تھے کہ فرق کرنا مشکل تھا کہ آیا یہ عام شیر ہے یا آدم خور شیرنی۔ تاہم چونکہ ہم نے اس علاقے کے ہر شیر کو آدم خور سمجھ کر اس کا پیچھا کرنا تھا، میں نے یہاں بیٹھنے کا فیصلہ کیا۔ یہاں لاش سے مناسب فاصلے پر ایک ہی درخت تھا اور جونہی آدمی مچان کے لئے رسیاں باندھنے اوپر چڑھے، نیچے وادی میں شیر نے بولنا شروع کر دیا۔ عجلت میں چند الٹی سیدھی رسیاں باندھ کر ایبٹسن نگرانی کو کھڑے ہوئے جبکہ میں مچان پر چڑھ گیا۔ یہ مچان جس پر میں اگلے چودہ گھنٹے بیٹھا رہا، میری زندگی کی سب سے بری اور سب سے خطرناک مچان تھی۔ درخت پہاڑی کے مخالف سمت جھکا ہوا تھا اور تین غیر متناسب رسیوں سے بنی ہوئی مچان پر میں بیٹھے ہوئے کھائی کے بالکل اوپر سو فٹ اوپر تھا۔
جب میں درخت پر چڑھ رہا تھا تو شیر نے کئی بار آوازیں نکالیں اور لمبے وقفے کے بعد شام کو دوبارہ بولا اور اس کی آخری آواز چٹان کے سرے سے نصف میل دور سے آئی۔ بظاہر یہ لگ رہا تھا کہ شیر شکار کے قریب ہی لیٹا ہوا تھا اور اس نے ہمیں آتا اور پھر آدمیوں کو درخت پر چڑھتے دیکھا۔ سابقہ تجربے سے اسے معلوم تھا کہ اس کا کیا مطلب ہوگا، اس نے دور جا مداخلت پر ناراضگی ظاہر کی۔ چودہ گھنٹے بعد جب اگلے دن صبح کو ایبٹسن آئے، میں نے نہ تو کچھ دیکھا اور نہ ہی کچھ سنا۔
چونکہ یہ کھائی گہری اور درختوں سے ڈھکی تھی، گدھ لاش کو کبھی بھی نہ دیکھ پاتے۔ بیل اتنا بڑا تھا کہ شیر کے لئے کئی بار خوراک فراہم کر سکتا تھا، ہم نے فیصلہ کیا کہ اس پر تب تک دوبارہ نہ بیٹھیں جب تک کہ شیر اسے مزید کھا کر ہلکا نہ کر دے۔ جب شیر اسے یہاں سے منتقل کرے تو نئی جگہ گولی چلانے کے لئے بہتر موقع مل سکے گا۔ ہماری قسمت کہ شیر دوبارہ لاش پر واپس نہ آیا۔
دو راتوں کے بعد وہ بھینسا مارا گیا جو ہمارے کیمپ کے پیچھے سیم میں بندھا ہوا تھا۔ چونکہ میرا دل اس وقت جانے کو نہیں چاہ رہا تھا، آدم خور کو مارنے کا ایک سنہری موقع ہاتھ سے نکل گیا۔
جو آدمی بھینسے کو دیکھنے گئے تھے، نے بتایا کہ رسی ٹوٹی ہوئی تھی اور شیرنی شکار کو اسی کھائی میں نیچے لے گئی ہے جہاں وہ بندھا ہوا تھا۔ یہ وہی کھائی تھی جہاں میک ڈونلڈ اور میں نے اپریل میں شیرنی کا پیچھا کیا تھا اور اس وقت شیرنی اپنے شکار کو لے کر کھائی میں کچھ دور گئی تھی۔ اس بار نہایت بے وقوفی سے میں نے فرض کر لیا کہ اس بار بھی شیرنی شکار کو وہیں لے جائے گی۔
ناشتے کے بعد ایبٹسن اور میں بھینسے کی لاش کو ڈھونڈنے نکلے تاکہ اس پر مچان باندھنے کے امکانات کا جائزہ لیا جا سکے۔
جس گہری کھائی میں بھینسا مارا گیا تھا، پچاس گز چوڑی اور سیدھی پہاڑ کے دامن تک چلی جاتی تھی۔ دو سو گز تک یہ کھائی سیدھی جاتی ہے اور پھر بائیں مڑتی ہے۔ موڑ کے فوراً بعد بائیں جانب نو عمر درختوں کا ایک جھنڈ ہے اور اس کے پیچھے سو فٹ چٹان ہے جس پر گھنی گھاس اگی ہوئی ہے۔ کھائی میں ان درختوں کے قریب پانی کا ایک چھوٹا سا تالاب ہے۔ میں اپریل میں اس جگہ سے کئی بار گذرا تھا لیکن اندازہ نہ لگا سکا کہ یہ درخت کسی شیر کے لیٹنے کے لئے مناسب جگہ بھی ہو سکتے ہیں۔ اس لئے مڑتے وقت میں نے کوئی احتیاط نہیں کی۔ نتیجتاً شیرنی جو اس تالاب سے پانی پی رہی تھی، نے ہمیں پہلے دیکھا۔ اس کے پاس فرار کا ایک ہی راستہ تھا جو اس نے استعمال کیا۔ یہ راستہ درختوں کے پیچھے چٹان پر چڑھ کر سرے کو عبور کر کے پیچھے گھنے سال کا جنگل تھا۔
پہاڑی ہمارے لئے ناقابل عبور تھی، سو ہم نے کھائی میں اوپر کی طرف سفر جاری رکھا جہاں ہمیں سانبھروں کی گذرگاہ ملی۔ اس راستے سے ہم سرے تک پہنچ گئے۔ شیرنی اب اس تکون جگہ میں تھی جس کا ایک سرا یہ کنارہ، دوسرا لدھیا اور تیسرا وہ چوٹی تھی جہاں سے کوئی جانور نہ گذر پاتا۔ یہ علاقہ زیادہ بڑا نہ تھا اور اس میں بہت سارے ہرن چر رہے تھے۔ وقتاً فوقتاً ان کی آوازوں سے ہمیں شیرنی کی حرکت کا اندازہ ہوتا رہا لیکن بدقسمتی سے اس جگہ بہت ساری گہری کھائیاں بھی تھیں اور شیرنی انہی میں سے ایک میں گم ہو گئی۔
ابھی ہم نے بھینسے کو نہیں دیکھا تھا اس لئے دوبارہ سانبھروں کا راستہ لے کر کھائی میں پہنچے اور انہی نوعمر درختوں کے جھنڈ میں لاش پوشیدہ تھی۔ یہ درخت چھ انچ سے لے کر فٹ تک موٹے تنے والے تھے اور مچان کا بوجھ نہ سہار پاتے۔ اس لئے ہم نے مچان کا خیال دل سے نکال دیا۔ دھاتی سلاخ کی مدد سے ہم کسی بڑے پتھر کو اس کی جگہ سے نکال کر بیٹھ سکتے تھے لیکن آدم خور کے لئے یہ طریقہ خطرناک ہوتا۔
گولی چلانے کے امکانی موقع کو ضائع نہ کرنے کے خیال سے ہم نے سوچا کہ خود کو بھینسے کی لاش کے پاس گھاس میں چھپا دیں تاکہ اگر شیرنی اندھیرا ہونے سے قبل آئی اور ہم اسے پہلے دیکھ سکے تو اسے گولی مار سکیں گے۔ اس میں دو خامیاں تھیں۔ 1۔ اگر ہمیں گولی چلانے کا موقع نہ ملا اور شیرنی نے ہمیں دیکھ لیا تو باقی دو مواقع کی طرح اس بار بھی لاش پر دوبارہ نہیں آئے گی۔ 2۔ لاش اور کیمپ کے درمیان کا راستہ گھنے جنگلات سے بھرا ہوا تھا۔ اگر ہم تاریکی چھانے کے بعد واپس ہوتے تو شیرنی کے رحم و کرم پر ہوتے۔ اس لئے ہم نے بہت ہچکچاہٹ کے ساتھ اس رات لاش کو شیرنی کے لئے چھوڑ دینے کا فیصلہ کیا اور اگلے دن کے لئے بہتری کی امید رکھی۔
اگلے دن واپس آئے تو ہم نے دیکھا کہ شیرنی لاش کو لے گئی ہے۔ تین سو گز تک وہ کھائی کی تہہ میں پتھروں پر پھدکتی بڑھتی چلی گئی اور کوئی گھسیٹنے کا نشان نہ چھوڑا۔ جہاں سے اس نے لاش کو اٹھایا تھا، سے تین سو گز دور اس جگہ ہم دھوکہ کھا گئے۔ یہاں گیلی زمین پر بہت سارے پگ تھے لیکن کوئی بھی پگ ایسا نہیں تھا کہ جو لاش کو اٹھائے ہوئے بنا ہوتا۔ آخر کار دائروں میں تلاش کرتے ہوئے ہم نے وہ جگہ تلاش کی جہاں وہ کھائی سے نکل کر بائیں جانب کی پہاڑی پر چڑھی تھی۔
یہ پہاڑی جس پر شیرنی اپنے شکار کو لے کر چڑھی تھی، اس پر فرن اور گولڈن راڈ بکثرت اگی ہوئی تھی اور کھوج لگانا مشکل نہ تھا۔ تاہم چڑھائی بہت سخت تھی اور کئی جگہوں پر ہمیں لمبا چکر کاٹ کر دوبارہ کھوج جاری رکھنی پڑی۔ ہزار فٹ کی سخت چڑھائی کے بعد ہم ایک چھوٹے سے میدان تک آ پہنچے جس کے بائیں جانب ایک میل چوڑی چوٹی تھی۔ اس چوٹی کے نزدیک یہ میدان سیم کا شکار اور کٹا پھٹا تھا اور ان کٹی پھٹی جگہوں پر دو سے چھ فٹ اونچے سال کے بہت زیادہ درخت اگے ہوئے تھے۔ شیرنی اپنے شکار کو لے کر سیدھا اسی گھنے ذخیرے میں آئی تھی۔ یہ ذخیرہ اتنا گھنا تھا کہ جب تک ہم بھینسے کی لاش پر نہ پہنچ گئے، ہم اسے نہ دیکھ پائے۔ ابھی ہم یہ دیکھنے کو رکے ہی تھے کہ بھینسے کی لاش میں کتنا کچھ بچا ہوا ہے، ہمارے دائیں جانب سے ہلکی سی غراہٹ سنائی دی۔ رائفلیں اس طرف اٹھائے ہم نے منٹ بھر توقف کیا اور پھر جہاں سے آواز آئی تھی، سے ذرا آگے ہم نے حرکت کی آواز سنی۔ ہم ابھی ان گھنے درختوں میں دس گز ہی آگے بڑھے ہوں گے کہ ایک نسبتاً خالی قطعہ دکھائی دیا جہاں نرم گھاس پر شیرنی لیٹی ہوئی تھی۔ اس گھاس کے دوسرے سرے پر پہاڑی بیس گز بلند ہو کر ایک دوسرے میدان پر ختم ہوتی تھی۔ یہ آواز اسی میدان کی جانب سے آئی تھی جو ہم نے کچھ دیر قبل سنی تھی۔ اس چڑھائی پر ہر ممکن احتیاط اور خاموشی سے چڑھتے ہوئے ہم اوپر والے میدان تک پہنچے جو پچاس گز لمبا تھا۔ اسی وقت شیرنی اس میدان کے دوسرے سرے سے نیچے کھائی میں اتری اور چند کالے تیتر اور کاکڑ بولے۔ اس کا مزید پیچھا کرنا بے سود ہوتا۔ اس لئے ہم واپس شکار پر پہنچے اور دیکھا کہ ابھی بھی اس میں کافی گوشت باقی تھا۔ بیٹھنے کے لئے دو درخت چن کر ہم کیمپ کو واپس لوٹے۔