کماؤں کے آدم خور/چوگڑھ کے شیر/4

جونہی میں اس سے آگے بڑھا، میں نے اپنے دائیں کندھے سے سر کو موڑ کر دیکھا تو میری آنکھیں براہ راست شیرنی کی آنکھوں سے جا ٹکرائیں۔

اب میں آپ کو اس ساری صورتحال کی واضح تصویر پیش کرتا ہوں۔

ریتلا پیندا چٹان کی دوسری طرف تقریباًہموار تھا۔ اس کے دائیں جناب پندرہ فٹ بلند اور جھکی ہوئی چٹان تھی۔ اس کے بائیں جانب پندرہ فٹ بلند کنارہ تھا جو کانٹے دار جھاڑیوں سے بھرا ہوا تھا۔ اس کی پرلی طرف اسی طرح کی ڈھلوان تھی جیسی کہ ہم نے کچھ دیر پہلے دیکھی تھی تاہم یہ کچھ زیادہ بلند تھی۔ ریتلا پیندہ تین اطراف سے ان قدرتی دیواروں سے گھرا ہوا تھا اور بیس فٹ لمبا اور دس فٹ چوڑا تھا۔ اس پر شیرنی اگلے پنجے پھیلائے اور پچھلے پنجوں پر بیٹھی ہوئی تھی۔ اس کا فاصلہ مجھ سے آٹھ فٹ (بعد میں ماپا گیا) تھا۔ اس کے چہرے پر کچھ ایسی مسکراہٹ تھی جیسے کوئی کتا اپنے مالک کو بہت دن بعد گھر آتا دیکھے تو اس کے چہرے پر ہوتی ہے۔

میرے ذہن میں فوراً ہی دو سوچیں آئیں۔ پہلی تو یہ کہ مجھے کچھ کرنا ہوگا، دوسری یہ کہ جو کچھ کروں، ایسے انداز سے ہو کہ شیرنی کو خطرہ نہ محسوس ہو۔

رائفل میرے دائیں ہاتھ میں اور دوسری طرف تھی۔ سیفٹی کیچ بند تھا اور شیرنی تک اس کو گھمانے کے لئے تین چوتھائی دائرہ طے کرنا ہوتا۔

بہت آہستگی سے ایک ہاتھ سے رائفل کی نالی کو حرکت دینا شروع کیا لیکن اس کی رفتار نہ ہونے کے برابر تھی۔ جب چوتھائی دائرہ طے ہوا، کندہ میرے پہلو سے لگا۔ اب مجھے اپنے بازو کو آگے بڑھا کر دائرہ پورا کرنا تھا۔ میں نے ہاتھ لمبا کر کے حرکت جاری رکھی۔ میرا بازو پوری طرح پھیلا ہوا تھا اور رائفل کا بوجھ بھاری پڑنا شروع ہو گیا تھا۔ تھوڑا سا اور حرکت کرنی تھی۔ اس دوران شیرنی کی نگاہیں میری نگاہوں سے نہیں ہٹی اور اس کے چہرے پر وہی مسکراہٹ تھی۔

رائفل کو تین چوتھائی دائرہ طے کرنے میں کتنا وقت لگا، کہنا مشکل ہے۔ میرے لئے تو بس شیرنی کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے رائفل کو حرکت دینا اور رائفل کی حرکت کو نہ دیکھ سکنا، ہاتھ کا شل ہوتا ہوا محسوس کرنا، جیسے کہ یہ دائرہ کبھی پورا نہیں ہوگا۔ تاہم بالآخر دائرہ مکمل ہوا اور جونہی رائفل شیرنی کے جسم کی طرف سیدھی ہوئی، میں نے لبلبی دبا دی۔

جونہی رائفل چلی، اس کا دھکہ، اس تنگ جگہ میں اس کی گونجتی ہوئی دھمک سے مجھے رائفل کے چلنے کا احساس تو ہوا لیکن لبلبی دبانے سے رائفل چلنے تک ایسا لگا جیسے کوئی ڈراؤنا خواب دیکھ رہا ہوں۔ ایسا خواب کہ شدید خطرے کی حالت میں رائفل کی لبلبی تو بار بار دبائی جاتی ہے لیکن رائفل نہیں چلتی۔

کچھ دیر تک شیرنی اپنی جگہ پر بے حس و حرکت رہی پھر بہت آہستگی سے اس کا سر اس کے پھیلے ہوئے اگلے پنجوں کی طرف جھکنے لگا۔ اسی وقت گولی کے سوراخ سے خون کی دھار بہہ نکلی۔ گولی اس کی ریڑھ کی ہڈی کو توڑتی ہوئی اس کے دل کے اوپری حصے کے چیتھڑے اڑا گئی۔

میرے دونوں ساتھی جو چند گز پیچھے تھے، شیرنی کو سلیٹ نما چٹان کی وجہ سے نہ دیکھ سکے، مجھے رکتے دیکھ کر وہ بھی رک گئے۔ انہیں پتہ لگ گیا کہ میں نے شیرنی کو دیکھ لیا ہے اور میرے انداز سے جان گئے کہ شیرنی بہت نزدیک ہے۔ مادھو سنگھ نے بعد ازاں مجھے بتایا کہ وہ مجھ چلا کر بتانے والا تھا کہ میں انڈے پھینک کر دونوں ہاتھوں سے رائفل کو پکڑ لوں۔ جونہی میں نے گولی چلائی اور پھر کچھ دیر کے بعد رائفل کو نیچے کر کے اپنے پنجےپر رکھا، مادھو سنگھ، جو کہ نزدیک تھا، نے بڑھ کر رائفل کو مجھ سے لے لیا۔ میری ٹانگیں اچانک ہی جواب دے گئیں۔ بڑی مشکل سے میں اس گرے ہوئے درخت تک پہنچا اور بیٹھ گیا۔ شیرنی کے پنجوں کو دیکھنے سے قبل ہی مجھے یقین ہو گیا تھا کہ آدم خور اب قصہ پارینہ بن چکی ہے۔ قسمت کی مدد سے اس نے سرکاری طور پر چونسٹھ اور ضلع کے لوگوں کے مطابق اس سے دگنی تعداد کے لوگوں کی زندگی کی ڈور کاٹی، اب اگرچہ سب کچھ اسی کے حق میں تھا، قسمت نے اس کی اپنی ڈور کاٹ دی۔

آپ کو شاید ایسا لگے کہ تین چیزیں میری کمزوری تھیں جبکہ وہ تینوں میری موافقت میں تھیں۔ ان میں 1۔ بائیں ہاتھ میں انڈے 2۔ میرے پاس ہلکی رائفل کا ہونا 3۔ شیرنی کا آدم خور ہونا۔ اگر میرے ہاتھ میں انڈے نہ ہوتے تو شیرنی کو اتنا قریب دیکھتے ہی میں مڑتا اور رائفل کو اس کی طرف پھیرنے کی کوشش کرتا۔ اس طرح شیرنی فوراً جست لگا دیتی جو کہ میری آہستہ آہستہ رائفل کا رخ بدلنے کی وجہ سے نہیں لگائی گئی۔اسی طرح اگر رائفل ہلکی نہ ہوتی تو میرے لئے ایک ہاتھ سے اس کا رخ بدلنا اور پھر ایک ہاتھ کو پوری طرح پھیلائے ہوئے اسے چلانا ناممکن ہوتا۔ آخری بات، اگر شیرنی آدم خور نہ ہوتی تو جونہی اس نے خود کو گھرا ہوا دیکھا تھا، فوراً ہی جست لگا کر مجھے اپنی راہ سے ہٹاتی جاتی۔ شیروں کے اس طرح کسی کو ہٹانے کا مطلب عموماً یقنی موت ہوتا ہے۔

جب تک میرے ساتھی لمبا چکر کاٹ کر بھینسے کو کھولنے اور رسی لانے گئے، جو ایک اور خوش گوار مقصد کے لئے تھا، میں چٹانوں پر چڑھا اور کھائی میں جا کر انڈوں کو ان کے جائز مالک کے پاس واپس کر آیا۔ بے شک آپ یا دیگر شکاری مجھے توہم پرست کہیں تو کہتے رہیں۔ تین مختلف مواقع پر، بہت لمبے عرصے تک، سال بھر تک شیرنی کا پیچھا کرتے رہنے کے باوجود، ہر ممکنہ کاوش کے باوجود، میں شیرنی پر ایک گولی بھی نہ چلا سکا۔ ان انڈوں کو چند منٹ تک اپنے ہاتھ میں لیتے ہی قسمت بدل گئی۔

یہ انڈے جو اب تک میرے بائیں ہاتھ میں بالکل محفوظ اور ابھی تک گرم تھے، میں نے انہیں واپس ان کے گھونسلے میں رکھ دیا۔ نصف گھنٹے بعد جب ہم ادھر سے گذرے تو ان کی ماں ان پر بیٹھ چکی تھی اور اس کا رنگ آس پاس سے اتنا مل گیا تھا اصل جگہ کو جانتے ہوئے بھی میں اسے نہ دیکھ پایا۔

مہینوں کی دیکھ بھال اور نگہداشت کے بعد بھینسا اب ہم سے اتنا مانوس ہو چکا تھا کہ کتے کی طرح ہمارے پیچھے چلتا ہوا آیا اور شیرنی کی لاش کو سونگھ کر اس کے پاس لیٹ کر جگالی کرنے لگا۔ ہم نے درخت کاٹ کر شیرنی کو اس پر لادا۔

میں نے کوشش کی کہ مادھو سنگھ بنگلے میں جا کر کچھ اور افراد لائے لیکن اس نے ایک نہ سنی۔ آدم خورنی کو لے جانے کے فخر میں اس نے کسی اور شریک کرنا مناسب نہ سمجھا۔ مجھے بھی ان کی مدد کرنی پڑی کیونکہ دو بندوں کے لئے لاش بہت بھاری تھی۔ مادھو سنگھ کے خیال میں جگہ جگہ رکتے ہوئے ہم چلتے جائیں تو اتنا زیادہ مشکل نہ ثابت ہو۔ ہم تینوں بہت مضبوط جثے کے افراد تھے۔ دو بچپن سے کڑی محنت کے عادی اور تیسرے کو زندگی نے بہت سخت بنا دیا تھا۔ تاہم پھر بھی یہ کام کسی معجزے سے کم نہ تھا۔

جس راستے سے ہم آئے تھے، بہت تنگ اور بل کھاتا ہوا تھا کہ اس پر شیرنی والا درخت نہ گذر سکتا تھا۔ جگہ جگہ رک کر سانس بحال کرنے اور کپڑے کو اس طرح کندھوں پر رکھتے ہوئے کہ درخت ہمارے گوشت میں نہ کھب جائے، ہم سیدھے پہاڑی پر رس بھری اور دیگر جھاڑیوں سے ہوتے ہوئے چڑھے۔ ان جھاڑیوں میں ہمارے چہرے اور جسموں کی کھال کا کچھ حصہ اٹکا رہ گیا۔ بعد ازاں کئی دن تک نہاتے ہوئے کافی تکلیف رہی۔

سورج ابھی تک آس پاس کی پہاڑیوں پر چمک رہا تھا کہ تھکے ہوئے مگر انتہائی خوش ہم تین افراد کالا آگر کے بنگلے میں پہنچے۔ اس شام سے اب تک اس علاقے میں سینکڑوں مربع میل تک کے علاقے میں کوئی انسان نہیں مارا گیا یا زخمی ہوا جو چوگڑھ کی آدم خور شیرنی نے پانچ سال سے جاری رکھا ہوا تھا۔

مشرقی کماؤں کے اس نقشے پر میں نے ایک اور کانٹا لگا دیا ہے۔ یہ نقشہ میرے سامنے دیوار پر لٹک رہا ہے۔ اس پر وہی تاریخ درج ہے جس تاریخ میں آدم خور ماری گئی۔ یہ کانٹا کالا آگر سے دو میل دور لگا ہے اور اس پر 11 اپریل 1930 کی تاریخ درج ہے۔

شیرنی کے پنجے ٹوٹے اور گھسے ہوئے تھے۔ اس کا ایک بڑا دانت ٹوٹ چکا تھا اور سامنے والے دانت بھی جبڑے کی ہڈی تک گھسے ہوئے تھے۔ انہی معذوریوں کی وجہ سے ہی وہ اپنا فطری شکار نہ جاری رکھ سکی اور اسے آدم خور بننا پڑا تھا۔ وہ خود سے شکار کو فوراً ہلاک کرنے کے قابل نہیں رہی تھی۔ خصوصاً جب سے میں نے پہلے چکر پر غلطی سے اس کے نوجوان بچی کو مار دیا تھا۔