کماؤں کے آدم خور/چوگڑھ کے شیر/3
میں اپنے تمام قارئین کا شکر گذار ہوں کہ وہ اب تک میری یہ داستان توجہ سے پڑھ رہے ہیں۔ اب میں تفصیل سے انہیں شیرنی سے اپنی پہلی اور آخری ملاقات کے بارے بتاتا ہوں۔
یہ ملاقات 11 اپریل 1930 کو میرے کالا آگر آنے کے انیسویں دن دوپہر کو ہوئی۔
اس دن میں دو بجے جنگل میں نکلا ہوا تھا تاکہ تین بھینسے پہلے سے منتخب شدہ جگہوں پر باندھوں۔ بنگلے سے میل بھر دور جہاں سڑک ایک کنارے سے ہو کر گذرتی ہے اور کالا آگر میں شمال سے مغرب کا رخ کرتی ہے، میں نے بہت سے آدمی دیکھے جو لکڑیاں اکٹھی کر رہے تھے۔ اس جماعت میں ایک بوڑھا آدمی تھا۔ اس نے یہاں سے پانچ سو گز دور درختوں کے ایک جھنڈ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ پچھلے ماہ آدم خور نے اس کے اٹھارہ سالہ نوجوان اور اکلوتے بیٹے کو مارا تھا۔ مجھے یہ کہانی متوفی کے باپ کی زبانی سننے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔ جب ہم سڑک کے کنارے سیگرٹ پینے بیٹھے تو اس نے مجھے تفصیل بتائی اور اشاروں سے وہ جگہ دکھائی جہاں اس کا بیٹا مارا گیا تھا اور اگلے دن باقیات ملی تھیں۔ اس نے ان پچیس لوگوں کو لعنت ملامت کی جو اس دن اس کے ساتھ تھے لیکن اس کے بیٹے کو شیرنی کے رحم و کرم پر چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔ اس کا لہجہ تلخ تھا۔ ارد گرد موجود لوگوں میں سے چند لوگ اس دن اس کے ساتھ تھے۔ انہوں نے ان الفاظ کو سنتے ہی بوڑھے پر الزام دھرا کہ بوڑھے نے ہی غل مچایا تھا کہ شیر کی آواز آ رہی ہے، سب اپنی اپنی جانوں کو بچانے کے لئے بھاگیں۔ بوڑھا اس وضاحت سے مطمئن نہ ہوا۔ اس نے سر ہلا کر کہا کہ تم سب تجربہ کار تھے اور وہ محض لڑکا۔ تم نے اسے اکیلا چھوڑ دیا۔ مجھے افسوس ہوا کہ میرے سوالات کی وجہ سے یہ تلخی پیدا ہوئی۔ بوڑھے کی تسلی کے لئے میں نے اسے بتایا کہ ایک بھینسا میں اس جگہ بھی باندھوں گا جہاں اس کا بیٹا مارا گیا تھا۔ اپنے دو ہمراہیوں کو دو بھینسے دے کر میں نے بنگلے واپس بھیجا اور خود تیسرے بھینسے اور دو آدمیوں کے ہمراہ اس جگہ چل دیا جہاں اس شخص کا بیٹا مارا گیا تھا۔
جہاں ہم بیٹھے تھے، اس سے نزدیک والی پگ ڈنڈی لے کر ہم چل پڑے۔ یہ پگ ڈنڈی زگ زیگ ہوتی ہوئی نیچے وادی میں اترتی ہے اور دو میل آگے جا کر فارسٹ روڈ سے جا ملتی ہے۔ یہ راستے ایک کھلے قطعے سے گذرتا ہے جو ان درختوں کے جھنڈ کے کنارے واقع ہے۔ یہاں وہ لڑکا مارا گیا تھا۔ اس کھلے قطعے میں جو کہ تیس مربع گز کا تھا، چلغوزے کا ایک نوعمر درخت تھا۔ اسے میں نے کاٹ کر کٹے ہوئے تنے سے بھینسے کو باندھ دیا۔ ایک آدمی سے کہا کہ وہ اس کے لئے گھاس جمع کرے۔ دوسرا آدمی مادھو سنگھ تھا جو گڑھوالی رجمنٹ میں کام کر چکا تھا اور اب متحدہ صوبہ جات کی پولیس میں ملازم تھا، کو کہا کہ وہ درخت پر چڑھ کر کلہاڑی تنے پر مارے اور آواز پیدا کرتا رہے۔ یہ آواز مقامی افراد عموماً اکثر پیدا کرتے رہتے ہیں۔ اس کے بعد میں چار فٹ اونچے پتھر پر بیٹھ گیا۔ اس کا نچلا سرا زمین سے ملا ہوا تھا۔ اس پتھر کے پیچھے کی پہاڑی بہت ڈھلوان تھی اور گھنے جنگل سے بھری وادی تک جا رہی تھی۔
پہلا آدمی گھاس کاٹ کاٹ کر بھینسے کے سامنے ڈال رہا تھا اور مادھو سنگھ مسلسل شور کر رہا تھا۔ میں پتھر پر بیٹھا سیگرٹ پی رہا تھااور رائفل میرے بائیں بازو میں دبی ہوئی تھی۔ اچانک مجھے علم ہو گیا کہ شیرنی آ گئی ہے۔ زمین پر موجود پہلے آدمی کو اشارہ کیا کہ وہ میری طرف بھاگ کر آئے اور سیٹی بجا کر مادھو سنگھ کو بھی خاموش کرا دیا۔ تین اطراف سے زمین نسبتاً خالی تھی۔ مادھو سنگھ میرے سامنے بائیں جانب درخت پر تھا۔ گھاس کاٹنے والا بندہ اب میرے سامنے تھے۔ بھینسا ہمارے سامنے دائیں طرف تھا اور بے چین دکھائی دے رہا تھا۔ اس علاقے میں شیرنی مجھے دکھائی دیئے بغیر نزدیک نہ آ سکتی تھی۔ ایک ہی امکان تھا کہ شیرنی میرے عقب اور نیچے سے آئی تھی جہاں میں اسے نہ دیکھ سکتا تھا۔
اس پتھر کو چنتے وقت میں نے دیکھا تھا کہ اس کے عقبی طرف ڈھلوان بہت عمودی تھی اور اس کی جڑ چلغوزے کے درخت اور جھاڑیوں وغیرہ سے بھری ہوئی تھی۔ یہاں سے زمین آٹھ یا دس فٹ نیچے تھے۔ شیرنی کا اوپر چڑھنا مشکل سہی لیکن ناممکن نہ تھا۔ میری حفاظت کا سارا دار و مدار شیرنی کی اس گھاس پھونس میں حرکت کی آواز سننے پر تھا۔
مجھے یقین ہے کہ آدم خور مادھو سنگھ کے شور کی وجہ سے متوجہ ہوئی تھی۔ اس کی گھاس میں شیرنی اس پتھر تک پہنچی اور مجھے دیکھ کر اپنے اگلے قدم کے بارے میں سوچ ہی رہی تھی کہ مجھے اس کی موجودگی کی خبر ہو گئی۔ میرے رخ بدلنے اور میرے آدمیوں کی طرف سے اچانک خاموش ہو جانے سے شیرنی کو شک ہو اہوگا۔ خیر چند منٹ بعد وادی کے نچلے سرے سے خشک ٹہنی ٹوٹنے کی آواز آئی اور بے چینی کی کیفیت اچانک ہی دور ہو گئی اور میں پر سکون ہو گیا۔ ایک موقع ضائع ہو گیا لیکن مجھے یقین تھا کہ وہ جلد یا بدیر واپس لوٹے گی اور بھینسے پر ہاتھ صاف کرے گی۔ ابھی چار یا پانچ گھنٹے جتنی روشنی باقی تھی اور وادی سے ہو کر مخالف سمت میں پہاڑی پر چڑھنے سے مجھے بھینسا اور وادی کا بقیہ حصہ صاف دکھائی دے رہا تھا۔ اس جگہ سے اگر میں گولی چلاتا تو کم از کم دو یا تین سو گز دور ہوتا۔ لیکن میرے پاس موجود اعشاریہ 275 کی رائفل بہت عمدہ نشانے کی حامل تھی۔ اگر میں شیرنی کو زخمی بھی کر دیتا تو اس کا پیچھا کرنا نسبتاً آسان ہو جاتا بجائے اس کے کہ میں اسے کئی سو مربع میل کے جنگل میں تلاش کرتا جو میں گذشتہ کئی ماہ سے کر رہا تھا۔
میرے ساتھی میری مشکل تھے۔ انہیں اکیلا بنگلے بھیجنا قتل کے مترادف ہوتا۔ اس لئے انہیں ساتھ ہی رکھنا پڑا۔
بھینسے کو تنے سے مضبوطی سے باندھ کر تاکہ شیرنی اسے نہ لے جا سکے، ہم اس کھلے قطعے سے نکل کر دوبارہ راستے پر چڑھے تاکہ سامنے والی پہاڑی سے گولی چلانے کے منصوبے پر عمل پیرا ہوں۔
راستے سے سو گز دور میرے سامنے ایک کھائی آئی۔ اس کی دوسری طرف راستہ بہت گھنی جھاڑیوں سے ہو کر گذرتا تھا جہاں دو دیگر آدمیوں کے ہمراہ گذرنا نادانی ہوتی۔ میں نے سوچا کہ کھائی سے ہو کر نیچے اترتا ہوں اور پھر آگے چل کر اوپر کی طرف نکلیں گے اور جہاں یہ جھاڑیاں ختم ہو رہی ہیں، پر راستے پر دوبارہ آ جائیں گے۔
کھائی دس گز چوڑی اور چار یا پانچ فٹ گہری ہوگی۔ جونہی میں اس میں اترا، ایک الو اس جگہ سے اڑا جہاں میں نے چٹان پر ہاتھ رکھا تھا۔ اس جگہ غور کرتے ہی مجھے دو انڈے دکھائی دیئے۔ یہ انڈے زردی مائل تھے اور ان پر بھورے رنگ کے دھبے موجود تھے۔ ان کی شکل بہت عجیب تھی۔ ایک بہت لمبا اور نوکدار جبکہ دوسرا کسی سنگ مر مر کی گیند کی طرح گول۔ میرے مجموعے میں الو کے انڈے نہیں تھے اس لئے میں نے سوچا کہ ان انڈوں کو ساتھ لیتا چلوں۔میرے پاس کوئی ایسی چیز نہیں تھی کہ جس میں احتیاط سے انڈے لے جاتا۔ میں نے ہتھیلی کو گہرا کیا اور اس میں انڈے رکھ کر ارد گرد موس رکھ دی۔
جونہی میں نیچے اترا، کھائی کے کنارے اونچے ہو گئے اور جہاں ہم نیچے اترے تھے، ساٹھ گز دور اچانک ہی راستہ بارہ یا چودہ فٹ نیچے کی طرف عمودی ڈھلان کی شکل میں تھا۔ ان پہاڑی کھائیوں میں بہنے والے تیز رفتار پانی نے اس پتھر کو کاٹ کر شیشے کی طرح ہموار اور چکنا بنا دیا تھا۔ چونکہ اس پر قدم جمانا مشکل تھا، میں نے رائفل اپنے ساتھیوں کو دے کر خود بیٹھا اور پھسل کر نیچے اترا۔ ابھی بمشکل میرے پیر زمین سے لگے ہوں گے کہ میرے ساتھی میرے دائیں بائیں غڑاپ سے اترے اور رائفل مجھے دیتے ہوئے چیخے کہ کیا میں نے شیرنی کی آواز سنی؟ حقیت میں میں نے پھسلتے ہوئے اپنے کپڑوں کی سر سراہٹ کے سوا اور کچھ نہ سنا تھا۔ سوال کیا تو پتہ چلا کہ انہوں نے زور دار دھاڑ کی آواز سنی تھی۔ یہ آواز بہت نزدیک سے آئی تھی لیکن وہ سمت کا اندازہ کرنے سے قاصر رہے۔ شیر جب شکار کی نیت سے گھات لگا رہے ہوں تو وہ آواز نکال کر اپنی موجودگی کا راز نہیں فاش کرتے۔ اس کا بہت ہی غیر مطمئن کردہ جواب یہ تھا کہ شیرنی نے ہم تینوں میں سے شکار کے لئے مجھے چنا اور جونہی میں پھسل کر اس کی نظروں سے اوجھل ہوا، اس نے آواز نکالی۔ ظاہرہے کہ یہ جواب کوئی معقول نہیں تھا کیونکہ بغیر کسی وجہ سے یہ فرض کرنا کہ شیرنی نے میرے ساتھیوں کو چھوڑ کر مجھے ہی منتخب کیا تھا، کیا اسے بقیہ دو انسانوں سے کوئی دل چسپی نہیں تھی؟
جہاں ہم تینوں رکے ہوئے تھے، ہمارے عقب میں وہی ڈھلوان تھی جہاں سے ہم نیچے اترے تھے، دائیں جانب چٹانی دیوار جو کہ پندرہ فٹ بلند اور کھائی پر ہلکی سی جھکی ہوئی تھی اور ہمارے بائیں جانب چٹانی کنارہ تھا جو تیس یا چالیس فٹ بلند تھا۔ کھائی کا ریتلا پیندہ تھا جہاں ہم کھڑے تھے، کوئی چالیس فٹ لمبا اور دس فٹ چوڑا تھا۔ اس کے نچلے سرے پر چلغوزے کا ایک بڑا درخت گرا ہوا تھا اور اس نے بند سا قائم کیا ہوا تھا۔ اس جگہ ریت کی موجودگی اسی بند کی وجہ سے تھی۔ جھکی ہوئی چٹان درخت سے کوئی بارہ یا پندرہ فٹ قبل ہی ختم ہو جاتی تھی۔ میں اس تک بے آواز پہنچا۔ یہاں خوش قسمتی سے میں نے محسوس کیا کہ ریت اس چٹان کے دوسری طرف بھی موجود ہے۔
یہ پتھریلی چٹان یوں سمجھیں کہ سکول والی ایک بہت بڑی سلیٹ کی مانند تھی۔ اس کا نچلا سرا دو فٹ موٹا اور یہ سیدھی کھڑی تھی۔