کماؤں کے آدم خور/موہن کا آدم خور/6

پچھلا: موہن کا آدم خور/5 فہرست اگلا: چوگڑھ کے شیر/1

میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ ایک وقت میں شیر کتنا کھا سکتا ہے لیکن یہ جانتا ہوں کہ شیر سانبھر کو دو دن میں، بھینس کو تین دن میں ختم کر سکتا ہے۔ شاید چوتھے دن کے لئے بھی کچھ بچ جائے۔ یہ بچھڑا پوری طرح جوان تو نہ تھا لیکن اسے کسی بھی طرح چھوٹا نہیں کہہ سکتے۔ شیر نے اسے تقریباً نصف کھا لیا تھا۔ اتنا پیٹ بھرنے کے بعد میرے اندازے کے مطابق شیر زیادہ دور نہ جا پاتا۔ زمین ابھی گھنٹہ دو گھنٹے نم رہتی اور شیر کا پیچھا کرنا آسان ہوتا۔

لاش کے آس پاس بے شمار پگ تھے۔ ایک لمبا چکر لگا کر میں نے شیر کی روانگی کے پگ دیکھ لئے۔ نرم پنجوں سے بننے والے پگ کھروں سے مدہم ہوتے ہیں۔ تاہم لمبے تجربے کے بعد یہ اتنا ہی آسان ہو جاتا ہے جتنا کہ شکاری کتا شکار کی بو پر چلتا ہے۔ میں سائے کی طرح خاموشی اور احتیاط سے آگے بڑھا۔ سو گز دور جا کر مجھے ایک ہموار قطعہ دکھائی دیا۔ یہ بیس فٹ چوڑا اور بیس فٹ ہی لمبا تھا۔ اس پر خوش بو دار گھاس اگی ہوئی تھی۔ گھاس ان جگہوں سے دبی ہوئی تھی جس پر شیر لیٹا ہوا تھا۔

ابھی میں یہ نشان دیکھ ہی رہا تھا کہ شیر کے قد و قامت کا اندازہ لگا سکوں کہ گھاس پھر سے سیدھی ہونے لگی۔ یقیناً شیر منٹ بھر ہی پہلے یہاں سے اٹھا تھا۔ شیر شکار کو شمال سے نیچے لایا تھا۔ اسے چھوڑ کر وہ مغرب کی طرف گیا۔ یہاں وہ چٹان، شکار اور میری موجودہ پوزیشن ایک تکون کی طرح تھیں۔ ایک سرا چالیس گز اور باقی دو سرے دو دو سو گز کے تھے۔

گھاس کو اٹھتے دیکھ کر مجھے پہلا خیال یہی آیا کہ شیر مجھے آتا دیکھ کر اٹھا ہے۔ تاہم یہاں سے وہ چٹان اور بچھڑے کی لاش دکھائی نہ دیتی تھی اور میں نے پیش قدمی میں خاصی احتیاط کی تھی۔ پھر شیر کیوں اٹھا؟ میری پشت پر چمکتا ہوا سورج اس کا جواب تھا اور اب صبح نو بجے ہی سے اس کی گرمی ناقابل برداشت ہوتی جا رہی تھی۔ سورج درختوں سے چند ہی منٹ پہلے اوپر آیا تھا اور اس جگہ اس کی دھوپ پڑنے لگی تھی۔ شیر کو جب گرمی لگی اور وہ میری آمد سے ذرا پہلے اٹھ کر کسی چھاؤں کی تلاش میں چلا گیا۔

جیسا کہ میں نے پہلے بتایا، گھاس کا یہ قطعہ بیس مربع فٹ کا تھا۔ اس کے ایک طرف شمالاً جنوباً درخت گرا ہوا تھا جس کا رخ میرے سامنے کی طرف تھا۔ یہ درخت چار فٹ موٹا اور گھاس کے سرے پر تھا۔ میں اس وقت گھاس کے درمیان میں موجود تھا۔ درخت مجھ سے دس فٹ دور تھا۔ جڑوں کا رخ پہاڑی کی طرف اور شاخیں میری طرف تھیں۔ اس کے پیچھے پہاڑی تقریباً زاویہ قائمہ بنا رہی تھی۔ یہاں سے تیس گز دور پہاڑی میں کھڈ تھا جو گھنے جنگل کی طرف جا رہا تھا۔

اگر میرا یہ اندازہ درست تھا کہ شیر دھوپ اور گرمی کی وجہ سے اٹھا ہے تو وہ لازما سائے کی تلاش میں اس درخت کے پیچھے گیا ہوگا۔ اس کی تصدیق کرنے کے لئے مجھے تھوڑا سا آگے بڑھ کر درخت کے اوپر سے جھانک کر دیکھنا پڑتا۔ کئی سال پرانی "پنچ" نامی رسالے میں چھپی ہوئی ایک تصویر مجھے یاد آ گئی۔ ایک شکاری شیر کی تلاش میں چٹان کے نیچے سے گذر رہا تھا۔ سر اوپر اٹھاتے ہی اس نے دیکھا کہ شیر اسے گھور رہا ہے۔ تصویر کے نیچے درج تھا کہ "شیر کی تلاش میں جاتے وقت توقع رکھیں کہ کسی بھی وقت شیر سے ملاقات ہو سکتی ہے"۔ یہاں فرق صرف اتنا سا تھا کہ مجھے اوپر کی بجائے نیچے دیکھنا تھا۔ باقی سب کچھ مشترک تھا۔

انچ انچ کر کے میں درخت کی طرف بڑھا۔ پانچ فٹ آگے جا کر میں نے دیکھا کہ ایک کالی اور پیلی سی چیز دکھائی دے رہی ہے۔ تین انچ لمبی یہ چیز چٹانی سرے کی طرف تھی جو کہ جنگلی جانوروں کی بنائی ہوئی پگڈنڈی تھی۔ منٹ بھر میں اسے دیکھتا رہا۔ یہ ساکت تھی۔ حتٰی کہ مجھے پورا یقین ہو گیا کہ یہ شیر کی دم کا سرا ہے۔

اگر دم کا سرا میری مخالف سمت تھا تو یقیناً سر میری طرف ہوتا۔ دم کا یہ سرا کوئی بیس فٹ دور تھا۔ شیر کی آٹھ فٹ کی جسامت ملا کر اس کا جسم مجھ سے بارہ فٹ دور ہوتا۔ یعنی شیر درخت کے پیچھے چھپا ہوا جست لگانے کے لئے تیار ہوگا۔ پھر بھی مجھے بہت آگے جا کر درخت کے اوپر سے جھانک کر دیکھنا پڑتا کہ کس جگہ شیر کو گولی مارنا بہتر رہے گا۔ زندگی میں پہلی بار مجھے سیفٹی کیچ استعمال کرنے کی عادت پر غصہ آیا۔ میری اعشاریہ 400/450 بور کی رائفل کا سیفٹی کیچ حرکت کرتے وقت واضح طور پر کلک کی آواز پیدا کرتا تھا۔ اس وقت ہلکی سی آہٹ سے بھی شیر حملہ کرنے کی بجائے دوسری جانب سے فرار ہو جاتا۔

انچ انچ کر کے میں آگے بڑھتا رہا حتٰی کہ شیر اس کی پوری دم اور پھر پچھلی ٹانگیں دکھائی دیں۔ جونہی اس کا پچھلا دھڑ دکھائی دیا، میرا دل چاہا کہ خوشی سے نعرہ لگاؤں۔ شیر چھلانگ لگانے کے لئے تیار نہیں بلکہ آرام سے سو رہا تھا۔ چونکہ درخت پر اس کے لئے دو فٹ جتنی ہی جگہ تھی، اس نے پچھلی ٹانگیں پھیلا کر پیچھے موجود درخت سے ٹکائی ہوئی تھیں۔ ایک فٹ اور آگے بڑھا تو مجھے شیر کا پیٹ دکھائی دیا۔ اس کی حرکت سے ظاہر ہو رہا تھا کہ شیر آرام سے سو رہا ہے۔ اب میں زیادہ تیزی سے آگے بڑھا اور پھر میں نے اس کے کندھے اور پھر سارا جسم دیکھا۔ اس کے سر کی پشت گھاس کے ٹکڑے پر تھی اور درخت کے تنے سے تین چار فٹ دور۔ اس کی آنکھیں بند تھیں اور ناک آسمان کی طرف تھا۔

رائفل سے اس کی پیشانی کا نشانہ لیتے ہوئے میں نے لبلبی دباتے ہوئے سیفٹی کیچ ہٹایا۔ مجھے قطعی اندازہ نہ تھا کہ اس کا کیا اثر ہوگا۔ تاہم تجربہ کامیاب رہا۔ اتنے قریب سے بھاری رائفل کی گولی لگی مگر اس کا رواں بھی نہ ہلا۔ میں نے دوسری گولی چلائی۔ شیر اسی حالت میں رہا۔ فرق صرف اتنا تھا کہ اس کے پیٹ کا پھولنا پچکنا بند ہو گیا تھا اور ماتھے کے دو ننھے ننھے سوراخوں سے خون بہہ رہا تھا۔

مجھے اندازہ نہیں کہ شیر کا قرب دوسروں پر کیسے اثر کرتا ہے لیکن میرا سانس ہمیشہ پھول جاتا ہے۔ اس کی وجہ خوف اور جوش دونوں ہی ہیں۔ اس کے فوراً بعد آرام کی طلب ہوتی ہے۔ میں اسی ٹوٹے ہوئے درخت کے تنے پر بیٹھ گیا اور سیگرٹ سلگا لیا۔ گلا خراب ہونے کی وجہ سے کئی دن سے میں سیگرٹ پینا چھوڑے ہوئے تھا۔ اب میں نے ذہن کو آزاد چھوڑ دیا۔ جب کام اچھے طریقے سے مکمل ہو جائے تو بہت اطمینان ملتا ہے۔ اس بار بھی ایسا ہی ہوا۔ میری یہاں آمد کی وجہ آدم خور کی ہلاکت تھی۔ دو گھنٹے قبل سڑک چھوڑنے سے لے کر سیفٹی کیچ ہٹانے تک بشمول لنگور کی آواز، سب کام بالکل بہترین انداز میں ہوئے تھے۔ اس وقت میں وہی کیفیت محسوس کر رہا تھا جو کیفیت کوئی مصنف اپنی کتاب کی تکمیل پر محسوس کرتا ہے۔ ایسی کتاب جس کا باب در باب اس کی توقع کے مطابق آگے بڑھتا چلا گیا ہو۔ تاہم میری موجودہ صورتحال میں اختتام اتنا تسلی بخش نہ تھا کیونکہ میں نے اس جانور کو سوتی ہوئی حالت میں پانچ فٹ دور سے ہلاک کیا تھا۔

میرے ذاتی احساسات شاید آپ کو دل چسپ نہ محسوس ہوں۔ تاہم یہ بات ملحوظ رہے کہ آدم خور کا شکار کوئی کرکٹ کا کھیل نہیں۔ میں آپ کے سامنے وہ دلائل پیش کرتا ہوں جو میں نے خود کو مطمئن کرنے کے لئے دیے۔ امید ہے کہ آپ کو بھی یہ دلائل قائل کر لیں گے:

1۔ شیر آدم خور تھا، اس کی زندگی سے زیادہ اس کی موت مطلوب تھی

2۔ شیر کا نیند یا بیداری کی حالت سے قطع نظر، مارا جانا ہی بہتر تھا

3۔ اگر میں اسے سوتی حالت میں چھوڑ کر چلا جاتا تو بعد میں ہونے والی تمام اموات کا میں براہ راست ذمہ دار ہوتا۔

تاہم یہ تمام دلائل بھی میرے دل سے یہ خلش نہ نکال پائے کہ میں نے شیر کو ایک بار جگا کر فرار کا موقع دیتے ہوئے گولی کیوں نہ چلائی۔ شیر مر چکا تھا اور یہ میرا انعام تھا۔ اسے نیچے گرنے اور پھر خراب ہونے سے بچانے کے لئے اسے جتنا جلد ممکن ہوتا، اس جگہ سے ہٹانا بہتر تھا۔ میں نے رائفل کو اسی گرے ہوئے درخت سے ٹکا دیا کیونکہ ابھی اس کا مزید فوری استعمال ضروری نہیں تھا۔ پھر میں سڑک پر پہنچا اور دونوں ہاتھوں کو منہ پر رکھ کر "کوووئی" کی آواز نکالی۔ مجھے دوسری بار آواز پیدا کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی کیونکہ میرے ساتھی ابھی پہلے بچھڑے سے ہو کر لوٹ رہے تھے کہ انہوں نے گولیوں کی آواز سنی۔ آواز سنتے ہی وہ بھاگ کر ہٹ کی طرف گئے اور دیہاتیوں کو اکٹھا کیا اور میری کوئی سنتے ہی بھاگم بھاگ ادھر آن پہنچے۔

جب رسیاں اور کلہاڑیاں آ گئیں تو میں انہیں ساتھ لے کر لوٹا۔ شیر کو رسیوں سے باندھ کر اور کچھ اٹھائے اور کچھ گھسیٹتے ہوئے نیچے اتارا۔ ابھی میں اس کی کھال اتارنے کی تیاری کر ہی رہا تھا کہ لوگوں نے درخواست کی کہ میں اس کام کو کچھ دیر کے لئے ملتوی کر دوں۔ کرتکالہ اور دیگر دیہاتوں کے لوگ اگر اپنے دشمن کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ پاتے تو بہت مایوس ہوتے۔اس دشمن کو جس کے خوف کے سائے تلے وہ کئی سالوں سے جی رہے تھے۔

دو چھوٹے چھوٹے درختوں کو کاٹ کر اس پر شیر کو لادا اور پھر ہم ہٹ تک پہنچے۔ میں نے دیکھا کہ کئی لوگ شیر کی ٹانگوں پر ہاتھ پھیر کر میری بات کی تصدیق کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہٹ کے سامنے میں نے شیر کو رکھوایا اور لوگوں سے کہا کہ دو بجے میں کھال اتارنا شروع کر دوں گا کہ دن بہت گرم تھے اور دیر کرتا تو بال جھڑنے لگ جاتے اور کھال خراب ہو سکتی تھی۔

دو بجے سے قبل اس شیر کا میں تفصیلی معائینہ نہ کر سکا۔ پھر میں نے شیر کو پشت کے بل لٹایا اور کھال اتارنا شروع کی۔ میں نے محسوس کیا کہ اگلے بائیں پنچے کے اندر والی طرف سے زیادہ تر بال گم ہیں اور اس میں چھوٹے چھوٹے سوراخ ہیں جن سے زرد مواد نکل رہا تھا۔ میں نے اس ٹانگ کو وہیں چھوڑا اور باقی کھال اتارنا شروع کی۔ یہ ٹانگ دوسری ٹانگوں کی نسبت پتلی تھی۔ جب باقی کھال اتر چکی تو میں نے سینے سے لے کر اس کے بائیں ٹانگ کے پنجے کی گدی تک گہرا شگاف لگایا۔ جونہی میں نے کھال اتارنا شروع کی اور گوشت سامنے آیا، اس میں چبھے ہوئے سیہی کے کانٹے میں نے یکے بعد دیگرے نکالنا شروع کر دیے۔ میرے ساتھ کھڑے دیہاتی اسے بطور سوغات قبول کرتے گئے۔ ان میں سب سے بڑا کانٹا پانچ انچ لمبا تھا۔ کل کانٹے پچیس سے تیس کے درمیان تھے۔ کھال کے نیچے شیر کے سینے سے لے کر پاؤں تک گوشت صابن کی طرح نرم تھا اور اس کا رنگ گہرا زرد ہو چکا تھا۔ اسی وجہ سے شیر چلتے ہوئے آواز پیدا کرتا تھا۔ اسی وجہ سے ہی وہ آدم خور بنا۔ سیہی کے کانٹے چاہے جتنے عرصے تک شیر کی کھال یا گوشت میں پیوست رہیں، گلتے نہیں۔

میں نے اب تک سیہی کے قریب دو سو کانٹے اپنے شکار کردہ آدم خوروں کے جسم سے نکالے ہیں۔ اکثر کانٹے نو انچ تک لمبے اور پینسل جتنے موٹے تھے۔ اکثریت مضبوط پٹھوں میں گھسی ہوئی تھی اور کھال سے ذرا نیچے سے ٹوٹے ہوئے تھے۔

ظاہر ہے کہ یہ کانٹے سیہی کے شکار کے دوران لگتے ہوں گے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شیر جیسے چالاک اور عقل مند جانور سے اتنی غفلت کیسے ہو سکتی ہے کہ سیہی اپنے کانٹے پھینک سکے۔ سیہی ایسا پیچھے ہٹتے ہوئے ہی کرتی ہے۔ یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کانٹے ٹوٹ کیوں جاتے ہیں کیونکہ وہ بھربھرے نہیں ہوتے؟ مجھے افسوس ہے کہ ان سوالات کا کوئی بھی تسلی بخش جواب میرے پاس نہیں۔ تیندوے شیروں کی طرح سیہی کو شوق سے کھاتے ہیں لیکن وہ کانٹوں سے ہمیشہ بچ نکلتے ہیں۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ تیندوے سیہی کو سر سے پکڑ کر ہلاک کرتے ہیں۔ شیر یہ طریقہ کیوں نہیں اپناتے؟ یہاں اس ضلعی کانفرنس کے دوران مجھے تفویض کردہ تین آدم خوروں میں سے دوسرا بھی اپنے انجام کو پہنچا۔ موقع ملتے ہی میں آپ کو کنڈا کے آدم خور کی ہلاکت کا واقعہ بھی سناؤں گا۔

پچھلا: موہن کا آدم خور/5 فہرست اگلا: چوگڑھ کے شیر/1