Akbar Aurakzai
بسم اللہ الرحمن الرحیم الحمد لله وسلام علی عبادہ الذین اصطفی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اما بعد جناب رسول ﷺ کی لائی ہوئی شریعت ہر جھت سے کامل و مکمل ہے اسمیں عقاید و عبادات اخلاق و آداب العرض انسانی زندگی کے تمام ہی شعبوں کے متعلق واضح ہدایات دی گئی ہیں انسان کی تعمیر اس کی بچپن کی تعلیم پر منحصر ہے ہر والدین کا یہ ایک اسلامی اور اخلاقی فریضہ ہے کہ وہ اپنی اولاد کی اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اس کی تربیت کرے جو نومولود کا بنیادی حق اور والدین کی ابتدائی ذمہ داری ہے لھذا ہم ماں باپ کی ابتدائی ذمہ داریوں کے سلسلے میں آپ حضرات کے سامنے چند احادیث رسولﷺ پیش کرنے کی سعادت حاصل کرنا چاہتے ہیں اللہ عزوجل ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق بخشے ۔۔۔آمین
ماں باپ کی ابتدائی ذمہ داریاں
ترمیمنومولود بچہ کے کان میں اذان
(۱) عن ابی رافع قال رایت رسول الله ﷺ اذن فی اذن الحسن بن علی حین ولدته فاطمة ۔ رواہ الترمذی و ابوداؤد ترجمہ :۔ رسول اللہ ﷺ کے آذاد کردہ غلام حضرت ابو رافع ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول ﷺ کو ( اپنے نواسے ) حسن بن علی کے کان میں نماز والی اذان پڑھتے ہوئے دیکھا جب ( آپ کی صاجزادی ) فاطمہ کے ہاں ان کی ولادت ہوئی ( جامع ترمذی سنن ابی داؤد ) تشریح :۔ حضرت ابو رافع ؓ کی اس حدیث میں حضرت حسنؓ کے کان میں اذان پڑھنے کا ذکر ہے لیکن ایک دوسری حدیث سے جو ’’ کنز العمال ‘‘ میں مسند ابي یعلی موصلی کی تخریج سے حضرت حسین بن علی ؓ سے روایت کی گئی ہے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے نومولود بچہ کے داہنے کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت پڑھنے کی تعلیم و ترغیب دی اور اس برکت اور تاثیر کا بھی ذکر فرمایا کہ اس کی وجہ سے بچہ ام الصبیان کے ضرر سے محفوظ رہے گا ( جو شیطانی اثرات سے بھی ہوتا ہے ) ۔
ان حدیثوں سے معلوم ہوا کہ نومولود بچہ کا پہلا حق گھر والوں پر یہ ہے کہ سب سے پہلے اس کے کانوں کو اور کانوں کے ذریعہ اس کے دل و دماغ کو اللہ کے نام اور اس کی توحید اور ایمان و نماز کی دعوت و پکار سے آشنا کریں اس کا بہتر سے بہتر طریقہ یہی ہو سکتا ہے کہ اس کے کانوں میں اذان و اقامت پڑھی جائے اذان و اقامت میں دین حق کی بنیادی تعلیم اور دعوت مؤثر طریقے سے دی گئی ہے نیز ان دونوں کی یہ تأثیر اور خاصیت بہت سے احادیث میں بیان کی گئی ہے کہ اس سے شیطان بھاگتا ہے اسلئے بچہ کی حفاظت کی بھی یہ ایک تدبیر ہے رسول اللہ ﷺ نے پیدائش کے وقت نومولود مسلمان بچے کے کان میں اذان و اقامت پڑھنے کی تعلیم دی اور جب عمر پوری کرنے کے بعد اس کو موت آجائے تو غسل دے کر اور کفنا کر اس پر نماز جنازہ پڑھنے کی ہدایت فرمائی اس طرح یہ بتلادیا اور جتلادیا کہ مومن کی زندگی اذان اور نماز کے درمیان کی زندگی ہے اور وہ بس اس طرح گزرنی چا ہئے جس طرح اذان کے بعد نماز کے انتظار اور اس کی تیاری میں گزرتی ہے ۔ نیز یہ کہ مسلمان بچے کا پہلا حق یہ ہے کہ پیدائش کے ساتھ ہی اس کے کان میں اذان دی جائے اور آخری حق یہ ہے کہ اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے ۔ تخنیک اور دعائے برکت رسول اللہ ﷺ کی معرفت اور صحبت کے نتیجہ میں صحابہ کرام ؓ کو آپ کے ساتھ عقیدت کا جو تعلق تھا اس کا ایک ظہور یہ بھی تھا کہ نو مولود بچے آپ کی خدمت میں لائے جاتے تھے تا کہ آپ ان کیلئے خیر و برکت کی دعا فرماویں اور کھجور یا ایسی ہی کوئی چیز چبا کر بچے کے تالو پر مل دیں اور اپنا لعاب دہن اس کے منھ میں ڈال دیں جو خیر و برکت کا باعث ہو اس عمل کو تخنیک کہتے ہیں (۲) عن عائشة ان رسول الله ﷺ کان یوتی بالصبیان فیبرک عليهم و یحنكهم رواہ مسلم ترجمہ :۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو رسول اللہ ﷺ کے پاس لایا کرتے تھے تو آپ ان کیلئے خیر و برکت کی دعا فرماتے تھے اور تحنیک فرماتے تھے
(۳)عن اسماء بنت ابی بکر انھا حملت بعبد اللہ بن الزبیر بمکۃ قالت فولدت بقباء ثم اتیت بہ رسول اللہ ﷺ فوضعتہ فی حجرہ ثم دعا بتمرۃ فمضغھا ثم تفل فی فیہ ثم حنکہ ثم دعا لہ و برک علیہ و کان اول مولد و لد فی الاسلام . رواہ بخاری و مسلم.
ترجمہ :۔ حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ سے روایت ہے کہ وہ ہجرت سے پہلے مکہ حمل سے تھیں جب ہجرت کر کے مدینہ آئیں تو قباء میں ان کچ ولادت ہوئی اور عبداللہ بن زبیر پیدا ہوئے کہتی ہیں کہ میں بچے کو لیکر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور میں نے اس کو آپ کے گود میں رکھ دیا آپ نے چھوارہ منگوایا اور اس کو چبایا پھر اپنا لعاب دہن اس کے منھ میں ڈالا اور پھر اس کے تالو پر ملا پھر اس کیلئے دعا کی اور برکت سے نوازا اور یہ اسلام میں پہلا بچہ تھا ( جو وہ ہجرت کے بعد ایک مہاجر کے گھر پیدا ہوا ) ( صحیح بخاری و صحیح مسلم )
(تشریح ) صحیح بخاری کی اس حدیث کی ایک روایت میں یہ اضافہ بھی ہے کہ حضرت عبداللہ بن زبیر کے پیدا ہونے سے مسلمانوں کو خاص کر اسلئے بہت زیادہ خوشی ہوئی تھی کہ یہ بات مشہور ہو گئی تھی کہ یہودیوں نے مسلمانوں پر ایسا جادو کر دیا ہے کہ ان کے بچے پیدا ہی نہ ہوں گے عبداللہ بن زبیر ؓ کی پیدائش نے اس کو غلط ثابت کر دیا اور مسلمانوں کے جو دشمن یہ جادو والی بات مشہور کر رہے تھے وہ ذلیل ہوئے . کتب حدیث میں ’’ تحنیک ‘‘ کے بہت سے واقعات مروی ہیں ان سے معلوم ہوا کہ جب کسی گھر انے میں بچہ پیدا ہو تو چاہئے کہ اللہ کے کسی مقبول اور صالح بندے کے پاس اس کو لے جائیں اس کے لئے خیروبرکت کی دعا بھی کرائیں اور ’’ تحنيک ‘‘ بھی کرائیں یہ ان سنتوں میں سے ہے جن کا رواج بہت ہی کم رہ گیا ہے عقیقہ دنیا کے قریب قریب سب ہی قوموں اور ملتوں میں یہ بات مشترک ہے کہ بچہ پیدا ہونے کو ایک نعمت اور خوشی کی بات سمجھا جاتا ہے اور کسی تقریب کے ذریعہ اس خوشی کا اظہار بھی کیا جاتا ہے یا انسانی فطرت کا تقاضہ بھی ہے اور اس میں ایک بڑی مصلحت یہ ہے کہ اس سے نہایت لطیف اور خوبصورت طریقے پر یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ باپ اس بچے کو اپنا ہی بچہ سمجھتا ہے اور اس بارے میں اس کو اپنی بیوی پر کوئی شک و شبہ نہیں ہے اس سے بہت سے فتنوں کا داروازہ بند ہو جاتا ہے عربوں میں اس کیلئے جاہلیت میں بھی عقیقہ کا رواج تھا دستور یہ تھا کہ پیدائش کے چند روز بعد نومولود بچے کے سر کے وہ بال جو وہ ماں کے پیٹ سے لیکے پیدا ہوا ہے صاف کرا دیئے جاتے اور اس دن خوشی میں کسی جانور کی قربانی کی جاتی ( جو ملت ابراہیمی کی نشانیوں میں سے ہے ) رسول اللہ ﷺ نے اصولی طور پر اس کو باقی رکھتے ہوئے بلکہ اس کی ترغیب دیتے ہوئے اس کے بارے میں مناسب ہدایات دیں اور خود عقیقے کر کے عملی نمونہ بھی پیش فرمایا
(۴) عن بریدہ قال کنا فی الجاھلیۃ اذا ولد لاحدنا غلام ذبح شاۃ ولطخ راسہ بدمھا فلما جاع الاسلام کنا نذبح شاۃ یوم السابع و نحلق راسہ ونلطخہ بزعفران رواہ ابوداؤد . ترجمہ :۔ حضرت بریدہ ؓ سے روایت ہے کہ زمانہ جاہلیت میں ہم لوگوں کا یہ دستور تھا کہ جب کسی کے لڑکا پیدا ہوتا تو وہ بکری یا بکرا ذبح کرتا اور اس کے خون سے بچے کے سر کو رنگ دیتا پھر جب ایلام آیا تو ( رسول اللہ ﷺ کی تعلیم و ہدایت کے مطابق ) ہمارا یہ طریقہ ہو گیا کہ ہم ساتویں دن عقیقہ کی بکری یا بکرے کی قربانی کرتے ہیں اور بچے کا سر صاف کرا کے اس کے سر پر زعفران لگا دیتے ہیں ( سنن ابی داؤد )
اور اسی حدیث کی رزین کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ ساتویں دن عقیقہ کے ساتھ ہم بچے کا نام بھی رکھتے ہیں .
(۵) عن عائشہ قالت کانوا فی الجاھلیۃ اذا عقوا عن الصبی خصبوا قطنۃ بدم العقیقۃ فاذا حلقوا راس الصبی و ضعوھا علی راسہ فقال النبی ﷺ اجعلوا مکان الدم خلوقا رواہ ابن حبان فی صحیحہ
ترجمہ :۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ زمانہ جاہلیت میں لوگوں کا یہ دستور تھا کہ جب وہ بچے کا عقیقہ کرتے تور روئی کے ایک پھوئے میں عقیقہ کے جانور کا خون بھر لیتے پھر جب بچے کا سرمنڈوا دیتے تو وہ خون بھرا پھویا اس کے سر پہ رکھ دیتے ( اور اس کے سر کو عقیقہ کے خون سے رنگین کر دیتے یہ ایک جاہلانہ رسم تھی ) تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :۔ ’’ بچے کے سر پر خون نہیں بلکہ اس کی جگہ خلوق لگایا کرو ‘‘ (صحیح حبان ) . (تشریح) خلوق ایک مرکب خوشبو کا نام ہے جو زعفران وغیرہ سے تیار کیجاتی ہے حضرت بریدہ اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی ان حدیثوں سے معلوم ہوا کہ عقیقہ کا رواج عربوں میں زمانہ جاہلیت میں بھی تھا چونکہ اس میں بہت سی مصلحتیں تھیں جن کی طرف اوپر اشارہ کیا جا چکا ہے اور یہ بنیادی طور شریعت اسلامی کے مزاج کے مطابق تھا اور غالباً مناسک حج کی طرح ملت ابراہیمی کے بقایا میں سے تھا اسلئے رسول اللہ ﷺ نے اس کی اصل کو باقی رکھا اور جاہلانہ رسوم کی اصلاح فرمائی . اسی طرح بیہقی کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ عقیقہ کا رواج یہود میں بھی تھا لیکن وہ صرف لڑکوں کی طرف سے عقیقہ کی قربانی کرتے تھے لڑکیوں کی طرف سے نہیں کرتے تھے جس کی وجہ غالباً لڑکیوں کی ناقدری تھی رسول اللہ ﷺ نے اس کی بھی اصلاح فرمائی اور حکم دیا کہ لڑکوں کی طرح لڑکیوں کی طرف سے بھی عقیقہ کیا جائے (۱) البتہ دونوں صنفوں میں جو قدرتی اور فطری فرق ہے ( جس کا لحاظ میراث اور قانون شہادت وغیرہ میں بھی کیا گیا ہے ) اس کی بنا پر آپ نے فرمایا کہ لڑکی کے عقیقہ میں ایک بکری اور لڑکے کے عقیقہ میں ( اگر استطاعت اور وسعت ہو ) تو دو بکریوں کی قربانی کی جائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(6) عن ام کرز قالت سمعت رسول اللہ ﷺ یقول عن الغلام شاتان وعن الجاریۃ شاۃ ولا یضرکم ذکرانا کن او اناثا رواہ الترمذی ۃ النسائی ترجمہ :۔ ام کرز ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ( عقیقہ کے بارے میں ) فرما رہے تھے کہ لڑکے کی طرف سے دو بکریاں کی جائیں اور لڑکی کی طرف سے ایک اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ عقیقہ کے جانور نر ہوں یا مادہ ( جامع ترمذی سنن نسائی ) (۷) عن عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ قال رسول اللہ ﷺ من ولد لہ ولد فاحب ان ینسک عنہ فلینسک عن الغلام شاتین وعن الجاریۃ شاۃ ۔۔۔رواہ ابو داود و النسائی ترجمہ :۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے روایت ہے کہ :۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس کے بچے پیدا ہو اور وہ اس کی طرف سے عقیقہ کی قربانی کرنا چاہے تو لڑکے کی طرف سے دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری کی قربانی کرے ( سنن ابی داؤد سنن نسائی ) .
( تشریح )اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عقیقہ فرائض و واجبات کی طرح کوئی لازمی چیز نہیں ہے بلکہ اس کا درجہ استحاب کا ہے جیسا کہ حدیث کے خط کشیدہ الفاظ سے معلوم ہوتا ہے واللہ اعلم اسی طرح لڑکے کے عقیقہ میں بکریاں کرنا بھی کچھ ضروری نہیں ہے ہاں اگر وسعت ہو تو دۃ کی قربانی بہتر ہے ورنہ ایک بھی کافی ہے ۔ آگے درج ہونے والی ایک حدیث سے معلوم ہوگا کہ خود رسول اللہ ﷺ نے حضرت حسن ؓ اور حضرت حسین ؓ کے عقیقہ میں ایک ہی ایک بکری کی قربانی کی تھی
(۸) عن الحسن عن سمرۃ بن جندب ان رسول اللہ ﷺ قال کل غلام رھینۃ بعقیقۃ تذبح عنہ یوم سابعہ و یحلق و یسمی رواہ ابو داؤد و الترمذی و النسائی ترجمہ :۔ حضرت حسن بصری نے حضرت سمرہ بن جندب ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :۔ ہر بچہ اپنے عقیقہ کے جانور کے عوض رہن ہوتا ہے جو ساتویں دن اس کی طرف سے قربانی کیا جائے اور اس کا سر منڈوادیا جائے اور نام رکھا جائے (سنن ابی داود ‘ جامع ترمذی ‘ سنن نسائی )
(تشریح )عقیقہ کے جانور کے عوض بچے کے رہن ہونے کے شارحین نے کئی مطلب بیان کئے ہیں اس عاجز کے نزدیک دل کو زیادہ لگنے والی بات یہ ہے کہ بچہ اللہ نعالی کی ایک بڑی نعمت ہے اور صاحب استطاعت کیلئے عقیقہ کی قربانی اس کا شکرانہ اور گویا اس کا فدیہ ہے جب تک یہ شکریہ پیش نہ کیا جائے اور فدیہ ادا نہ کر دیا جائے وہ باقی رہے گا اور گویا بچہ اس کے عوض رہن رہے گا
پیدائش ہی کے دن عقیقہ کرنے کا حکم غالیا اسلئے نہیں دیا گیا کہ اس وقت گھر والوں کو زچہ کی دیکھ بھال کی فکر ہوتی ہے علاوہ ازیں اسی دن بچے کا سر صاف کرادینے میں طبی اصول پر ضرر کا بھی خطرہ ہے ایک ہفتہ کی مدت ایسی ہے کہ اس میں زچہ بھی عموما ٹھیک ہو جاتی ہے اور بچہ بھی سات دن تک اس دنیا کی ہوا کھا کے ایسا ہو جاتا ہے کہ اس کا سر صاف کرادینے میں ضرر کا خطرہ نہیں رہتا واللہ اعلم اس حدیث سے اور بعض دوسری احادیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ عقیقہ کے ساتویں دن بچے کا نام بھی رکھا جائے لیکن بغض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بعض بچوں کا نام پیدائش کے دن ہی رکھ دیا تھا اسلئے ساتویں دن سے پہلے نام رکھ دینے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے ہاں اگر پہلے نام نہ رکھا گیا ہو تو ساتویں دن عقیقہ کے ساتھ نام بھی رکھ دیا جائے جن حدیثوں میں ساتویں دن عقیقہ کے ساتھ نام رکھنے کا ذکر ہے ان کا مطلب یہی سمجھنا چاہئے .
(۹) عن سلمان بن عامر الضبی قال سمعت رسول اللہ ﷺ یقول مع الغلام عققہ فاھر یقوا عنہ دما امیطوا عنہ الاذی رواہ البخاری . ترجمہ :۔ حضرت سلمان بن عامر الضبی ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ بچے کے ساتھ عقیقہ ہے ( یعنی اللہ تعالی جس کو بچہ عطا فرمائے وہ عقیقہ کرے )لہذا بچے کی طرف سے قربانی کرو اور اس کا سر صاف کرا دو (صحیح بخاری )
(تشریح ) عقیقہ میں جیسا کہ ان حدیثوں سے ظاہر ہے دو ہی کام ہوتے ہیں ایک بچے کا سر منڈوا دینا اور دوسرا اس کی طرف سے شکرانہ اور فدیہ کے طور پر جانور قربان کر دینا ان دونوں عملوں میں ایک خاص ربط اور مناسبت ہے اور یہ ملت ابراہیمی کے شعائر میں سے ہیں حج میں بھی ان دونوں کا اسی طرح جوڑ ہے اور حاجی قربانی کرنے کے بعد سر صاف کراتا ہے اس لحاظ سے عقیقہ عملی طور پر اس کا بھی اعلان ہے کہ ہمارا رابطہ اللہ کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہے اور بچے بھی ملت ابراہیمی ہی کا ایک فرد ہے .
(۱۰) عن ابن عباس ان رسول اللہ ﷺ عق عن الحسن و الحسین کبشاً کبشاً رواہ ابو داود ترجمہ :۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ( اپنے نواسوں ) حسن اور حسین کا عقیقہ کیا اور ایک ایک مینڈھا ذبح کیا (سنن ابی داود )
(تشریح ) حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کے عقیقہ میں رسول اللہ ﷺ نے صرف ایک ایک مینڈھے کی قربانی غالباً اسلئے کی کہ اس وقت اتنی ہی وسعت تھی اور اسی طرح ان لوگوں کیلئے جن کو زیادہ وسعت حاصل نہ ہو ایک نظیر بھی قائم ہو گئی اس حدیث کی بعض روایات میں بجائے ایک ایک مینڈھے کے دو دو مینڈھوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے لیکن محدثین کے نزدیک سنن ابی داؤد کی یہی روایت قابل ترجیح ہے جس میں ایک ایک مینڈھے کا ذکر کیا گیا ہے . (۱۱) عن علی بن ابی طالب قال غق رسول اللہ ﷺ عن الحسن بشارۃ و قال یا فاطمہ احلقی راسہ و تصدقی بزنۃ شعرہ فضۃ فوزناہ فکان وزنہ درھما او بعض درھم رواہ الترمذی ترجمہ :۔ حضرت علی ابن ابی طالبؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حسن کے عقیقہ میں ایک بکری کی قربانی کی اور آپ نے ( اپنی صاجزادی سیدہ ) فاطمہ سے سے فرمایا کہ اس کا سر صاف کردو اور بالوں کے وزن بھر چاندی صدقہ کر دو ہم نے وزن کیا تو وہ ایک درہم برابر یا اس سے بھی کچھ کم تھے ( جامع ترمذی ) (تشریح )اس حدیث میں عقیقہ کے سلسلہ میں قربانی کے علاوہ بچے کے بالوں کے وزن بھی چاندی صدقہ کرنے کا بھی ذکر ہے یہ بھی مستحب ہے اس حدیث کے بیان کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے صاجزادہ حسنؓ کے بالوں بھر وزن بھر چاندی صدقہ کرنے کا حضرت سیدہ فاطمہ ؓ کو جو حکم دیا تھا بعض حضرات نے اس کی توجیہہ یہ کی ہے کہ حضرت حسن ؓ کی پیدائش کے دنوں میں ان کے ماں باپ ( حضرت فاطمہ اور حضرت علی ؓ ) کے ہاں اتنی وسعت نہیں تھی کہ وہ عقیقہ کی قربانی کر سکتے اسلئے رسول اللہ ﷺ نے بکری کی قربانی تو اپنی طرف سے کر دی لیکن حضرت فاطمہؓ سے فرما دیا کہ بچے کے بالوں کے وزن بھر چاندی وہ صدقہ کر دیں تاکہ ان کی طرف سے بھی کچھ شکرانہ صدقے کی شکل میں اللہ کے حضور میں گزر جائے .
تسمیہ ( نام رکھنا ) بچے کا اچھا نام رکھنا بھی ایک حق ہے احادیث نبوی ؐ میں اس بارے میں بھی واضح ہدایات وارد ہوئی ہیں . (۱۲) عن ابن عباس قال قال رسول اللہ ﷺ حق الولد علی الوالد ان یحسن اسمہ و یحسن ادبہ ۔۔۔ رواہ البیہقی فی شعب الایمان .
ترجمہ :۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ :۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :۔ باپ پر بچے کا یہ بھی حق ہے کہ اس کا اچھا نام رکھے اور اس کو حسن ادب سے آراستہ کرے (شعب الایمان للبیہقی )
(۱۳)عن ابی ھریرۃ قال قال رسول اللہ ﷺ اول ما ینحل الرجل ولدہ اسمہ فلیحسن اسمہ رواہ ابو الشیخ .
ترجمہ :۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ آدمی اپنے بچے کو سب سے پہلا تحفہ نام دیتا ہے اسلئے چاہئے کہ اس کا نام اچھا رکھے (ابو الشیخ)
(۱۴)عن ابی الدرداء قال قال رسول اللہ ﷺ تدعون یوم القیمۃ باسمائکم و اسماء آبا ئکم فاحسنو اسمائکم رواہ احمد و ابو داؤد ترجمہ:۔ حضرت ابو الدرداء ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن تم اپنے اور اپنے آباء کے ناموں کے ساتھ پکارے جاؤ گے (یعنی پکارا جائے گا فلاں بن فلاں ) لہذا تم اچھے نام رکھا کرو( مسند احمد ‘ سنن ابی داؤد ) (۱۵)عن ابن عمر قال قال رسول اللہ ﷺ ان احب اسمائکم الی اللہ عبداللہ و عبد الرحمن رواہ مسلم ترجمہ :۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تمھارے ناموں میں اللہ کو سب سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ عبداللہ اور عبدالرحمن ہیں (رواہ مسلم ) (تشریح) عبداللہ اور عبدالرحمن کے زیادہ پسندیدہ ہونے کی وجہ ظاہر ہے اس میں بندے کی عبدیت کا اعلان ہے اور یہ چیز اللہ کو پسند ہے اسی انبیاء علیہم السلام کے نام بھی ناموں میں سے ہیں وہ انبیاء علیہم السلام کے ساتھ نسبت کو ظاہر کرتے ہیں چنانچہ خود رسول اللہ ﷺ نے اپنے صاجزادے کا نام ابراہیم رکھا تھا اور سنن داود وغیرہ میں آپ کا یہ ارشاد بھی مروی ہے :۔ ’’ سموا باسماء الانبیاء ‘‘ ( یعنی پیغمبروں کے ناموں پہ نام رکھو ) اس کے علاوہ رسول اللہ ﷺ نے بعض بچوں کے نام ایسے بھی رکھے جو معنوی لحاظ سے اچھے ہیں اگرچہ وہ پیغمبروں کے معروف ناموں میں سے نہیں مثلا اپنے نواسوں کا نام حسن اور حسین رکھا اور ایک انصاری صحابی کے بچے کا نام منزر رکھا الغرض اس باب میں رسول اللہ ﷺ کے طرز عمل اور آپ کے ارسادات سے یہی رہنمائی ملتی ہے کہ باپ کی ذمہ داری ہے کہ بچے کا اچھا نام رکھے یا اپنے کسی بزرگ سے رکھوائے حسن ادب اور دینی تربیت اللہ کے سارے پیغمبروں نے اور ان سب کے آخر میں ان کے خاتم سیدنا حضرت محمد ﷺ نے اس چند روزہ دنیوی زندگی کے بارے میں یہی بتایا جائے کہ یہ دراصل آنے والی اس اخروی زندگی کی تمہید اور اس کی تیاری کیلئے ہے جو اصلی اور حقیقی زندگی ہے اور جو کبھی ختم نہ ہو گی اس نقطہ نظر کا قدرتی اور لازمی تقاضا ہے کہ دنیا کے سارے مسئلوں سے زیادہ آخرت کو بنانے اور وہاں فوزو فلاح حاصل کرنے کی فکر کی جائے اسلئے رسول اللہ ﷺ نے ہر صاحب اولاد پر اس کی اولاد کا یہ حق بتایا ہے کہ وع بالکل شروع ہی سے اس کی دینی تعلیم و تربیت کی فکر کرے اگر وہ اس میں کوتاہی کرے گا تو قصوروار ہو گا اس سلسلہ کی چند حدیثیں ذیل میں پڑھئے (۱۶) عن ابی عباس ؓ قال قال رسول اللہ ﷺ افتحوا علی صبیانکم اول کلمۃ بلا ’’الہ الا اللہ‘‘ ولقنوھم عند الموت’’ لاالہ الا اللہ ‘‘ رواہ البیہقی .
ترجمہ :۔ اپنے بچوں کی زبان سے سب سے پہلے ’’ لا الہ الا اللہ ‘‘کہلواؤ اور موت کے وقت ان کو اسی کلمہ ’’ لا الہ الا اللہ ‘‘ کی تلقین کرو (شعب الایمان للبیہقی )
(تشریح) انسانی ذہن کی صلاحیتوں کے بارے میں جدید تجربات اور تحقیقات سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے اور اب گویا تسلیم کر لی گئی ہے کہ پیدائش کے وقت ہی سے بچے کے ذہن میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ جو آوازیں وہ کان سے سنے اور آنکھوں سے جو کچھ دیکھے اس سے اثر لے اور وہ اثر لیتا ہے رسول اللہ ﷺ نے پیدا ہونے کے بعد ہی بچے کے کان میں (خاص کان میں )اذان و اقامت پڑھنے کی جو ہدایت فرمائی ہے (جیسا کہ حضرت ابو رافع اور حضرت حسین بن علی کی متذکرہ بالا روایات سے معلوم ہو چکا ہے ) اس سے بھی یہ صاف اشارہ ملتا ہے ۔۔۔۔۔۔ حضرت عبداللہ بن عباس کی اس حدیث میں ہدایت فرمائی گئی ہے کہ بچے کی زبان جب بولنے کیلئے کھلنے لگے تو سب سے پہلے اس کو کلمہ ’’ لا الہ الا اللہ ‘‘ کی تلقین کی جائے اور اسی سے زبانی تعلیم و تلقین کا افتتاح ہو ۔۔۔ ۔۔۔ آگے یہ بھی ہدایت فرمائی گئی کہ جب آدمی کا وقت آخر آئے تو اس وقت بھی اس کو اسی کلمہ کی تلقین کی جائے۔۔۔۔۔۔
بڑا خوش نصیب ہے اللہ کا وہ بندہ جس کی زبان سے دنیا میں آنے کے بعد سب سے پہلے یہی کلمہ نکلے اور دنیا سے جاتے وقت یہی اس کا آخری کلمہ ہو ۔۔۔ اللہ تعالی نصیب فرمائے
(۱۷)عن سعید بن العاص قال قال رسول اللہ ﷺ ما نحل والد ولدا من نحل افضل من ادب حسن۔۔۔ رواہ الترمذی ترجمہ :۔ حضرت سعید بن العاص ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ :۔ کسی باپ نے اپنی الاد کو کوئی عطیہ اور تحفہ حسن ادب اور اچھی سیرت سے بہتر نہیں دیا (جامع ترمذی)
(تشریح) یعنی باپ کی طرف سے اولاد کیلئے سب سے اعلی اور بیش بہا تحفہ یہی ہے کہ ان کی ایسی تربیت کرے کہ وہ شائستگی اور اچھے اخلاق و سیرت کے حامل ہوں (۱۸)عن افس قال قال رسول اللہ ﷺ اکرموا اولادکم واحسنوا ادابھم ۔۔۔۔۔۔ رواہ ابن ماجہ ترجمہ :۔ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اپنی اولاد کا اکرام کرو اور (اچھی تربیت کے ذریعہ )ان کو حسن ادب سے آراستہ کرو ( سنن ابن ماجہ ) (تشریح)اولاد کا اکرام یہ ہے کہ ان کو اللہ تعالی کا عطیہ اور اس کی امانت سمجھ کر ان کی قدر اور ان کا لحاظ کیا جائے حسب استطاعت ان کی ضروریات حیات کا بندوبست کیا جائے ان کو بوجھ اور مصیبت نہ سمجھا جائے . ( جاري )