گزشتہ صفحہ: سراج النسا کا انتقال

سراج النسا کی وفات کے بعد جب نوکروں نے دیکھا کہ اب اندھی مرغی جال میں پھنسی ہوئی ہے تو انہوں نے دونوں ہاتھوں سے غریب ابوالمحاسن کو لوٹنا شروع کیا۔ ابوالمحاسن کو کاروبار سے کچھ واقفیت نہ تھی اور نہ ہی بیوی کی موجودگی میں اسے کچھ ضرورت تھی کیونکہ لائق اور دیانتدار بی بی سب کام اپنے ہی ہاتھوں سے سرانجام دیا کرتی تھی۔ ابوالمحاسن کو بی‏بی کے باعث سخت رنج ہوا، کاروبار تباہ ہو گیا۔ لڑکے کی عادتیں بگڑ رہی تھیں۔ انہی وجوہات سے اس نے سراج النسا کی وفات کے چھ ماہ بعد دوسری شادی کر لی۔ یہ شادی خانہ آبادی نہ ہوئی، کیونکہ ابوالمحاسن کی نئی بیوی نے آتے ہی گھر میں جھاڑو پھیر دی۔

ابوالمحاسن کی نئی بیوی اور ابوالحسن کی سوتیلی ماں خصمیہ گو شکل و صورت میں چنداں قابل اعتراض نہ تھی، مگر سو عیبوں کا عیب اس میں یہ تھا کہ پرلے درجے کی سخت مزاج، خودپسند اور نافرمانبردار اور بدسلیقہ تھی۔ ابوالمحاسن شادی کر کے کفِ افسوس مل رہا تھا، مگر کچھ کر نہیں سکتا تھا۔

شعر:

سودا گلے پڑے کا ہے اچھا ہے یا برا

ناچار ساتھ دیتے ہیں بختِ سیاہ کا

نیک بخت بیوی نے آتے ہی گھر کی کایا پلٹ دی۔ ابوالمحاسن کو امید تھی کہ ہرچند خصمیہ جاہل مطلق اور سخت مزاج ہے مگر ایسی بھی کیا بیوقوف ہے کہ گھر کا ستیاناس کر دے گی رہی سہی دولت پر اس بے سلیقہ عورت اور بستروں کی نالا نے پانی پھیر دیا۔ اور سب سے بڑھ کر یہ ظلم کیا کہ خاندان کے آئندہ چشم و چراغ جس پر ابوالمحاسن کو بہت کچھ امیدیں تھیں، بگاڑ دیا۔ ابوالحسن نے بے لگام ہو کر شوخی و شرارت میں وہ کھیل کھیلیں کہ آج اسے ایک عالم ابوالظرفا کا خطاب دے رہا ہے۔

اگلا صفحہ: ابوالحسن اور خصمیہ

رجوع بہ فہرست مضامین: سوانح عمری ملا دوپیازہ