اسماء طارق
اچھی زبان اچھے کلچر کی پہچان
ترمیماچھی زبان اچھے کلچر کی پہچان
اسماء طارق گجرات
زبان کسی بھی معاشرے کی پہچان ہوتی ہے اور لوگ اپنی زبان سے پہچانے جاتے ہیں، یہاں تک کہ زبان آپ کی سالمیت تک کے لیے بہت ضروری ہے۔اچھی زبان اعلی قدروقیمت کی حامل ہوتی ہے لوگوں کے بولنے کا انذار اور الفاظ کا چناؤ ان کی پہچان بن جاتا ہے۔اچھے اور باوقار لوگ اپنی گفتگو کے معیار کو بھی اچھا رکھتے ہیں وہ خوش گفتار ہوتے ہیں۔وہ اچھا بولتے ہیں اور معیاری الفاظ استعمال کرتے ہیں۔زبان کے استعمال سے آپ کافی حد تک بتا سکتے ہیں کہ فلاں بندہ کیسا ہے اور ان کے طور طریقے کیسے ہیں یا ان کا اخلاقیات کا معیار کیسا ہے ، اچھی زبان اچھے کلچر کی نمائندگی کرتی ہے۔ اچھی زبان کا استعمال یوں تو ہر ایک پر لازم ہوتا ہے مگر خاص طور پر جب آپ اپنے لیڈروں کی بات کرتے ہو تو انہیں تو اس معاملے میں خاص احتیاط کی ضرورت ہے کیوں کہ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو آپ کی اور آپ کے کلچر کی ہر جگہ نمائندگی کرتے ہیں۔ مگر جب یہی لوگ ایسی زبان استعمال کرنا شروع کر دیں کہ جسے سن کر آپ کو شرم آ جاتی ہے مگر بولنے والے کو ذرا فرق نہیں پڑتا تو وہاں صورتحال کا اندازہ لگائیے آپ ذرا ۔
ایک دور تھا کہ جب سیاسی جماعتوں میں چاہے کتنے بھی اختلافات ہوتے اور وہ اپنے بیانات میں ایک دوسرے کی سیاسی پالیسیوں پر کھل کر اعتراضات کرتے تھے مگر ایک دوسرے کی ذاتیات پر حملہ کرنے سے گریز رہتے ، جس کا یہ فائدہ ہوتا کہ وہ دکھ سکھ کے موقعوں پر اکٹھے دکھتے اور یہ بات ملک اور قوم کے لئے اچھی تھی۔ مگر اب اس سوشل میڈیا کے دور میں جہاں ہمیں بے پناہ آزادی میسر ہوئی ہے کہ ہم کھل کر اپنی رائے کا جب چاہیں اظہار کر سکتے ہیں وہیں بد تہذیبی بھی بڑھ گئی ہے ۔ایک طرف تو لوگ بھی اس طرح کی زبان اور الفاظ کا استعمال کھلے عام کرنا شروع ہوگئے ہیں جس سے ہمارا کلچر مجروح ہو رہاہے اور ہماری تہذیب کی دھجیاں اڑ رہی ہیں ، ہر وقت ہر طرف گالم گلوچ ہورہی ہے جو تہذیب یافتہ معاشروں کا شیوہ نہیں ہوتا ۔ ہمارے لیڈر ،ہمارے نمائندے بھی اخلاقیات سے کنارہ کرتے نظرآتے ہیں۔آئے دن سوشل میڈیا پر مخالفین پر تیر اندازی کی جارہی ہے اور اس میں اخلاقیات کو تارتار کیا جاتاہے، ایک دوسرے کی ذاتیات پر حملے کیے جاتے ہیں۔ اور اب تو پارلیمنٹ تک کو بخشا نہیں جاتا ،سجھ نہیں آتا کہ عوام تو پارلیمنٹ میں نمائندوں کو اپنی نمائندگی کےلئے بھیجی ہے تاکہ ان کہ مسائل پر بات ہوسکے مگر یہاں اس قدر غیر پارلیمانی رویہ رکھا جاتا ہے کہ آپ سوچنے لگ جاتے ہو ، اچھا آپ نے انہیں چنا تھا ،یہ تھے وہ جنہوں نے آپ کے مسائل کو حل کرنا ہے مگر مسائل کا حل کیسے ملے گا جب مسائل پر بات ہی نہیں ہوگی یہاں سارا وقت ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور ایک دوسرے کے ساتھ بحث میں گزار دیا جاتا ہے اور پھر سب گھر چلے جاتے ہیں اور مسائل ویسے کہ ویسے پڑے رہتے ہیں ایسے میں حل کہاں سے آئے ۔ ا جکل سیاسی فریقین اس طرح گتھم گتھا ہوتے ہیں جسے دیکھ کر لگتا ہے گلی کے ناسمجھ لڑکوں کی لڑائی ہورہی ہے، آج کل تو وہ بھی ایسے نہیں لڑتے اور یہ ہمارے لیڈر اس طرح گفتگو میں ایک دوسرے کی عزتوں کو نیلام کر رہے ہوتے ہیں کہ خدا کی پناہ ۔۔ پارلیمان میں غیر پارلیمانی گفتگو عروج پر ہے، چور ڈاکو ،لٹیرے ، تیرے باپ ، میرے باپ جیسے الفاظ سے پارلیمان گونجتی ہے مگر افسوس کہ ان کو اس گفتگو پر ذرا افسوس نہیں ہوتا حتی کہ وہ یہ لوگ ایسی گفتگو کرکے مزہ لیتے ہیں ۔ خدا جانے کہاں گئے ان کے وہ مہذب سیاست کے دعوے، بڑے بڑے منجھے ہوئے سیاستدان ہونگے مگر زبان گلی محلوں سے بھی گھری ہوئی ۔اور ایک طرف تو غیر مہذب رویہ اور دوسرا اگر ان سے ان کے رویہ کے متعلق پوچھا جائے تو کہتے ہیں کہ میں واضح کرتاہوں کہ میں نے یہ غیر مہذب رویہ کون اختیار کیا ، مطلب کہ غیر مہذب رویہ بھی ڈیفنڈ کریں گے آپ ۔۔ حد ہے ۔ اب تو یہ لگتا ہے سیاست دانوں نے خود ہی لڑتے رہنا ہے اور مسائل ویسے ہی پڑے رہنے ہیں ۔ جب تک اجلاس ہوتا رہتا ہے، گالیوں کی گاج گرج سنائی دیتی رہتی ہے مگر مسائل کی بات چھوڑئیے وہ ہمارے اور آپ کے ہیں ہماری طرح پڑے رہے گے ۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ جب اسمبلی میں لاقانونیت کی انتہا ہو گی تو اسمبلی کے باہر کیا قانون کی پیروی کی جائے گی ۔۔۔۔ ۔ جلسے جلوس ہوں ، تقاریر ہوں یا خطاب کیے جارہے ہوں افسوسناک بات تو یہ ہے کہ سیاستدان ایسی ہی غلط زبان اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کرتے ہیں جو اخلاقیات کے معیار سے گری ہوئی ہوتی ہے۔ افسوس کہ بڑے بڑے سینئر لوگ ہونگے ، جنہیں سیاست میں آئے عرصہ ہوگیا ہے جن کا ایک مقام ہے وہ بھی ایسے الفاظ استعمال کررہے ہیں ۔ ایک دوسرے کو چور ڈاکو ،گدھا پاگل کہہ رہے ہیں ، ذاتیات پر تیر برسا رہے ہیں۔ پارٹیاں ایک دوسرے کی ذاتیات پر حملے کر رہی ہیں، لیڈر ایک دوسرے کے خاندان تک انگلیاں اٹھا رہے ہیں۔گالی گلوچ کی سیاست فروغ پا رہی ہے ،اب تو لگتا ہے یہاں مقابلہ ہوگا کون زیادہ بڑی گالی دیتا ہے اور جو کسر رہ جاتی ہے وہ میڈیا پوری کر دیتی ہے ۔ سب ہی تقریبا ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں جو کسی طور پر مناسب نہیں ، ایک دوسرے کی پالیسیوں کو نشانہ بنانے کی بجائے ایک دوسرے کی ذاتیات پر حملہ کرتے ہیں۔ جب بڑے بڑے لیڈروں کی یہ حالت ہو گی تو وہاں چھوٹے نمائندوں نے تو کوئی کسر نہیں چھوڑنی ، یہ سب دیکھ کر لگتا نہیں کہ یہ جمہوریت کی سیاست ہے یہاں تو ہر طرف بادشاہت نظر آتی ہے ۔ یوں لگتا ہے ہر پارٹی کے رکن اپنے اپنے بادشاہ کو خوش کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور اس کے لیے مخالفین کو ہر طرح کی دھول چٹاتے ہیں، صد افسوس کہ یہ سب کرنے والے کوئی گلی محلے کے ان پڑھ لوگ نہیں ہیں بلکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور تجربہ کار لوگ ہیں، جنہیں سیاست میں آئے عرصہ ہو گیا ہے۔ یہ سب دیکھ کر خوف آتا ہے کہ ہماری سیاست کس طرف جارہی ہے اور آنے والی نسلوں کے لیے کیا چھوڑ کر جارہی ہے گالی گلوچ کے علاوہ۔ ان حالات کو دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ ہمارے لیڈز کس قدر سیاست کی بنیادی تربیت سے محروم ہیں اور ہمیں سیاسی تربیت کی اشد ضرورت ہے۔ کیا ہماری تقاریر ذاتیات پر حملے کیے بغیر نہیں ہوسکتی ہیں ، کیا ایک دوسرے کی عزت اچھالے بغیر ہمارا گزارا ممکن نہیں۔ کیا دوسروں کو گالی گلوچ دئیے بغیر سیاست ممکن نہیں ۔ .یہ سب برے کلچر کی پیداوار ہے مگر ہم اس کو سمجھنے سے انکاری ہیں۔ پتا نہیں ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ یہ بدتمیزی ہماری ذات سے شروع ہو کر ہماری ذات پر ہی ختم ہوتی ہے. اللہ ہی رحم کرے ہمارے حال پر۔
اسماء طارق (تبادلۂ خیال) 00:18، 29 نومبر 2018ء (UTC)
تعلیمی اداروں میں منشیات کا استعمال
ترمیمتعلیمی اداروں میں منشیات کا استعمال
اسماء طارق گجرات
ہمارے پروفیسر اپنے ایک طالبعلم کی اکثر تعریف کرتے رہتے تھے مگر کچھ دنوں پہلے وہ اس کے ذکر پر افسردہ ہو گئے بتانے لگے کہ عرصے بعد پرسوں میری ملاقات فیضان سے ہوئی تو میں اس کو پہچان بھی نہیں پایا۔ میلے کچیلے کپڑے،پھٹی ہوئی چپل، گویا کہ کوئی پرسان حال نہیں تھا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ فیضان تم نے اپنا کیا حال بنا رکھا ہےتو وہ کہنےلگاکہ مجھے نشے نے تباہ و برباد کردیا ہے۔ میں کہا کہ کیا مطلب؟ کہنے لگا کہ میں ہیروئن کا نشہ کرتا ہوں ۔ یہ سن کر میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گئی کہ یہ تو ایک نوجوان کی کہانی تھی مگر اس کے علاوہ ایسے ان گنت نوجوانوں کہانیاں ہمارے آس پاس موجود ہیں جن کو منشیات نے تباہ و برباد کر دیا ہے۔ایک اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں جو منشیات استعمال کی جاتی ہیں ان میں شراب ، ہیروئن ،چرس،افیون،بھنگ،کرسٹل کے علاوہ کیمیائی منشیات جیسے صمد بانڈ، نشہ آور ٹیکے اور سکون بخش ادویات شامل ہیں ۔ اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 76 لاکھ افراد منشیات استعمال کرتے ہیں جن میں 78 فیصد مرد اور 22 فیصد خواتین شامل ہیں ۔
دنیا بھر میں بہت سے ممالک منشیات کے مسائل کا شکار ہیں جن میں پاکستان بھی شامل ہے ۔ لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ برائی سڑکوں سے نکل کر نہ صرف اب ہمارے تعلیمی اداروں تک رسائی پا چکی ہے بلکے ہماری تعلیمی جڑوں میں بھی سرایت کر گئی ہے جسکی وجہ سے نوجوان طالب علم طرح طرح کی منشیات شکار ہو کر اس کے عادی بن جاتے ہیں اور اپنی زندگی تباہ و برباد کر لیتے ہیں ۔ ایسے کئی واقعات ہیں جہاں پولیس نے کارروائی میں ایسے کئی گروہوں کو گرفتار کیا ہے جو تعلیمی اداروں میں منشیات فراہم کرتے تھے ۔ یہ گروہ ملک کے جامعات میں طرح طرح کی منشیات سپلائی کرتے ہیں اور یہ گروہ کسی نہ کسی طریقے سے جامعات سے جڑے بھی ہونگے جس وجہ سے اکثر ان کی پہچان کرنا ممکن نہیں رہتا ۔ عموما یہ لوگ ایسی سرگرمیوں میں طالبعلموں کو بھی شامل کر لیتے ہیں اور نہ صرف ان کی زندگیوں کو تباہ کرتے ہیں بلکے انہیں دوسروں کی بھی زندگی برباد کرنے پر اکساتے ہیں اور یوں یہ برائی انہی نوجوانوں کے ہاتھوں ہی پھیلتی جاتی ہے اور کئی اور نوجوانوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے اور یوں یہ کالی بھیڑیں نقاب اوڑھے ہماری جڑیں کھوکھلی کرتی جا رہی ہیں اور ہم خاموش تماشائی بنے یہ سب دیکھ رہے ہیں ۔افسوس کہ یہ بیماری ک بڑھتی ہی جارہی ہے مگر کسی کی اس طرف نظر ہی نہیں جاتی ہے ۔اور سب سے بڑھ کر اس سے شرم اور ذلت کا کیا مقام ہو گا جب وہ ادارے جہاں انسان کو انسان بنایا جاتا ہے اسے کسی قابل بتایا جاتا ہے وہی اسے کسی قابل نہ چھوڑیں ۔ جب وہاں انہیں شعور اور آگاہی ملنے کی بجائے انہیں اسے سلب کرنے والی منشیات ملے تو کیا وقار رہ جائے گا ان اداروں گا ۔ تعلیمی ادارے یہاں تو ہسپتالوں میں بھی یہ گندگی پل رہی ہے جب زندگی دینے والے خود زندگی چھیننا شروع کر دیں تو وہاں انسانیت کے پاس شرمسار ہونے کا علاوہ کیا مقام رہ جائے گا مگر صد افسوس کہ ہم وہ شرم بھی محسوس نہیں کرتے اور اسی لیے تو ایسے لوگ دیدہ دلیری کے ساتھ ہماری ناک کے نیچے یہ سب کر رہے ہوتے ہیں اور ہمیں خبر نہیں ہوتی ۔۔ اب ان عادی بچوں کو اس سب کے لئے پیسے بھی چاہیے مگر چونکہ اپنا کوئی وسیلہ معاش نہ ہونے کی وجہ یہ والدین پر ہی دپنڈ ہوتے ہیں اب والدین سے تو انہیں صحیح طریقے سے اس کام کے لیے پیسے کسی صورت نہیں مل سکتے سو وہ جھوٹ بولیں گے، ہیرہ پھیری کریں گے حتی کہ ایسے بچے اپنے ہی چوری اور ڈاکے ڈالنا شروع کر دیں گے اور اس میں دوستوں کو بھی ملا لیں گے اور والدین تو تب خبر ہوتی جب وہ عادی بن چکے ہوتے ہیں ۔ منشیات کسی ایک آدمی کی زندگی تباہ نہیں کرتی ہے بلکہ اس آدمی سے جڑے تمام لوگوں کی زندگیوں پر اپنا کالا سایہ چھوڑ جاتی ہے جو ان کی زندگیوں کو بھی اندھیر نگری بنا جاتا ہے ۔منشیات نسلوں کی نسلوں کو نگل جاتی ہے ، یہ ہماری پوری قوم کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ ہمارے مستقبل کا معمار جنہوں نے ملک کو ترقی کی آنچائیوں پر لے کر جانا ہے وہ خود ایک زوال کا شکار ہیں ۔ والدین اور اساتذہ کو چاہیے کہ وہ بچوں پر نظر رکھیں ،انہیں کسی ایسی ویسی کمپنی کا حصہ نہ بننے دیں، نظر رکھیں کہ وہ کن لوگوں میں اٹھتے بیٹھتے ہیں اور کیسے مشاغل رکھتے ہیں تاکہ اگر ایسی کوئی حرکت ملے تو وقت رہتے اس کا سدباب ہو سکے ۔
افسوسناک بات تو یہ ہے ہماری یہ نسل منشیات کو فیش سمجھتی ہے اور اسی فیش کے چکر میں وہ اسکے نقصانات کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور اپنی زندگی اپنے ہاتھوں تباہ کر لیتے ہیں ۔ نوجوانوں میں اس بات کا شعور دلانے کی اشد ضرورت ہے کہ یہ منشیات در حقیقت کس تباہی کا نام ہے اور وہ انہیں کیا سمجھ کر استعمال کرتے ہیں اور اس کےلیے والدین اور اساتذہ کو چاہیے کہ وہ بچوں کی کاونسلنگ کریں انہیں بیٹھا کر بتائیں کہ یہ کیا بیماری ہے اور اس کے کیا نقصانات وقتا فوقتا ان سے ان کے متعلق بات چیت کرتے رہا کریں اور ان کے مشاغل پوچھتے رہیے ۔ایک سروے کے مطابق بچوں میں اس کا استعمال تنہائی کی وجہ سے بھی پایا جاتا ہے انہیں والدین کی طرف سے وقت نہیں ملتا جس کے نتیجے میں وہ ایسی سرگرمیوں کا حصہ بن جاتے ہیں ۔ اس سب کے ساتھ ساتھ حکومت کو چاہیے کہ اس معاملے کو سنگینی سے لے اور عوام کو روشناس کرنے کے اقدامات کرے اور تمام منشیات فروشوں کے خلاف سخت کاروائی کریں تاکہ ایسے لوگوں کا صفایا ہو سکے ۔ ۔ اسماء طارق (تبادلۂ خیال) 00:22، 29 نومبر 2018ء (UTC)